معاشی صحت کے لیے محض قرض کا انجکشن کافی نہیں
روزگار کی بحالی کے لیے چھوٹی صنعتوں کو سنبھالنے کی ضروت
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
عوام پر قرض کا بوجھ لادنے کے بجائے بڑی مدد کرنی چاہیے
فی الحال ملکی معیشت کا ہر شعبہ برے دور سے گزرہا ہے۔ سوائے زراعت کے کسی طرف سے بھی بہتری کی توقع نظر نہیں آرہی ہے۔ مگر مائیکرو، اسمال اور میڈیم انٹرپرائزیز (ایم ایس ایم ای) کا حال ناگفتہ بہ ہے حالاں کہ اسی پر معیشت کی مضبوطی کا دار ومدار کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے کیونکہ یہی ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ سب سے پہلے نوٹ بندی، پھر جی ایس ٹی نے اس کی کمر توڑ دی اور جو کچھ رہی سہی کسر تھی اسے کورونا وبا کے پے در پے جھٹکوں نے بے دم کر دیا ہے۔ ایم ایس ایم ای میں ملک بھر میں صنعتوں کی تعداد تقریباً چھ کروڑ تینتیس لاکھ ہے اور اس کی جی ڈی پی میں شراکت داری اسی فیصد ہے اور پینتالیس فیصد افراد یہاں سے روزگار حاصل کرتے ہیں۔ مگر مائیکرو اور چھوٹی صنعتیں مالی تغذیہ کی کمی کے سبب خون کی کمی کا شکار ہو چکی ہیں۔ کورونا قہر نے چند ایک ارب پتیوں کو چھوڑ کر سب کو زخم دیا ہے کیونکہ لاک ڈاون نے پیداوار، تقسیم اور سپلائی کے نظم کو بالکل ہی جام کر دیا تھا۔ ایسے حالات میں ایم ایس ایم ای مالی مسائل، مارکٹ میں کم طلب، تکنیکی پریشانیاں اور ہنر مند مزدوروں کی کمی کے مسائل سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے کارکردگی میں بہتری پیدا کرنے کا موقع نہیں مل رہا ہے۔ یہ صنعتیں ایسی مشکلات اور پریشانیوں میں بہتر کوالیٹی پروڈکٹس بازار میں لانے سے قاصر ہوتی ہیں۔ اس لیے انہیں اپنی لاگت اور خرچہ نکال پانا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ ملک کی ایم ایس ایم ای میں 99.4 فیصد یعنی چھ کروڑ پینتیس لاکھ کی حصہ داری مائیکرو انٹر پرائز کا رہتا ہے اور چھوٹی صنعتوں کی حصہ داری 0.52فیصد یعنی تین لاکھ تینتیس ہزار لوگ اس سے جڑے ہوتے ہیں۔ آل انڈیا مینو فیکچرس آرگنائزیشن (اے آی ایم او) کے حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً دیڑھ سال میں کورونا کی لہر کی وجہ سے پینتیس فیصد ایم ایس ایم ای سے منسلک صنعتوں کو اپنے کاروبار بند کرنے پڑے ہیں۔ صرف کاروبار ہی بند نہیں ہوئے بلکہ بے تحاشہ بے روزگاری بھی بڑھی جس سے طلب میں تنزلی آئی۔ نتیجتاً معیشت جلدی سنبھلنے کی حالت میں نہیں ہے۔ ایک سینئر بینک عہدیدار کے مطابق ایم ایس ایم ای اور مائیکرو انٹرپرائزیز پر اسکی زبردست مار پڑی ہے۔ تقریباً ساٹھ فیصد این پی اے اپریل اور مئی میں محض ایم ایس ایم ای سے ہی بڑھا ہے۔ جو اس کے پہلے کے مقابلے دوگنا ہے۔ دی ریٹیلر اسوسی ایشن آف انڈیا (RAI) نے کہا ہے کہ 2019 کے مقابلے مئی 2021 میں ملک بھر میں 79 فیصد فروخت میں کمی آئی۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے سروے کے مطابق مئی میں شرح بیروزگاری 11.9 فیصد سے بڑھ کر 11 جون 2021 کو 12.35 فیصد ہو گئی۔ ایم ایس ایم ای کے متعلق حکومت کا رویہ ہمدردانہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت ایم ایس ایم ای کے بند ہونے سے انکار کر رہی ہے۔ اس کی لاپروائی کی وجہ سے اس کے بند پڑے رہنے کے اعداد وشمار بھی دستیاب نہیں ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ایم ایس ایم ای کو مدد کرنے کے لیے پیداوار کی مارکیٹنگ، اسکل ڈیولپمنٹ اور ٹکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے اسکیموں الاٹمنٹ میں 663.9 کروڑ روپے سے کم کر کے 330.3 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ مارکیٹنگ پلان کی مفوضہ رقم کو گزشتہ سال کے 74.63 کروڑ سے گھٹا کر 39.9 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ مگر مزدوروں کی ہنر مندی بڑھانے کے لیے اسکل ڈیولپمنٹ کے لیے 556.47 کروڑ روپے میں معمولی اضافہ کرتے ہوئے اسے 570.93 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ اس طرح مینو فیکچرنگ شعبہ جو بارہ کروڑ روزگار پیدا کرتا ہے اور جی ڈی پی کے اعتبار سے بہت اہم ہے جس کی برآمدات میں پینتالیس فیصد شراکت ہے اس کے لیے بجٹ میں 15700 کروڑ روپے ہی مختص کیے گئے ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق ہے۔ مالی تنگیوں سے پریشان ایم ایس ایم ای کے لیے گزشتہ سال حکومت نے تین لاکھ روپے کی ایک ایمرجنسی قرض گیارنٹی اسکیم (ای سی ایل جی ایس) کا اعلان کیا تھا۔ اس اسکیم سے محض 14 فیصد ایم ایس ایم ای کو فائدہ ملا۔ ان کی بڑی اکثریت پہلے سے ہی مقروض ہے ایسے حالات میں ایم ایس ایم ای پر بقایا قرض کے غیر پیداواری اثاثہ (این پی اے) ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے کیونکہ بازار میں طلب بالکل ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے روزگاری اور کم آمدنی کی وجہ سے لوگوں کے ہاتھ میں پیسے نہیں ہیں۔ وزیر مالیات نرملا سیتا رامن نے 6.26اکھ کروڑ روپے کا راحت پیکیج کا اعلان کیا ہے جس میں کورونا متاثر سیکٹرس کے لیے گیارہ لاکھ کروڑ روپے کی قرض گیارنٹی اسکیم کا اعلان کیا ہے۔ اس میں ایم ایس ایم ای بھی شامل ہے۔ قرض پر قرض اسکیم کے اعلانات سے حکومت کبھی بھی ایم ایس ایم ای اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں بنا پارہی ہے۔ مگر اس سیکٹر سے حکومت پانچ کروڑ نوکریوں کا ہدف اور جی ڈی پی کی شراکت بیس فیصدسے بڑھا کر پچاس فیصد کی خواہش رکھتی ہے کیا یہ ممکن ہے؟
