مضبوط خاندان- مضبوط سماج

ہم مسلمان ہونے کے باوجود قرآن و سنت کو اہمیت دینے کے بجائے رسم و رواج کی پیروی کرتے ہیں

نمائندہ دعوت

 

]شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند کے زیر اہتمام کل ہند مہم : 19 تا 28 فروری 2021
کی کنوینروشعبہ خواتین کی مرکزی کو کنوینر محترمہ رحمت النسا صاحبہ سے ایک ملاقات[
سوال: آپ کے شعبے نے 19 تا 28 فروری کے دوران مضبوط خاندان مضبوط سماج کے عنوان سے ایک ملک گیر مہم منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ موجودہ ہندوستانی تناظر میں مہم کی اہمیت اور اس کی معنویت کیا ہے؟
جواب: آج نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے مختلف ممالک میں خاندانی اقدار کو نظرانداز کیا جارہا ہے اور ایسے رجحانات اور طرز ہائے زندگی اختیار کیے جارہے ہیں جنہوں نے حالیہ عرصے میں خاندان کے ادارے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کووڈ19 کے سب ہونے والے لاک ڈاون نے ہمیں اس بات کا موقع فراہم کیا یا مجبور کیا کہ ہم گھروں میں ہی رہیں، جس کے سبب خاندانوں کی صورت حال پر زیادہ توجہ دینے کا موقع حاصل ہوا،لیکن کئی لوگ گھروں میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے کے بجائےایک چھت کے نیچے زیادہ عرصے تک یکجا رہنے کے مسائل اور پریشانیوں کا اظہار کرنے لگے۔گھر جس کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے لیے سکون اور تحفظ کی جگہ ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے اوراپنی خوشیاں و پریشانیاں بانٹتے ہیں، آج محض اینٹ پتھر کی عمارت میں تبدیل ہوگیا ہے جس میں رہنے والوں کو ایک دوسرے کا کوئی خیال نہیں ہوتا اور ان کے درمیان کا تعلق محض دولت یا دوسرے مادی فوائد کی بنیاد پر منحصر رہ گیا ہے۔یہ صورت حال کافی تشویشناک ہے اس کو سامنے رکھا جائے تو ہماری اس مہم کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔
سوال:صورت حال میں اس تبدیلی کے اسباب کیا ہیں؟
جواب: گزشتہ دو صدیوں کے دوان سرمایہ داریت، مادہ پرستی، انفرادیت پسندی وغیرہ نے لوگوں کے طرز فکر اور ان کے عقائد کو بتدریج متاثر کیا ہے۔ ان نظریات نے لوگوں کو محض دولت اور مادی فوائد کے حصول کی دوڑ میں لگادیا اور یہ بتایا گیا کہ یہی چیزیں خوشی اور کامیابی کی اصل بنیاد ہیں۔ خاندان کی اکائی، جس کی بنیاد محبت ، ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایثار و قربانی پر قائم ہے، کمزور ہوگئی اور لوگ شادی اور بچوں کی پرورش کو بھی مالی نفع و نقصان کے پیمانوں سے ناپنےلگے۔خاندان کے بزرگ ایک بوجھ بن گئے کیوں کہ مادی مفہو م میں اب وہ بے کار ہوچکے ہیں۔ بچوں بالخصوص لڑکیوں کو ایک بڑا مالی نقصان سمجھا جانے لگاہے۔ چنانچہ مختلف تحقیقات کے مطابق گھریلو تشدد اور طلاق کے واقعات میں جو اضافہ ہورہا ہے وہ محض اس بڑے مسئلے کی علامت ہے جس نے لوگوں کے سوچنے کے انداز ہی کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔
سوال: ذرا اس بات کی وضاحت کریں کہ سرمایہ داریت نے خاندانی نظام کو کیسے متاثر کیا ہے؟
جواب: سرمایہ داریت ہر چیز کو دولت کی نظر سے دیکھتی ہے۔لوگوں کا یہ ذہن بنادیا گیا ہے کہ وہ ہرکام کرنے سے پہلے یہ ’’سوال کریں کہ مجھے اس سے کیا ملے گا‘‘، چاہے وہ شادی ہو یا تجارت۔مزید یہ کہ غذا سے لے کرقیام گاہ تک،یہاں تک کہ عارضی جنسی ساتھی جیسی ساری چیزیں جو صرف گھر اور خاندان میں ملتی تھی آج بازار میں فراہم کردی گئی ہیں، جس پر نہ کوئی ذمہ داری ہوتی ہے اور نہ جس کے کوئی حقوق ہوتے ہیں۔ اس کے بعد لوگوں نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ میں کیوں شادی کروں، خاندان پر خرچ کرنے کی ذمہ داریاں پوری کروں، ان کے لیے ملازمت کروں، بچوں اور بوڑھوں کی دیکھ بھال کی پریشانی اٹھاؤں؟ دوسروں کے لیے جینے اور افراد خاندان سے محبت اور ان کا خیال رکھنے میں حاصل ہونے والی مسرت کے بجائےاشتہارات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اشیاء کے حصول کو خوشی و مسرت کا ذریعہ بتایا جانے لگا۔
