پروفیسر جمیل فاروقی
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ،ملیشیا
خاندان ایک بنیادی اور عالمگیر ادارہ ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کی یہ ’’گوشت پوست کے انسان کو معاشرتی انسان میں تبدیل کر تا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں انسان سب سے زیادہ اشرف ہے ،اسی کے ساتھ انسان کی ایک کمزوری بھی ہے وہ اپنی بقا کے لئے دوسرں پر منحصر ہوتا ہے، اسی وجہ سے انسان کو دوسروں پر منحصر رہنے والا حیوان’’DependentAnimal‘‘ کہتے ہیں، انسان کا بچہ پیدائش سے ہی دوسروں (خاص طور پر ماں ) کی مدد پر زندہ رہتا ہے، جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے ان لوگوں کی نقل سے جو اس کے قریب ( Significant Others) ہوتے ہیں سمجھنا بولنا اور دنیا کے بارے میں جاننا شروع کرتا ہے اور زندہ رہنا سیکھتا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنے قریب کے ساتھ کے لوگوں سے تعلق پیدا کرے، چنانچہ اسے ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اس سے ہمدردی کریں، اسے صحیح اور ضروری معلومات فراہم کریں اور اس کے جسمانی اور ذہنی نشونما میں مدد کریں ،خاندان ان تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔
خاندان دنیا کے ہر معاشرے ، ہر قوم اور ہر گروہ میں پایا جاتا ہے، اس کی ساخت اور فرائض مختلف ہوتے ہیں ، جس کا انحصار معاشرے کے نظام پر ہوتا ہے۔ ایک مشہور ماہر بشریات جارج مرڈاک (George Murdock,1897-1985) نے 250 قدیمی معاشروں کا تجزیہ کرکے بتایا کہ خاندان کسی نہ کسی شکل میں تمام معاشروں میں پایا جاتا ہے ۔ اس کے مطابق یہ ایک معاشرتی گروہ ہے جو مشترکہ گھر، معاشی اتحاد اور انسانی پیداوار کی خاصیت کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس کے اندر دونوں جنسوں کے بالغ لوگ شامل ہوتے ہیں،جن میں کم سے کم دو ممبران کے درمیان معاشرہ سے منظور شدہ جنسی تعلقات ہوں، اس میں خود کے یا گود لئے ہوئے ایک یا زیادہ بچےہوں۔
خاندان عمرانی نقطہ نظر کے مطابق انسانوں کا ایسا گروہ ہے جس کے افراد باہمی خونی یا ازدواجی رشتوں میں منظّم ہوتے ہیں اور ان رشتوں کی مضبوطی اور سالمیت کے لئے معاشرہ پر انحصار کرتے ہیں اور اسے قوت اور پختگی بخشتے ہیں۔خاندان کے نظام اور مقاصد کے لحاظ سے کئی اقسام ہوتے ہیں۔ سر قبائیلی (Patriarchy)اصول کے لحاظ سے خاندان کے دو اقسام بہت اہمیت کے حامل ہیں:(i) وسیع خاندان (Extended Family) (ii)مختصر خاندان (Nuclear Family)۔
وسیع خاندان عام طور پر دویا زیادہ برادران یا خلیرے یا پھوپھیرے برادران جو ایک ہی گھر میں اپنے ماں باپ اور غیر شادی شدہ بہن بھائیوں کے ساتھ رہتے ہوں ، مشتمل ہوتا ہے ، مختصر خاندان شوہر ، بیوی اور بچوں پر مشتمل ہوتا ہے ، کچھ کنبوں میں خادم کو بھی مختصر خاندان میں شامل کیا جاتا ہے ، امریکی سنسس(Census) ایک فرد کو بھی خاندان میں شمار کرتا ہے مگر یہ خاندان کے بنیادی تصور سے میل نہیں کھاتا۔
خاندانی اقدار کا بکھراؤ اور اس کے اسباب
