معاشی بہتری کے لیے خسارے پر کنٹرول اور سپلائی چین کی بحالی ضروری

2021 شرح نمو میں اضافے سے زیادہ خسارے پر قابو پانے کا سال ہو سکتا ہے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

2020 میں مہنگائی کی مشکلیں بڑی گمبھیر رہیں۔ اب معیشت میں بہتری کے اشارے مل رہے ہیں اور اس کی واضح علامات بھی ظاہر ونے لگی ہیں۔ لیکن مالی خسارے میں تنزلی تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ خریدار ی میں مالی خسارے کی شرح 6 فیصد سے زیادہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی جیب پر کافی مار پڑے گی۔ یہ سطح آر بی آئی کے مقررہ ہدف سے کافی زیادہ ہے۔ کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ آئندہ سال معاشی ترقی کی شرح کو ترقی دینے سے زیادہ مالی خسارے کو قابو میں کرنے کا ہو سکتا ہے۔ کچھ ماہرین یہ بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ بازار میں نقدی کی مقدار کو کم کرنے کے لیے آر بی آئی کو جلد ہی مناسب قدم اٹھانا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کورونا مصیبت کنٹرول ہوتی نظر آرہی ہے۔ پیداوار، طلب اور روزگار میں مثبت اشارے آرہے ہیں۔ مگر فی الحال معاشی ترقی کی شرح منفی سے مثبت ہونے اور اس کے چہار طرفہ پہنچنے کے لیے وقت درکار ہے کیونکہ قومی آمدنی کے ساتھ لوگوں کی آمدنی میں بھی کمی رہے گی۔ ایسے میں مہنگائی کا طویل مدت تک برقرار رہنا باعث تشویش ہے۔ ہمارے ملک کی آبادی کی اکثریت مفلوک الحال، غربا اور کم آمدنی والے افراد پر مشتمل ہے۔ ان پر روز مرہ کے اشیاء کی دستیابی ان کے بجٹ کو متاثر کرسکتی ہے کیونکہ کورونا کے آفت کی وجہ سے تعلیم اور صحت عامہ کافی متاثر ہوئے ہیں۔ اگر مالی خسارہ قابو میں نہیں آیا تو سب خدمات اور اشیاء کی قیمتیں مہنگی ہوجائیں گی۔ معیشت میں بہتری سے روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی توقع ہے۔ لیکن شرح بے روزگاری کے زیادہ ہونے سے مہنگائی کی مار ناقابل برداشت ہوجائے گی۔ اس پیداواری موسم میں اناج، سبزیاں، دودھ، مچھلی، گوشت کی قیمتوں میں کمی ہوسکتی ہیں لیکن دیگر اشیاء تیل، گیس، سمنٹ، اینٹ، کیمیکلس اور فارما سیوٹیکلس میں کمی کی امید نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ حکومت نے مختلف راحتی پیکیج اور فلاحی منصوبوں سے عوام کو مدد کرنے کی کوشش ایک حد تک کی ہے۔ ایک اندیشہ یہ بھی ہے کہ مالی خسارہ کم کرنے کی کوشش میں اگر بازار سے نقدی کی موجودہ مقدار کو بڑے پیمانے پر کم کیا تو معاشی ترقی متاثر ہوسکتی ہے کیونکہ اس عمل سے طلب بھی کم ہو کر رہ جائے گی۔ توقع ہے کہ آر بی آئی اور حکومت مالی خسارے کے بڑے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک فیصلہ کن قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اس وقت ضروری یہ بھی ہوجاتا ہے کہ لوگوں کو بہت زیادہ منافع خوری اور غیر قانونی طورپر مہنگائی بڑھانے والوں پر شکنجہ کسا جائے تاکہ اشیا کی قیمتیں واجبی سطح پر ہوں۔ فی الوقت ہمارا ملک معاشی سستی سے گزر رہا ہے اور دوسری طرف مالی خسارے کی شرح بھی اونچائی پر ہے اس لیے سب ٹھیک نہیں ہے۔ لہٰذا معاشی بہتری میں وقت لگ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ خریدیوں میں اعتماد کی سطح کافی کم ہے مگر مستقبل میں بہتری کی توقع بہت زیادہ ہے اگرچہ کہ کورونا قہر کی دوسری لہر کا خدشہ اور خطرہ برقرار ہے۔ موجودہ کنزیومر پرائس انڈیکس نے مالی خسارہ آر بی آئی کی قوت برداشت کی 4 فیصد کی حد کو پار کرلیا ہے۔ ابھی مالی خسارہ 7 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ غذائی اجناس میں مالی خسارہ اکتوبر 2020 میں 11 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اگرچہ صنعتی پیداوار میں 0.2 فیصد کی بہتری ہوئی ہے۔ معیشت میں نمو اچھی نہیں ہے کیونکہ سپلائی چین ابھی بھی صدمے میں ہے جیسا کہ کورونا قہر سے درآمدات کافی متاثر ہوئی ہیں۔ ہمارا ملک آٹوموٹیو آلات کی ضرورت کا صرف 27 فیصد درآمد کیا کرتا تھا جو ٹھپ پڑ گیا ہے۔ بھارت، ایشیا میں میڈیکل آلات کا سب سے بڑا چوتھا بازار ہے جس کا 80 فیصد انحصار برآمدات ہی پر ہے۔ بھارت کے لیے اس شعبہ میں سب سے بڑا اکسپورٹر چین ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ، سنگا پور، جرمنی اور جاپان میں جو بہت زیادہ قابل اعتماد نہیں ہیں یہی وقت ہے جب بھارت کو صحت عامہ کے شعبہ میں مقامی مینوفیکچرنگ شعبہ کی خدمات کو حاصل کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔ بھارت کی الکٹرانک صنعت کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اسی وجہ سے بے روزگاری اور پوشیدہ بے روزگاری خطرناک حد تک اونچائی پر ہے۔ اب اسٹرین کورونا وائرس کی لہر کا ممکنہ حملہ یوروپی ممالک کے سر پر منڈلا رہا ہے۔ کیا ہمارا ملک اس سے محفوظ رہے گا؟ یہ حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا ہے اور کیا ویکسین کی موثر اور یقینی دریافت جلد از جلد ہوسکے گی؟ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ مگر آر بی آئی کی زبردست کوشش رہے گی کہ طلب اور پیداوار کو متحرک کیا جائے۔ مگر ہاں خسارے کا خطرہ آر بی آئی کے سرپر ہے۔ اگر یہ بری حالت میں پہنچتا ہے تو مرکزی بینک کو اپنی پالیسی شرحوں کو بڑھانا ہوگا اس لے کہ غیر یقینیت اور اعتماد کی کمی کی صورتحال بہت بری ہے اور مستقبل قریب میں اس کا اندازہ بھی ممکن نہیں ہے۔
کورونا قہر ایک طبی بحران سے شروع ہو کر بڑے معاشی بحران میں تبدیل ہوگیا کیونکہ سخت لاک ڈاون کے بغیر منصوبہ کے نفاذ سے ہر شعبہ میں سپلائی چین کا خاتمہ ہوگیا۔ تمام صنعتوں کا پہیہ جام ہوگیا۔ عالمی سیر و سیاحت بالکل ہی ٹھپ پڑ گئی۔ خردہ سامان کا لین دین، خدمات، لکژری اور رات کی زندگی تھم کر رہ گئی۔ ایشیا پیسفک کے انٹرنیشنل فائنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) کے نائب صدر انفونسو گارسیا مورا نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کورونا قہر کا فوری اور زبردست اثر کمپنیوں پر ہوا جس سے رقیقیت میں کمی آئی کیونکہ طلب بالکل ہی نابود ہوگئی اور سپلائی چین ٹوٹنے سے نقدی کے بہاؤ کی مشکلیں آن پڑیں۔ مرکزی بینک نے بڑی مقدار میں معیشت میں رقیقیت (liquidity) کو بحال کیا۔ مگر طلب کے دھچکے سے تحلیلیت (Solvenery) کا مسئلہ ابھر کر سامنے آیا کیونکہ زیادہ تر کمپنیاں اپنے ضروری اخراجات کو پورا کرنے سے قاصر تھیں۔ مرکزی بینک بھی اس مسئلے کا حل نہیں نکال پایا جس کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ پوری طرح زمین بوس ہوگیا کیونکہ یہ وہ شعبہ ہے جو بعض ملکوں کے 10فیصد جی ڈی پی کو پورا کرتا ہے۔ آدھی سے زیادہ اکانومی میں زیادہ تر صنعتوں نے اپنے قرضہ جات کو بہتر طریقے سے نہیں سنبھالا جس سے 30 فیصد کا دیوالیہ بڑھا۔ ایشیا پیسفک علاقوں میں آئندہ سالوں میں دیوالیہ اور بڑھے گا۔ بھارت میں بینکنگ کا شعبہ کافی دباؤ میں اسی وجہ سے آیا کیونکہ کمزور معاشی شعبہ پر موجودہ وبا کے پہلے سے ہی بحران کے اثرات نظر آنے لگے تھے دوسری طرف اکثر شعبوں میں لوگوں نے ڈیجیٹل طریقہ کو اختیار کیا ہے جس سے خریداروں کے مزاج میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ آف لائن دوکان داری اور گھر سے باہر کھانا کافی کم ہوگیا ہے۔ اس سے ہو سکتا ہے کہ کچھ شعبوں کو قوت ملے۔ دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ ما قبل بحران سے کسی طرح کی رہنمائی مشکل ہوگی۔ بینک ہی اصل مدت کی نشاندہی میں رہنمائی کرسکتے ہیں۔ بینکوں کو اپنے موکلوں کو تبدیل کرتے رہنا چاہیے جنہیں وہ قرض دے سکیں لیکن کورونا بحران نے حکومت، بینکوں اور کمپنیوں وغیرہ سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ آر بی آئی کے اعداد و شمار کے مطابق 23 اکتوبر کے ختم مدت تک کل 9,21,3059 کروڑ رویے بینکنگ قرض تقسیم کیا گیا۔ اپریل تا اکتوبر 2020 کی مدت میں یہ تقسیم شدہ قرض گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے 0.5 فیصد کم ہے۔ ترجیحات والے شعبہ میں صرف زرعی شعبہ میں 7 فیصد کی ترقی درج ی گئی۔ لاک ڈاون کے بعد حکومت اور مرکزی بینکوں کی تمام کوششوں کے باوجود کچھ صنعتیں نیا قرض لینے سے پرہیز کر رہی ہیں۔ بینکنگ شعبہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ معیشت میں بہتری کی رفتار اچھی بن گئی ہے لیکن اسے تبھی مستقل مانا جائے گا جب صنعتی دنیا سے نئے قرض بھی لیے جائیں مگر تازہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ اکتوبر میں صنعتی دنیا کو تقسیم کیے جانے والے قرض کی رفتار گزشتہ سال کے اسی ماہ کے مقابلے میں 1.7فیصد ہے۔ جاریہ مالی سال میں بڑی صنعتوں کی طرف سے قرض لینے کی رفتار میں 6.7 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ ہماری معیشت بری طرح تباہ و برباد ہو گئی ہے۔ لاکھوں افرد اس سے متاثر ہوئے لیکن لاک ڈاون کے غلط نفاذ اور سختی سے مہاجر مزور اور دوسرے لوگ شدید طور پر متاثر ہوئے تھے ان کا روزگار گیا۔ ملازمتیں چھن گئیں۔ کروڑوں کی تعداد میں بھوکے بیمار مزدوروں کو ہزاروں میل پیدل سفر کرنا پڑا۔ اب ۳ زرعی قوانین کی وجہ سے لاکھوں کسان دلی کے سنگھو سرحد پر سخت ٹھنڈ کے ایام میں تینوں ’کالے زرعی قوانین‘ کو کالعدم قرار دینے کے لیے زبردست تحریک چلا رہے ہیں لیکن سنگھی لوگ اپنی اشتعال انگیزی کے ذریعہ ملک میں نفرت کی آبیاری کر رہے ہیں۔ مگر کسانوں سے طویل تعطل کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے اور بیمار معیشت مزید بیمار ہوجائے گی۔
***

بینکنگ شعبہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ معیشت میں بہتری کی رفتار اچھی بن گئی ہے لیکن اسے تبھی مستقل مانا جائے گا جب صنعتی دنیا سے نئے قرض بھی لیے جائیں مگر تازہ اعداد و شمار بتارہے ہیں کہ اکتوبر میں صنعتی دنیا کو تقسیم کیے جانے والے قرض کی رفتار گزشتہ سال کے اسی ماہ کے مقابلے میں 1.7فیصد ہے۔ جاریہ مالی سال میں بڑی صنعتوں کی طرف سے قرض لینے کی رفتار میں 6.7 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 10 جنوری تا 16 جنوری 2021