دوسری طرف کورونا قہر نے گھریلو بچت پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ اس وبا کے دوران بینکوں میں رقم جمع کرنے کا اور نکالنے کا رجحان بدل گیا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے مالی سال 21-2021 کی پہلی تین سہ ماہیوں کاریکارڈ جاری کیا ہے جس سے پتہ چلا ہے کہ کورونا قہر میں تیزی آنے سے بنکوں میں جمع شدہ رقم میں اضافہ ہوا تھا۔ اور حالت قابو میں آتے ہی لوگوں نے رقم نکالنی شروع کردی ہے۔ جی ڈی پی کے مقابلے میں جمع شدہ رقم کا تناسب اکتوبر تا دسمبر 200 سہ ماہی میں تین فیصد پر آگیا جو جولائی تا ستمبر 2020 کی سہ ماہی میں 7.7 فیصد تھا۔ اس دوران لوگوں نے اپنے بینک کھاتوں سے 1996781 کروڑ روپے نکالے۔ گزشتہ ہفتہ آر بی آئی نے کورونا کی دوسری لہر سے دو لاکھ کروڑ روپے کے نقصان کی بات کی تھی۔ آر بی آئی کی طرف سے جاری کردہ تین سہ ماہیوں کے اعداد وشمار سے وضاحت ہوتی ہے کہ کورونا قہر کی پہلی لہر جب عروج پر تھی تب لوگوں نے کھاتے میں اچھی خاصی رقم جمع کی۔ پہلی سہ ماہی اپریل تا جون 2020 میں جع شدہ رقم 125848.6 کروڑ تھی جو جولائی اور ستمبر کی سہ ماہی میں 362343.5 کروڑ روپے ہوگئی۔ آر بی آئی نے اس کی وجوہات میں کوئی رائے نہیں دی ہے۔ لیکن مانا جا رہا ہے کہ کورونا لہر کے ابتدائی دور میں غیر یقینیت کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے بینکوں میں پیسے جمع کیے اور حالات معمول پر آتے ہی رقم نکالنے لگے۔ رقم نکالنے کے پس پشت یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ سخت لاک ڈاون کی وجہ سے لمبے عرصہ تک فیکٹریوں کے بند ہونے اور روزگار سے سبکدوشی کی وجہ سے لوگوں پر معاشی دباو تھا۔ کنبوں کی آمدنی اور خرچ بڑھا جس سے انہوں نے رقم نکالنی شروع کر دیں، مگر وبا کی ابتدائی دور یعنی اپریل تا جون 2020 کی سہ ماہی میں جی ڈی پی کے مقابلے میں گھروں میں جمع رقم کا تناسب 5.3 فیصد (2.07 لاکھ کروڑ روپے) تھا جو کم ہوکر اکتوبر تا دسمبر سہ ماہی میں 91456 کروڑ روپے ہو گیا۔ اس کا مطلب یہی سمجھا جا رہا ہے کہ کورونا کی آفت کے بڑھنے کے ساتھ ہی گھروں میں جمع شدہ بچت کی رقم تیسری سہ ماہی کافی خرچ ہوگئی۔ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ ملک جی ڈی پی کے مقابلے میں نیٹ فائنانشیل اسٹیٹس کا تناسب جون 2020 کی ختم سہ ماہی میں 26فیصد تھی جو گھٹ کر اکتوبر تا دسمبر ختم سہ ماہی میں 8.2فیصد رہ گیا۔ اگر ہم ترقی یافتہ ملک امریکہ کی بات کریں تو وہاں حکومت کی بچت اچھی حالت میں ہے۔ موڈیز انالائٹکس کے حالیہ اندازہ کے رو سے امریکہ میں کنبوں کی بچت 2.6 ٹریلین ڈالر رہی جس سے وہاں کی معیشت میں تیزی سے بہتری کی امید کی جاسکتی ہے، مگر ہماری حکومت نے کورونا کی ماری عوام کو براہ راست مدد پہنچانے کے بجائے قرض کا جھنجھنا تھمانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ اس لیے ماہرین معاشیات اور صنعت کاروں کا ماننا ہے کہ ہماری معیشت کو سنبھلنے میں کافی دیر لگے گی۔
***
قرض پر قرض اسکیم کے اعلانات سے حکومت کبھی بھی ایم ایس ایم ای اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں بنا پارہی ہے۔ مگر اس سیکٹر سے حکومت پانچ کروڑ نوکریوں کا ہدف اور جی ڈی پی کی شراکت بیس فیصدسے بڑھا کر پچاس فیصد کی خواہش رکھتی ہے کیا یہ ممکن ہے؟
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021