خاندان کے فرائض میں تغیر اس کے بکھراؤ اور غیر مؤثر ہونے کی اہم وجہ وسیع خاندان کا مختصر خاندان میں تبدیل ہونا ہے۔ سائنس اور جدید علوم کے عروج پر مغربی نظام حکومت اور نظام تعلیم کے آغاز اور ارتقا نےمعاشرہ کی فکر مندی اور نظریاتی بنیادوں میں تبدیلی رونما کی اور معاشرتی نظام کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا۔ اسی کے ساتھ صنعت و حرفت میں بھی تبدیلی رونما ہوئی اور مشینوں پر مبنی صنعت کا آغاز اور عروج ہوا اور آبادی میں بھی اضافہ ہوا۔ قانون کے نظام اور نظم و نسق کی بخوبی انجام دہی اور مشینی صنعتوں کے ارتقا اور نشونما کیلئے نئے مراکز کا قیام کیا گیا۔ انہیں بہتر سہولتوں اور بہتر ذرائع مواصلات سے آراستہ کیا گیا جس سے اس کی دلکشی میں اضافہ ہوا۔ ا س طرح شہروں کا وجود عمل میں آیا، جس نے روزگار کے نئے مواقع فراہم کیے۔نتیجہ کے طور پر دیہی علاقوں اور بستیوں سے لوگ شہروں میں منتقل ہوئے۔ زیادہ تر نئی نسل کے لوگ اپنی ازواج اور بچوں کے ساتھ شہروں میں بس گئے اور حکومتی دفاتر اور صنعتی مراکز میں کام کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ شہری زندگی میں رچ بس گئے۔ اس عمل میں وسیع خاندان ٹوٹے اور چھوٹے حصّوں میں تقسیم ہو گئے۔ بزرگ حضرات اپنے آبائی مکانات میں رہائش پذیر ر ہے اورنئی نسل نے شہروں میں سکونت اختیار کر لی۔ اس طرح سے مختصر خاندانوں کا عروج ہوا جسکا اثر خاندان کے اقدار پر پڑا ،جو بزرگ اراکین تک محدود ہو کر رہ گیا ، اور نئی نسل اس سے دور ہوتی گئی ۔
مختصر خاندان کےعروج نے تعلیم و تربیت (Socialization)کے عمل کو حد درجہ متاثر کیا۔ خاندان کے افراد اپنی پیشہ ورانہ مشغولیت کی وجہ سے خاندانی اقدار کی صحیح اور مکمل پابندی میں ناکام رہے۔ اپنی بیوی اور بچوں کی نگہداشت اور تربیت کی فرصت انہیں کم میسر ہوئی۔ انہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کو تا ہی برتی ، اگر شوہر اور بیوی دونوں بر سر روزگار ہوئے تو تربیت کا عمل اور بھی متاثر ہوا۔بچے اپنے پاس پڑوس کے بچوں کے ساتھ تعلق رکھنے لگے ، ان کے ربط ضبط میں رہنے لگے اور ان کی عادت و خصلت اختیار کرنے لگے ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کی تربیت کا عمل خاندان سے ہٹ کر کھیل کود (Playing Group) کے گروہ کو منتقل ہوا۔ اگر بچوں کی صحبت برے اور غیر سنجیدہ لڑکوں کے ساتھ ہوئی تو برائیوں کے اختیار کرنے میں انہیں کوئی گریز نہیں ہوا ،خاندانی وقار اور اقدار انکے لئے اہمیت کے حامل نہیں رہے اور رفتہ رفتہ اپنی اہمیت کھو بیٹھے۔
مختصر خاندان اور انفرادی آزادی کے تصور نے معاشرتی تسلط (Social Control)کو کمزور کیا۔ بچوں کو غلط اور غیر مناسب عمل پر روکنے والوں کی قلت ہوئی۔ ان کا زیادہ وقت اپنے دوستو ں میں گزرتا رہا ، خاندان کےبزرگ اپنے آبائی مکان میں نئی نسل اور بچوں سے دور رہتے رہے، ان کا نئی نسل پر اثر نہ کے برابر رہا۔ بعض دفعہ والدین خود بچوں سے بے جا محبت میں ان کے غلط اور برے اعمال کو نظرانداز کرتے رہے ، اگر کوئی والدین سے ان کے بچوں کی غلط اور بے جا حرکت پر شکایت کرتا تو والدین بچوں کی تنبیہ کے بجائے ان کی حمایت کرتے۔ خاندانی اقدار کی پابندی پر سختی سے گریز کیا گیا جس کی وجہ سے بچے اپنی پسند اور ترجیح کا رویہ اور طور طریقہ اختیار کرتے گئے ۔
مغربیت کے اثر کی وجہ سے خاندان کے افراد کے خیالات میں تبدیلی آئی۔ مغربی نظریات نے یہ باور کرایا کہ ترقی یافتہ معاشرہ کے لیے ضروری ہے کہ ان اقدار کو اپنایا جائے جسے اپنا کر مغرب نے بے انتہا ترقی کی۔ لوگوں نے اپنی روز مرہ کی زندگی میں مغربی طور طریقوں کو اپنانا شروع کیا جس کی وجہ سے مذہب سے دوری بڑھی، خاندان کی بنیادیں کمزور ہوئیں اور ان کی اقدار پامال ہوئیں ۔
شہری زندگی کی اپنی دلکشی ہوتی ہے۔ خوبصورت عمارتیں ، صاف ستھری سڑکیں، پارک، بڑے بڑے ہال جس میں تفریح طبہ کے سامان، سینما تھئیٹر اور مختلف سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ لڑکے اور لڑکیاں اپنا قیمتی وقت گھومنے پھرنے اور تفریح میں گزارتے ہیں اور مذہبی فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتتے ہیں۔ والدین اور بزرگوں سے دوری کی وجہ سے انہیں خاندانی اقدار کی بے قدری سے گریز نہیں ہوتا۔
