
مساجد میں خواتین: روحانی ارتقاء اور ملّت کی طاقت
کیا واقعی شریعت نے عورت کو مسجد سے روکا ہے؟ اختلافی آراء پرایک نظر
رحمت النساء، نئی دلی
اسلام میں مسجد کی حیثیت صرف عبادت گاہ کی نہیں بلکہ ایک ایسے مرکز کی رہی ہے جہاں سے ایک زندہ قوم کی فکری، روحانی، سماجی اور سیاسی تربیت کا عمل جاری رہتا تھا۔ نبی کریم ﷺ کی ہجرتِ مدینہ کے بعد آپ کا پہلا اور سب سے اہم اقدام مسجد کی تعمیر تھا جو محض سجدوں کی جگہ نہیں تھی بلکہ وہ مقام تھا جہاں سے ایک صالح معاشرہ تشکیل پاتا، لوگوں کی ضروریات کا بندوبست ہوتا اور امت کے درد کا علاج تجویز کیا جاتا۔
اس وقت کی مسجد ایک فعال مرکز تھی جہاں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے رجوع کرتے تھے۔ آج امت مسلمہ کو جو بڑے چیلنج درپیش ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ہم مسجد کو صرف عبادت تک محدود رکھنے کی بجائے اسے پھر سے ایک ہمہ جہت مرکز بنائیں—ایسا مرکز جہاں روحانی بلندی کے ساتھ ساتھ سماجی توانائی اور تمدنی بیداری بھی نمو پائے۔
یہ مقام صرف وقتی جوش یا وقتی اقدامات سے حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے حکمت، تدبّر اور دور اندیشی سے بھرپور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
جب دنیا نئی تہذیبوں کے زیر و زبر میں تھی اور یورپ تاریکیوں کے عہد میں ڈوبا ہوا تھا اس وقت ساتویں صدی سے تیرہویں صدی تک کا وہ زرّیں دَور تھا جس میں اسلامی تہذیب کا چراغ مساجد کے محراب و منبر سے روشن ہوا اور اس کی روشنی عرب کے صحراؤں سے نکل کر مشرق، یورپ، یہاں تک کہ امریکہ تک پھیل گئی۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ نبی اکرم ﷺ کے عہد میں مسجد ایک ایسا در تھا جو سب کے لیے کھلا تھا، ایک ایسا حلقہ تھا جس میں سب شریک ہوتے اور ایک ایسا مرکز تھا جہاں ہر ایک کا حصہ تھا۔
تاریخ کے اوراق اس پر گواہ ہیں کہ مساجد نہ صرف عبادت کے لیے مخصوص تھیں بلکہ وہی مقامات درس و تدریس کے تھے، وہیں سیاسی مشورے ہوتے اور وہیں لوگوں کے دکھ درد کی شنوائی بھی ہوتی۔ گویا مسجد ایک ایسی جائے قرار تھی جہاں امت کی نبضیں دھڑکتی تھیں۔
جہاں تک خواتین کی مساجد میں آمد کا تعلق ہے تو یہ اسلام کی ان لطیف تعلیمات میں سے ہے جو عورت کو ایک خاص درجہ عطا کرتی ہیں۔ اسلام میں عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مسجد جائے یا نہ جائے یہ اس کی صوابدید پر ہے، نہ کوئی اُسے روک سکتا ہے نہ مجبور کر سکتا ہے۔
یہی وہ کشادگی ہے جو اسلام کی روح میں پیوست ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ آج کل رخصت کو حرمت کا جامہ پہنا دیا گیا ہے اور جو نرمی عطا کی گئی تھی وہ سختی میں بدل دی گئی ہے۔
ایسے دور میں جب خواتین سماج میں متحرک کردار ادا کر رہی ہیں، ان کو مسجدوں سے دور رکھنا نفع سے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن جب فقہی رعایت کو پابندی کے طور پر سمجھ لیا جائے تو راستے بند ہونے لگتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس مسئلے کو ٹھیک ٹھیک اسلامی اصولوں کی روشنی میں دیکھیں۔ اس کے لیے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم قرآن کریم کی تعلیمات کو جانیں پھر نبی کریمؐ کی احادیث کو سمجھیں اور اس کے بعد آپ کے طرزِ عمل اور صحابہ کرام کے طرزِ عمل پر نگاہ ڈالیں۔ یہی وہ منہج ہے جو اسلام میں کسی بھی مسئلے پر غور کرنے کے لیے اختیار کیا جانا چاہیے۔
