اوقاف کا تحفظ اور ہماری ذمہ داری: قارئین دعوت سے ایک دردمندانہ اپیل
ملک میں ریلوے اور ڈیفنس کے بعد سب سے زیادہ املاک اوقاف کے پاس ہیں، اور ان کے تحفظ کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔
افروز عالم ساحل
تاریخ شاہد ہے کہ ملک کی آزادی کے لیے مسلمانوں نے نہ صرف اپنی زندگیاں نچھاور کیں، بلکہ ملک کی بہبود کے لیے انھوں نے اپنی جائدادیں بھی وقف کردیں۔ ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جن میں نہ صرف مسلمانوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا بلکہ اس مشن کی کامیابی کے لیے دامے درمے اپنی نجی املاک کو بھی وطن عزیز کے لیے وقف کردیا۔ خصوصاً تحریک ِخلافت کے ساتھ شروع ہونے والی تحریک ِعدم تعاون کے وقت نہ جانے کتنے ہی اسکول، کالج اور ادارے مسلمانوں کی وقف کی ہوئی اراضی پر کھولے گئے۔ ملک کے نوجوانوں کی بہتر تعلیم و تربیت اور دینی بیداری کے لیے مساجد و مدارس کے قیام کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے کچھ ایسے اوقاف بھی قائم کیےجن کی تمام تر آمدنی مجاہدین ِآزادی پر صرف ہوتی تھی۔ آج بھی ملک کی بہت سی ریاستوں میں کانگریس پارٹی کے دفاتر اوقاف کی اراضی پر قائم ہیں۔ یہی نہیں، مسلمانوں کےاوقاف کا ناجائز فائدہ برطانوی حکومت نے بھی خوب اٹھایا۔ تاہم اس کے باوجود آزادی سے پہلے اوقاف کی صورت حال اس قدر مخدوش نہ تھی جتنی کہ آج ہے۔
اس بات سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ جب ملک آزاد ہوا تو ہندوستان کے مختلف علاقوں، خاص طور پر دہلی، ہریانہ، پنجاب اور مغربی یوپی کے کچھ علاقوں سے بڑے پیمانے پر مسلمان پاکستان چلے گئے۔ خاص طور پر انھی علاقوں میں بے شمار لوگوں نے اپنی املاک وقف کر رکھی تھیں، اور اچھی خاصی تعداد میں لوگ ملک چھوڑنے سے قبل اپنی جائدادوں کو وقف کر کے چلے گئے تھے۔ لیکن ان جائدادوں کا کیا حشر ہوا، اس سے بھی آپ سب بخوبی واقف ہیں۔ خود راقم الحروف نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ہریانہ میں مسلمانوں کی کئی ایسے املاک موجود ہیں، جہاں آج مویشی باندھے جا رہے ہیں۔
آج حالات مزید بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں، لیکن کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ یقیناً ہم اور آپ ہی ہیں۔ ہم اپنی ذاتی زمین کا ایک انچ بھی کسی کو دینے کے روادار نہیں ہوتے لیکن کبھی اپنے اوقاف کو بچانے کے بارے میں نہیں سوچتے ۔ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے بزرگ اپنی تمام جائدادوں کو اس لیے تو نہیں وقف کرگئے تھے کہ وہ غیروں کے ناجائز تصرف اور خردبرد کا شکار ہوں ؟ جی نہیں، انھوں نے یہ اوقاف اس لیے چھوڑے تھے کہ آئندہ نسلوں کا مستقبل بہتر ہو اور انھیں ملت کی بہبود کی خاطر استعمال کیا جائے۔ غیروں کا کیا ذکر کیا جائے، سب سے افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ خود مسلمانوں کو بھی جب جب موقع ملا تو خود انھوں نے اوقاف پر ناجائز قبضہ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔ ایسا اس لیے بھی ہوا کہ اب تک ہمارے سامنے اوقاف سے متعلق منفی خبروں ہی کو پیش کیا گیا۔ صرف اور صرف اس کے ساتھ درپیش آنے والے مسائل کو ہی آپ کے سامنے رکھا گیا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسائل سے زیادہ اس کے حل پر گفتگو ہو۔ دنیا کے سامنے اوقاف سے متعلق مثبت خبروں کو رکھا جائے۔
دعوت ماضی میں ایسا کرتا آیا ہے۔ ہفت روزہ دعوت ہندوستان میں اوقاف سے متعلق ایک نئی سیریز شروع کرنے جارہا ہے تاکہ ایک بار پھر عوام کو اوقاف کی اہمیت سے روشناس کرایا جاسکے۔
اگر آپ کے پاس بھی اوقاف سے جڑی کوئی مثبت خبر ہو تو براہ مہربانی اسے [email protected] پر یا 9891322178 پر ضرور شیئر کریں تاکہ اوقاف سے وابستہ ان خبروں اور کہانیوں سے ملک کے عوام کو واقف کرایا جا سکے ، اور پورے ملک میں موجود اوقاف کو بچانے کی تحریک چل پڑے۔
ملحوظ رہے کہ ملک میں ریلوے اور ڈیفنس کے بعد سب سے زیادہ املاک اوقاف کے پاس ہیں ، اور ان کے تحفظ کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