سوال: یہ انفرادیت پسندی کیا ہے؟
جواب:سرمایہ داریت، مادہ پرستی اور انفرادیت پسندی یہ تمام ایک دوسرے سے باہم متعلق تصورات ہیں۔ انفرادیت پسندی میں لوگ بس اپنی پسند اور ناپسند پر ہی توجہ دیتے ہیں۔ اس نے نوجوانوں میں ’’میری زندگی- میری مرضی‘‘ کاتصور پیدا کردیا۔ لوگ بہت زیادہ خود غرض بنتے گئے اور والدین، اولاد یا دوسرے رشتے داروں کو ایک پریشانی سمجھنے لگے۔
سوال: رشتوں کو برقرار اور انہیں بہتر رکھنے میں ربط و ترسیل کا بہت ہی اہم کردار ہوتا ہے۔کیا آپ اس سے اتفاق نہیں رکھتیں کہ جدید دور کی سائنس و ٹکنالوجی نے لوگوں کو روابط کےقیام اور رشتوں و تعلقات کی برقراری کے لیے بہترین سہولتیں عطا کی ہیں؟
جواب: ہم ایسا ہی سمجھتے تھے، لیکن واقعتاً ہو یہ رہا ہے کہ لوگ غیر فطری انداز سے ان لوگوں کے سامنےاپنے احساسات اور جذبات بیان کررہے ہیں جو ان سے کوئی رشتہ نہیں رکھتے، لیکن ان لوگوں کے جذبات و احساسات سے ناواقف ہیں جو ایک چھت کے نیچے بلکہ ایک بستر پر ہوتے ہیں ۔
سوال: صورت حال کو بگاڑنے میں حکومتوں کا بھی کوئی رول ہے ؟
جواب: 2018 میں عدالت کی جانب سےتعزیرات ہند کی دفعات497 اور377 کی منسوخی، شوہر و بیوی کے شادی سے باہر ناجائز تعلقات اور ہم جنسی کو قانونی جواز عطا کرنے اورشادی کےبغیر عورت و مرد کے ساتھ رہنے کو جائز ٹھہرانے والے دیگر فیصلوں اور ججوں کے تبصروں نے صورت حال کو اور بھی خراب کیا ہے۔ان کے نزدیک مرد و عورت باہمی رضامندی سے جنسی تعلق قائم کرسکتے ہیں، اگر دونوں فریق راضی ہیں، اور وہ بالغ ہیں، تو ان کی نظر میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ حالانکہ اصلاً غلط ہونے کے ساتھ ساتھ اگر مرد بیوی والا اور عورت شوہر والی ہوتو اس طرح کے تعلق کے ذریعے وہ ان دونوں کے حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالتے ہیں۔اس کےعلاوہ ہم جنسی جیسے غیر فطری طریقوں کو قانونی جواز عطا کرنے کے سبب انسانیت کی بقا ہی خطرے میں پڑگئی ہے کیوں کہ خاندان اس کا واحد ذریعہ ہے۔
سوال: آپ کی نظر میں اس صورت حال سے خواتین کس طرح متاثر ہورہی ہیں؟
جواب: تقریباً تمام ہی معاشروں میں خواتین کو دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت حاصل تھی اور موجودہ صورت حال یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ استعماریت میں عورت کو صرف ایک شئے (Cummodity) سمجھا جارہا ہے۔آزادی کے نام پر عورت کو گھر سے باہر نکلنے اور خاندانی اقدار کو ترک کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے اس کی حالت بہت زیادہ قابل رحم ہوگئی ہے، حالاں کہ وہ تعلیم یافتہ اور کمانے والی بن چکی ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران اس کی حالت مزید ابتر ہوگئی تھی۔ گھریلو تشدد میں کافی اضافہ ہوگیا اور طلاق کے معاملات تین گنا بڑھ گئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد محفوظ ہے۔ وہ بھی کئی ایسے مسائل کا شکار ہے جن کا سامنا معمول کے حالات میں نہیں ہوتا۔ بچوں ، بزرگوں اور خاندان کے ہر فرد پر ظلم ہورہا ہے لیکن ان میں سب سے زیادہ متاثر خواتین اور لڑکیا ں ہیں۔
سوال: ایک اسلامی تحریک کی حیثیت سے اس مہم کے ذریعے آپ لوگوں کے سامنے اس کا کیا حل پیش کرتی ہیں؟