شہروں میں مختلف مذاہب، مختلف رسم و رواج اور مختلف نظریات کے ماننے والے رہتے ہیں۔ خاندان کے افراد کو ان سے تعلقات رکھنے پڑتے ہیں۔ اکثر تعلقات اتنے گہرے ہو جاتے ہیں کہ ان کو خوش رکھنے کے لئے خاندان کے افراد اپنی اقدار اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر غیروں کے طور طریقوں اور خیالات کو اختیار کرتے ہیں۔ بیشتر حالات میں نوکری پیشہ حضرات اپنے افسران کی خوشنودی حاصل کرنے لے لئے ایسا کرتے ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیز اور کال سینٹرس کا کلچر ان کی عملی زندگی اور رویوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
آرام دہ زندگی کے بے جا تصور بھی لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوا۔ لوگوں میں دولت کمانے کی خواہش نے زور پکڑا اور یہ رجحان بڑھا کہ حیاتیاتی ضروریات کی اعلیٰ پیمانہ پر تکمیل ہی آرام دہ زندگی کی ضامن ہے، لہٰذا لوگوں کا زیادہ وقت دولت حاصل کرنے میں گزرنے لگا۔ اس عمل میں دولت حاصل کرنے کے اچھے اور برے طریقہ کار کی تمیز بھی اٹھتی گئی۔ خاندان کے افراد میں زیادہ سے زیادہ اشیا کو حاصل کرنے اور استعمال کا شوق بڑھا۔ ان کے اندر ضروریات زندگی کے نئے اور جدید سامانوں کو اکٹھا کرکے اپنے اقربا اور ہمنواؤں پر فوقیت دکھانے کا ذہنی مگر منفی رجحان بڑھا، نتیجہ کے طور پر معاشرتی اور خاندانی اقدار کی وقعت کم ہوئی۔
خاندانی اقدار کے بکھراؤ کا تدارک
خاندانی اقدار کے بکھراؤ کا تدارک اس بات پر منحصر ہے کہ
(1) افراد کی ذہنی تعمیر و تشکیل ابدی جاودانی اور روحانی اصولوں پر ہو۔ خاندان اعلیٰ اقدار ، فلاح و بہبود، انصاف اور متبرّک اصولوں پر مبنی نظام کا علمبردار بھی ہو اور اس پر عمل پیرا بھی ہو۔ اس کے اراکین اچھائی اور برائی ، صحیح اور غلط اور حق و باطل میں تمیز کرنا جانتے ہوں، ان کے سلسلے میں ان کا ذہن صاف ہو اور ان میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو۔ زندگی گزارنے کے افکار و اعمال کو اپنے معاشرہ کے لئے مفید سمجھتے ہوں اور دوسروں کو اس پر عمل کی ترغیب دیتے ہوں۔ انہیں پختہ یقین ہو کہ کائنات کی تخلیق الله تعالی نے کی جو اعلیٰ برتر اور بے انتہا خوبیوں کا مالک ہے۔ وہی کائنات کے نظام کو قائم رکھنے اور اس کی نگہداشت کی استطاعت رکھتا ہے۔ اس نے کائنات کی تخلیق ایک خاص مقصد کے لئے کی اور وہ مقصد اس کی اطاعت اور بندگی ہے ، کائنات کی ہر شے اس کے حکم کے مطابق اپنے فرائض انجام دیتی ہے ، انسان کی تخلیق بھی اللہ تعالی نے اپنی اطاعت اور بندگی کے لئے کی ہے۔ انسان کو اچھی، مفید، کار آمد اور گناہوں سے پاک زندگی گزارنے کا ایک نظام عطا کیا اور اس پر عمل کا حکم دیا۔ جو لوگ اس کے حکم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں انہیں اچھی اور بہتر ابدی زندگی کی بشارت دی اور جو اس کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں اور اپنی چند لمحوں کی خوشی اور لذّتوں کے حصول میں زندگی گزارتے ہیں انہیں سزا کا مستحق قرار دیا۔
(2) خاندانی اقدار کو برقرار رکھنے کے لئے افراد کی تعلیم و تربیت کے عمل کو مؤثر اور پختہ بنانا ضروری ہے۔ خاندان کے بڑے اور بزرگ خاص طور پر والدین بچوں کی نگہداشت کریں۔ ان کو کھانے پینے، رہنے سہنے ، اپنی ضروریات کی تکمیل کے صحیح اور جائز طریقہ کار سمجھائیں اور اس پر عمل کرنے کی تاکید کریں اور خود بھی عمل کر کے بتائیں۔