قرآنِ حکیم کیا کہتا ہے؟
قرآنِ مجید میں کسی مقام پر بھی عورتوں کو نماز کے لیے مسجد میں آنے سے منع نہیں کیا گیا۔ جہاں کہیں اقامتِ صلاۃ (نماز قائم کرنے) کا ذکر آتا ہے، وہاں مرد و زن کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی بلکہ خطاب عمومی ہے جو دونوں اصناف پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔
پانچ وقت کی نمازوں سے قبل اذان دی جاتی ہے جو درحقیقت مرد و زن سب کو نماز کی دعوت ہے۔ اذان کے الفاظ ’’حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ، حَیَّ عَلَی الفَلَاح‘‘ یعنی ’’آؤ نماز کی طرف، آؤ فلاح کی طرف‘‘ یہی اعلان کرتے ہیں کہ ہر مومن، خواہ مرد ہو یا عورت، اس نداء الٰہی پر لبیک کہے۔
اسلامی فقہاء و مفسرین کے مطابق جو چیز واضح طور پر حرام نہ ہو، وہ شرعاً مباح شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ جب قرآن عورتوں کے مسجد جانے کو ممنوع قرار نہیں دیتا تو یہ ایک قابلِ قبول امر ہے۔
علاوہ ازیں، قرآنِ کریم حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ کرتا ہے اور انہیں مومنین کے لیے ایک بہترین نمونہ قرار دیتا ہے۔ ان کا بیشتر وقت عبادت گاہ (محراب) میں گزرتا اور وہ مسجد کی خدمت پر مامور تھیں۔ جیسا کہ سورۂ آل عمران، آیت 37 میں ذکر ہے:
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٖ وَأَنۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنٗا…
’’پس اس کے رب نے اسے حسنِ قبولیت کے ساتھ قبول فرمایا اور اس کی نشو و نما بھی بڑی خوبی سے کی اور زکریا علیہ السلام کو اس کی پرورش پر مامور کیا۔ جب بھی زکریا علیہ السلام اس کے پاس محراب میں داخل ہوتے، اسے وہاں رزق موجود پاتے…‘‘
اگر حضرت مریم کا مسجد میں قیام اور عبادت کا یہ طرز عمل قابلِ قبول نہ ہوتا، تو یقیناً اللہ تعالیٰ اس پر تنبیہ فرماتا، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور خود نبی مکرم ﷺ کی بعض دعاؤں یا اعمال کی اصلاح قرآن نے بیان فرمائی ہے (دیکھیے سورۂ ممتحنہ آیت 4، سورۂ عبس آیات 1 تا 12)۔
احادیثِ نبویہ کی روشنی میں:
نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
’’اپنی عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے نہ روکو، البتہ ان کے لیے ان کا گھر بہتر ہے۔‘‘ (ابو داؤد)
یہ ایک متوازن اور حکیمانہ ارشاد ہے۔ افسوس کہ آج اس حدیثِ مبارکہ کے صرف آدھے حصے کو بنیاد بنا کر رائے قائم کی جاتی ہے۔ جو حضرات عورتوں کو مسجد جانے کا حق دینا چاہتے ہیں، وہ صرف ’’مت روکو‘‘ کا پہلو اجاگر کرتے ہیں؛ اور جو اس کے خلاف ہیں، وہ ’’گھر بہتر ہے‘‘ کو اپنا حجت بناتے ہیں۔
حالانکہ ’’گھر بہتر ہے‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ مسجد عورت کے لیے نا موزوں یا مضر ہے۔ بہت سی عبادات کے بارے میں بھی نبی کریم ﷺ نے ’’یہ تمہارے لیے افضل ہے‘‘ فرمایا، مگر اس سے دوسرے اعمال کی نفی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر، وقت پر نماز ادا کرنا افضل ہے، لیکن وقت کے اندر تھوڑا تاخیر سے پڑھنا ممنوع یا باطل نہیں۔
نبی کریم ﷺ نے کبھی کسی خاتون سے یہ نہیں فرمایا کہ ’’مسجد نہ آؤ، تمہارے لیے گھر بہتر ہے‘‘۔ بلکہ وہ مسجد کے دروازے خواتین کے لیے بھی کھلے رکھتے تھے۔