جواب: قرآن اور سنت رسول میں ایک فطری، عملی ، سادہ اور متوازن خاندانی نظام کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ نہ تو صرف مرد کا حامی اور نہ صرف عورتوں کا۔ یہ انسانوں کو اس انداز سے تشکیلِ خاندان کی ہدایت دیتا ہے کہ اس نظام میں ہر فرد کو ترقی اور نشوونما کا موقع حاصل ہو اور وہ اپنی صلاحیتوں کا مکمل استعمال کرسکے۔ قرآن جس طرح کے خاندان کی نصیحت کرتا ہے اس کی بنیاد محبت اور رحمت ہے۔صلہ رحمی، عدل و انصاف اور تقویٰ و احسان اسلامی خاندانی نظام کے کلیدی اصول ہیں۔ اگر کسی تعصب کے بغیر مطالعہ کیا جائے تو لوگ آسانی کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ یہ نظام ہی آج کے خاندانی نظام کے بکھراؤ اور اس سے انسانوں کو لاحق خطرات سے بچا سکتا ہے۔
سوال: لیکن خود مسلم خاندان بھی مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہتی ہیں یا کیسے اس کی توجیہہ کرتی ہیں؟
جواب: توجیہہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جو غلط ہے وہ غلط ہی ہے، چاہے اس کا ارتکاب کرنے والا مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ خاندانی اقدار اور رشتوں کے استحکام کے حوالے سےمسلم خاندان دیگر گروہوں کے مقابلے میں کافی بہتر حالت میں ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے پاس بھی بگاڑ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمان ہونےکے باوجود قرآن اور سنت کی ہدایات کو اہمیت دینے کے بجائے رسوم و رواج کی پیروی کرتے ہیں اور عام رواج کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ جتنے زیادہ عملی مسلمان بنیں گے ان کے لیے خاندان میں چین و سکون کا حصول اتنا ہی آسان ہوگا۔
سوال: اس مہم کے دوران کن کن پروگراموں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے؟
جواب: ہم نے اس مہم کو نتیجہ خیز بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔مہم سے قبل ماہ جنوری کے دوران سماجیات کے ماہرین کے ذریعے کیڈر میں تفصیلی سروے کروائے جائیں گے اور مسلم معاشرے کا بھی ایک نمونے کا سروے کروایا جائے گا تاکہ حقیقی صورت حال سامنےآسکے۔ ان تحقیقات اور سروے کی بنیاد پر عمومی رجحانات کی نشان دہی کی جائے گی اور طویل مدتی منصوبے کے تحت اصلاحی اقدامات کیے جائیں گے۔کیڈر کو بالخصوص اورمسلم معاشرے کو بالعموم اس بات کے لیے تیار کیا جائے گا کہ وہ انتہائی سادگی کے ساتھ شادیاں کرکے سب کے لیے مثال قائم کریں اور اسی طرح اپنے گھروں کو بھی امن و سکون کا گہوارہ بنائیں۔
مہم کے دوران ریاستی و مرکزی سطح پر بین الاقوامی ویبینار، بین مذہبی مکالمات، مختلف علماء و دانشوروں کے راست انٹرویوز اور سوالات و جوابات کے سیشن، فیملی کونسلرس، وکلا اور ماہرین تعلیم کے ساتھ پینل ڈسکشن جیسے پروگراموں کا اہتمام کیا جائے گا۔ زمینی سطح کے پروگراموں پر زیادہ توجہ مرکوز رہے گی۔ فیملی کے اجتماعات، گیٹ ٹو گیدر، خاندانوں، لڑکے لڑکیوں کے لیےمختلف مقابلوں وغیرہ کا بھی انعقاد کیا جائے گا۔
سوال: اس مہم کے متعلق عوام کا ردعمل کیسا ہے؟
جواب : مہم کے سلسلے میں عوام کی جانب سے کافی حوصلہ افزا ردعمل حاصل ہورہا ہے۔ ہم نے تعاون کے لیے جس سے بھی ملاقات کی ان کا یہی کہنا تھا کہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مختلف مذاہب کے اسکالرس اور مختلف ماہرین نے مہم کو کامیاب اور معاشرے کے ہر فرد کے لیے نتیجہ خیز بنانے میں اپنا تعاون پیش کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ll

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021