مسلم بھی تو انسان ہیں اور شہری بھی Muslim Masses Matter
اے رحمان
ملک میں آج وہ کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے جو آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔اور یہ سب اس لئے ہو رہا ہے یا کیا جا رہا ہے کہ آر ایس ایس کے بنیادی مسلم دشمن ایجنڈا کو نافذ کرنے کے لئے پابندِ عہد مو جودہ بی جے پی حکومت نے آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر تمام آئینی اداروںبشمول عدلیہ اور پولیس کو ہندو راشٹر کے تصوّر کی ایسی بھنگ گھونٹ کر پلا دی ہے جس کے نشے میں چور ارباب ِ حلّ و عقدکے پاس انصاف کا ایک ہی پیمانہ ررہ گیا ہے: فرقہ پرست عصبیت یا یوں کہیئے فرقہ وارانہ جانبداری۔اس کی بد ترین مثال ابھی تین روز قبل سامنے آئی جب انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس میں یہ خبر شائع ہوئی کہ دلّی کے اسپیشل کمشنر پولیس(جرائم) پرویر رنجن نے ایک حکمیہ نصیحت (advisory )صادر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دلّی فسادات میں ملوّث پائے گئے ہندو افراد کی گرفتاری میں ’مناسب احتیاط‘ سے کام لیا جائے۔اس کا پس منظر یہ ہے ہے کہ شمال مشرقی دلّی کے فساد زدہ علاقوں سے مقامی پولیس نے (غالباً طے شدہ توازن کے مظاہرے کی خاطر نیز قانونی تقاضے کے لحاظ میں)چند ہندو ٔوں کو گرفتار کیا جس کے بعد افسر مذکور کو ’خفیہ ذرائع‘ سے اطلاعات موصول ہوئیں کہ ان گرفتاریوں کے سبب ہندو فرقے میں’ اضطراب و ناراضگی‘ پائی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں بعض مسلمانوں کو گرفتار نہ کئے جانے پر دوسرے فرقے کے لوگ شاکی ہیں۔لہذٰا حکمیہ میں یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ فسادات کے معاملے میں غیر مسلم افراد کو گرفتار کرنے سے قبل پوری احتیاط کے ساتھ ان کے خلاف موجود ثبوت و شواہد کا تجزیہ کیا جائے،تکنیکی ثبوتوں کا جانچ کی جائے اور اس کے بعد تمام تفتیشی افسران استغاثہ کے خصوصی سرکاری وکلاسے مشورہ کریں اور تمام نکات پر ان کے اطمینان اور رضامندی کے بعد ہی کوئی گرفتاری ہو۔اب یہاں سب سے پہلے تو یہی چیز قابلَ غور ہے کہ فسادات فرو ہونے کے فوراً بعد اندھا دھند طریقے سے مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا اور پورے ملک سے مسلم تنظیموں ،بعض قومی اخبارات اور بے شمار معزّز شہریوں نے پولیس کی یکطرفہ کاروائی کے خلاف جو صدائے احتجاج بلند کی وہ دلّی پولیس کے اعلیٰ افسران کے کانوں تک نہیں پہنچی اور آج بھی دو ہزار سے زائد مسلمان فسادات میں ملوّث ہونے کے الزام میں قید ہیں ۔دوسرے یہ کہ پولیس کے ذریعے فوجداری معاملات میں گرفتاری کے اختیارات کا نہ صرف قانونی ضابطہ موجود ہے بلکہ وقتاً فوقتاً لا کمیشن آف انڈیا اور سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں رہنما اصول بھی جاری کئے ہیں۔ایک سنگِ میل فیصلے میں عدالتِ عظمیٰ نے یہ اصول نافذ کیا کہ حالانکہ قابلِ دست اندازیٔ پولیس مقدمات میں پولیس بغیر وارنٹ گرفتاری کا اختیار رکھتی ہے مگر اختیار الگ چیز ہے اور جواز الگ۔عدالت کے الفاظ ہیں ’’ اختیار آپ کو گرفتاری کی آزادی (لائسنس) نہیں دیتا‘‘ یعنی کسی شخص کو اس وقت تک گرفتار نہ کیا جائے جب تک اس کی گرفتاری کا کوئی مضبوط جواز نہ ہو۔مگر اسپیشل کمشنر (جرائم) صاحب نے قانون اور ضابطے ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی بھی دھجیّاں اڑاتے ہوئے مذکورہ حکمیہ جاری کر دیا، حالانکہ انڈین ایکسپریس میں خبر کی اشاعت کے بعد دلّی پولیس کے روابطِ عامّہ افسر (PRO )مندیپ رندھاوا نے گذشتہ کل یعنی ۱۵ جولائی کو ایک دو صفحے کا ٹویٹ کر کے یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ انڈین ایکسپریس میںشائع خبر گمراہ کن ہے اور پولیس سے کوئی غیر قانونی حرکت سرزد نہیں ہوئی لیکن ٹویٹ میں دی گئی وضاحت عذرِ گناہ بد تر از گناہ کے مصداق بچکانہ اور مضحکہ خیز ہے۔کیا کوئی محض اسی سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ مسلمانوں کی گرفتاری سے پیشتر ایسی ہدایات کیوں جاری نہیں کی گئیں کیونکہ کئی مسلم ملزمان کو مختلف عدالتوں نے اس بنیاد پر ضمانت دی ہے کہ ان کے خلاف کسی قسم کا ثبوت صفحۂ مسل پر نہیں پایا گیا۔ دلّی فسادات کے تعلّق سے اوّل تا حال پولیس کی کاروائی صاف طور پر غمّاز ہے کہ ہندوستان کو رفتہ رفتہ پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔انگریزی کے مقبول و موقّر رسالے آؤٹ لُک (Outlook ) نے اس سے سال کے آغاز (جنوری ۲۰۲۰) میں ایک مفصّل اسٹوری شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پورے ملک میں پولیس کا بھگوا کرن(زعفرانیت) کیا جا رہا ہے اور پولیس کے اعلیٰ ترین عہدے دار یعنی ڈائریکٹر جنرل سے لے کر تھانیدار (SHO ) تک کا انتخاب بر سرِ اقتدار سیاسی جماعت خود کرتی ہے۔نیز یہ کہ محکمہ ہائے پولیس تقریباً ناکارہ ہو چکے ہیں کیونکہ ان میں ہندوتو عناصر کو راہ دی گئی ہے۔قابلِ ذکر ہے کہ اس تحریر کی مصنّف تھیں بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (BPR&D )کی ریٹائرڈ دائریکٹرجنرل میرن چڈھّا بوروانکر۔
دراصل ہر ملک اور معاشرے میں شعبۂ پولیس کا کردار ہی کچھ اس قسم کی اہمیت کا حامل ہے کہ اسے ہر حال میں اپنے سیاسی آقاؤں کی غلامی پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔’’فرض شناس قانون کے رکھوالے‘‘ صرف ناولوں اور فلموں میں پائے جاتے ہیں۔ویسے تو ہر سرکاری محکمے کا سربراہ اپنے محکمے کو حکومتِ وقت کی پالیسیوں اور احکامات کے مطابق چلانے کا پابند ہے لیکن پولیس کا براہِ راست رشتہ عوام اور امنِ عامّہ سے ہونے کی بنا پر سیاسی مفادات کے لئے اس کا استعمال اہلِ اقتدار کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے۔غیر معمولی یا خلافِ قانون قسم کے’سرکاری‘ احکامات یا ہدایات ’غیر سرکاری‘ یعنی زبانی طریقے سے دی جاتی ہیں۔اگر کوئی مائی کا لال قانون یا خود اپنے تحفّظ کی خاطر اعتراضاً کہہ دے کہ ’تحریری ہدایات ‘ بھیجی جائیں تو سمجھ لیجیئے کہ اس نے عتابِ شاہی کو دعوت دے دی اور اس کی بقیہ نوکری اور زندگی پے در پے تبادلوں اور گمنام جگہوں پر تقرّری کی نذر ہو جائے گی،یعنی اگر عتابِ شاہی اس کی معطلّی یا برخاستگی پر منتج نہ ہوا تو ! ان حاالات میں تو یکطرفہ اور جانبدارانہ قسم کی کاروائی کے لئے محض پولیس کوموردِ الزام ٹھہرانا زیادتی ہو گی،لیکن جب پولیس کے اعلیٰ افسران بلا خوف دھڑلّے سے مذکورہ ایڈوائزری جیسے احکامات جاری کرنے اور بعد کو بے شرمی سے ان کا دفاع کرنے لگیں تو سمجھ لینا چاہیئے کہ حالات خطرناک حدود میں داخل ہو چکے ہیں۔مسلمانوں کے لئے موجودہ وقت بھاری ہے لیکن تیزی سے بدلتا ہوا سیاسی منظرنامہ بدتر صورتِ حال کا اشارہ دے رہا ہے۔امریکہ میں پھیلی ہوئی نسلی عصبیت کے خلاف ’’سیہ فام زندگیاں اہم ہیں‘‘ (Black lives matter ) کا نعرہ لگا کر جو تحریک شروع کی گئی تھی آج پوری دنیا میں اس نے ایک طوفانی کیفیت اختیار کر لی ہے جس کے سامنے طاقتور ترین حکومتیں بھی سرنگوں ہیں۔ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے باہمی اختلافات اور افتراق نے قومی سطح پر ایسا کوئی پلیٹ فارم نہیں بننے دیا جہاں سے قوم اپنے جائز مطالبات اور آئینی حقوق کے لئے کسی قسم کی تحریک چلا سکے۔ پھر بھی اگر حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ’’ مسلم عوام اہم ہیں‘‘ (Muslim Masses Matter ) قسم کا نعرہ لگا کر اپنے خلاف روز افزوں نا انصافی کے خلاف سنجیدگی سے تحریک کی شروعات کی جائے تو صورتِ حال قابو میں آ سکتی ہے کیونکہ یہ سیاسی تحریک نہ ہو کر اپنے قانونی اور آئینی حقوق کی بازیابی کا تقاضہ ہو گا جسے حکومتِ وقت حسبِ عادت وطن سے غدّاری پر محمول نہیں کر سکے گی۔مسلمانوں کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی حاشیئے پر لا کر انہیں دوسرے درجے کا شہری قرار دینا اس اس حکومت کا اعلان شدہ ہدف اور مقصود ہے،اور اب جبکہ پولیس کو ہتھیار بنا کر نا انصافی اور ظلم کی ابتدا کی جا چکی ہے حالات کو خاموشی اور مفعولیت سے برداشت کرنا مزید تباہی کاموجب ہو گا۔وسیع پیمانے اور قومی سطح پر چلائی گئی تحریک ہی موجودہ صورتِ حال کا علاج ثابت ہو سکتی ہے ورنہ کورونا وبا کے ساتھ ساتھ اس غیر منصفانہ صورتِ حال کو بھی بس جھیلے جانا ہوگاحتیٰ کہ دشمنانِ ملّت کو حتمی کامیابی حاصل ہو جائے۔
مضمون نگار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ موصوف مختلف سماجی اور ادبی کازوں سے وابستہ ہیں۔ آپ موقر ادارے عالمی اردو ٹرسٹ کے چیئرمین بھی ہیں۔