صحابۂ کرام کا طرزِ عمل:
عبداللہ بن عمرؓ کی ایک روایت میں واقعہ آتا ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عورتوں کو رات کے وقت مسجد جانے کی اجازت دو۔‘‘
ان کے بیٹے (بلال) نے کہا: ’’قسم بخدا! ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے، ورنہ وہ فساد پھیلائیں گی۔‘‘
ابنِ عمرؓ سخت برہم ہوئے اور فرمایا: ’’میں تمہیں نبی ﷺ کی بات سنا رہا ہوں اور تم اس کے برخلاف فتویٰ دے رہے ہو!‘‘
(روایت: صحیح الاسناد، علامہ البانی)
یہ طرزِ فکر صحابہ کرام کا تھا کہ جب معاملہ نبی کریم ﷺ کے حکم سے واضح ہو گیا تو کسی رائے یا قیاس کی گنجائش باقی نہ رہی۔
صف بندی اور دیگر آداب:
نبی کریم ﷺ نے نماز کے لیے صفوں کی ترتیب و آداب اس انداز میں سکھائے کہ خواتین کے لیے سہولت، احترام اور مساوی مواقع یقینی بن جائیں۔ آپ فرض نماز کے بعد چند لمحے بیٹھے رہتے تاکہ خواتین پہلے مسجد سے نکل جائیں، اور اختلاط کا احتمال باقی نہ رہے۔
حضرت امِّ سلمہؓ فرماتی ہیں:
’’رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو خواتین فوراً اٹھ کھڑی ہوتیں، اور آپ کچھ دیر ٹھیرے رہتے تاکہ وہ آسانی سے نکل جائیں۔‘‘ (بخاری)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ قبیلہ مزینہ کی ایک عورت مسجد میں داخل ہوئی، اس کی چادر زمین پر گھسٹ رہی تھی۔ آپ نے فرمایا:
’’اے لوگو! اپنی عورتوں سے کہو کہ زینت کے ساتھ اور فخر و غرور کے انداز میں مسجدوں میں نہ آیا کریں، کیونکہ بنی اسرائیل پر لعنت اسی وقت شروع ہوئی جب وہ زینت و آرائش کے ساتھ عبادت گاہوں میں فخر سے چلنے لگے۔‘‘ (ابن ماجہ)
یہاں نبی اکرم ﷺ نے عورتوں کو مسجد آنے سے نہیں روکا بلکہ مسجد میں آنے کے آداب اور انداز کی تعلیم دی۔ اگر مقصد عورتوں کو مسجد آنے سے منع کرنا ہوتا تو صاف لفظوں میں فرمایا جا سکتا تھا: ’’عورتوں کو مسجد نہ آنے دو‘‘ یا’’عورتوں کو مسجد نہ بھیجو‘‘ مگر آپ نے ایسا نہیں فرمایا۔
نبی اکرم ﷺ اور ابتدائی دور کے طرزِ عمل کی مثال:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’میں نماز شروع کرتا ہوں اور ارادہ ہوتا ہے کہ اسے طویل پڑھوں، لیکن جب کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز مختصر کر دیتا ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بچے کا رونا اس کی ماں کے لیے باعثِ تکلیف ہوگا۔‘‘ (بخاری)
اگر نبی کریم ﷺ چاہتے تو عورتوں کو بچوں سمیت مسجد نہ آنے کا مشورہ دے سکتے تھے تاکہ دیگر نمازیوں کو خلل نہ ہو، لیکن آپ نے ایسا نہیں فرمایا۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے عورتوں کی مسجد میں موجودگی کو تسلیم کیا بلکہ ان کی رعایت فرمائی۔
یک اور روایت:
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں:
نبی کریم ﷺ مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ دو ستونوں کے درمیان ایک رسی بندھی ہوئی ہے۔ آپ نے پوچھا:
’’یہ رسی کیسی ہے؟‘‘
عرض کیا گیا: ’’یہ زینب کی رسی ہے، جب وہ تھک جاتی ہیں تو اسے تھام لیتی ہیں۔‘‘
آپ نے فرمایا: ’’اسے کھول دو، تم میں سے ہر شخص اپنی تندرستی و چستی کی حالت میں نماز ادا کرے اور جب تھک جائے تو آرام کرے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عورتوں کو مسجد میں نفل نماز ادا کرنا جائز ہے، اور اگر یہ ناجائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ ضرور اس کی وضاحت فرماتے۔