بزرگوں کی عزت اور چھوٹوں سے محبّت اور دوسروں سے سلجھے اور شریفانہ طریقے سے پیش آنے کا سبق دیں۔ ان کو ذہن نشین کرائیں کہ اچھے اور صالح اعمال ہی زندگی کو کارآمد بناتے ہیں اور انسان کے دل و دماغ کو سکون بخشتے ہیں۔ بڑا ہونے پر ان کو زندگی کا مقصد، خالق کائنات کی عظمت، انسان کا اپنے خالق اور اس کے بندوں سے تعلق کا علم دیں اور تقویٰ کی زندگی گزارنے کا سبق دیں۔ غرضیکہ ایک صالح نظام کے اصولوں کو ذہن نشین کرائیں اور خود بھی اس پر عمل کریں۔ اگر افراد خاندان کے اقدار کی پابندی میں کوتاہی برتیں تو بزرگ اراکین مل کر غور کریں کہ کس طرح اقدار کی پابندی کے عمل کو مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔
(3) خاندانی اقدار کی بقا کے لئےاقدار اور اسلامی تعلیمات کی برتری کے نظم کو پر اثر بنانا ضروری ہے، اس کے ذریعہ خاندان کے افراد پر خاندانی روایات، اصول و ضوابط اور اقدار کی پابندی کے لئے تسلّط قائم کیا جاتا ہے۔ یہ تسلّط غیر رسمی ہوتا ہے مگر خاندان کی سالمیت کیلئے اشد ضروری ہے۔یہ افراد پر خاندانی اقدر کے تحفّظ کے لئے دباؤ ڈالتا ہے اور بعض حالات میں مجبور کرتا ہے۔ اس عمل میں خاندان میں بڑے اور بزرگ حضرات کا رول بہت اہم ہے۔ وہ اپنی شخصیت اور ہمدردی کے ذریعہ دوسرے اراکین کو متاثرکرتے ہیں اور خاندانی اقدار کا پابند بناتے ہیں۔ تسلّط کے عمل کو مضبوط بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ خاندان کو یہ علم ہو کہ ان کے افراد اپنا وقت کہاں گزارتے ہیں، کن سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں ، ان کے اخلاق و اعمال کیسے ہیں اور کن لوگوں کے ربط ضبط میں رہتے ہیں۔ خاندان کے سرپرست اسلامی اقدار و احکامات کی پابندی خود کریں اور نئی نسل کو ان پر سختی سے عمل کرائیں۔ نماز فجر کے بعد خاندان کے افراد کو جمع کر کے قرآن کی تلاوت کریں اور آیتوں کا مطلب بیان کریں، غرضیکہ خاندان پر اسلامی قدروں کی پابندی کو پائیداراور یقینی بنائیں اور اسے کمزور نہ پڑنے دیں۔
(4) خاندان کے افراد کو یہ باور کرانا چاہیے کہ انسان کی کامیاب زندگی کے لیے مادی ترقی اور حیاتیاتی ضرورتوں کی تکمیل ہی کافی نہیں ہے بلکہ روحانی حاجات کی تکمیل بھی ضروری ہے جس کا تعلّق انسان کے قلب سے ہے جو نہ صرف اچھائی اور برائی میں امتیاز کرتا ہے بلکہ انسان کو اچھائیوں کے عمل کی ترغیب دیتا ہے اور برائیوں کے عمل پر اس کو انتشار میں مبتلا کرتا ہے۔ اس لیے قلب کو قوی اور پاک تر رکھنا صالح زندگی کی ضمانت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے’’انسانی نفس کو درست کیا اور پھر اس کو گناہ اور پرہیزگاری کی سمجھ دل میں ڈالی۔‘‘ (قرآن91:7-8) جب انسان بار بار گناہ کرتا ہے تو اس کا قلب سیاہ ہوجاتا ہے اور اس کو اچھائی اور برائی کی تمیز باقی نہیں رہتی اس لیے ضروری ہے کہ قلب کو صالح اعمال کے ذریعہ پاک رکھا جائے۔ خاندان کے افراد کو آرام دہ زندگی کے صحیح تصوّر سے روشناس کرایا جائے جو روحانی ضروریات کی تکمیل پر منحصر ہوتی ہے اور انسان کے دل و دماغ کو سکون اور تشفی بخشتی ہے۔ الله پر انسان کے ایمان کو پختہ کرتی ہے اور حق پر قائم رہنے کے لائق بناتی ہے۔ الله تعالیٰ نے یہ واضح کیا ہے کہ ’’انسان بیشک خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اورنیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور صبر کی تلقین کی۔‘‘
(قرآن:103)
ll
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021