صحابیات کا مسجد میں جنازہ پڑھنا:
یہ بھی متعدد صحیح روایتوں سے ثابت ہے کہ صحابیات مسجد میں جنازہ کی نماز ادا کرتی تھیں۔ ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کا انتقال ہوا، تو رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات نے فرمایا کہ ان کا جنازہ مسجد میں لایا جائے تاکہ وہ اس پر نمازِ جنازہ ادا کرسکیں۔ چنانچہ ان کا جنازہ ان کے حجرات کے سامنے رکھا گیا اور آپ کی ازواج نے ان کے لیے نماز جنازہ پڑھی۔(مسلم)
یہ واقعہ اس بات کی پختہ دلیل ہے کہ صحابیات مسجد میں نمازِ جنازہ ادا کرتی تھیں۔
خسوف و کسوف کی نماز اور عورتوں کی شرکت:
حضرت فاطمہؓ بنت منذر روایت کرتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکرؓ نے فرمایا:
میں سورج گرہن کے وقت رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہؓ کے پاس گئی۔ لوگ اس وقت نماز میں مشغول تھے اور وہ بھی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا: ’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟‘
انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ’سبحان اللہ‘۔
میں نے کہا: ’کیا کوئی نشانی ظاہر ہوئی ہے؟‘
انہوں نے اثبات میں اشارہ کیا۔
اسماءؓ کہتی ہیں:
میں بھی نماز میں کھڑی ہوگئی یہاں تک کہ بے ہوش ہوگئی، پھر میں نے اپنے سر پر پانی ڈالا۔
جب رسول اللہ ﷺ نے نماز مکمل کی تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا:
میں نے اس جگہ وہ کچھ دیکھا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، جنت اور دوزخ بھی دیکھی (بخاری)
حضرت عائشہؓ کا یہ قول کہ:
’’اگر رسول اللہ ﷺ عورتوں کے بعد کے حالات دیکھ لیتے تو یقیناً انہیں مسجدوں میں جانے سے روک دیتے‘‘ (بخاری)
یہ قول محض ایک مفروضہ پر مبنی تنبیہ ہے، نہ کہ عورتوں کے مسجد آنے پر پابندی کی دلیل۔
حضرت عائشہؓ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ عورتوں کو مسجد سے روکیں بلکہ ان کا مدعا یہ تھا کہ وہ عورتوں کو مسجد میں جانے کے آداب یاد دلائیں، جو رسول اللہ ﷺ نے سکھائے تھے۔
حضرت عائشہؓ خود بھی مسجد جاتی تھیں اور نہ ہی ان سے کبھی کسی خاتون کو روکتے ہوئے منقول ہے، نہ اپنے گھر کی اور نہ ہی باہر کی کسی عورت کو۔
اس معاملے میں ہمیں نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات اور طرزِ عمل کی پیروی کرنی چاہیے نہ کہ بعد کے لوگوں کی رائے اور خواہشات کی!
قرآن کہتا ہے:’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔‘‘ (المائدہ 5:3)
’’فتنہ‘‘ کے اندیشے کو خواتین کو مسجد جانے سے روکنے کا ایک سبب بتایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں فتنوں کے امکانات کہیں زیادہ تھے، اس کے باوجود آپ ﷺ نے عورتوں کو مسجد آنے سے نہیں روکا۔
آج معاملہ اس کے برعکس ہے — عورتیں بازار، شاپنگ مال، سڑکوں اور تفریح گاہوں میں تو جا سکتی ہیں، لیکن مسجد میں نہیں!
خاص طور پر مغرب کی نماز کے وقت بازاروں میں دیکھا گیا ہے کہ مرد تو قریب کی مسجد میں نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں، جبکہ عورتیں بازار کی گلیوں میں بیٹھی یا پھر گھومتی نظر آتی ہیں، جبکہ مغرب کا وقت مختصر ہوتا ہے، اور یہ صورتِ حال فتنہ کو بڑھا سکتی ہے۔
ایسے موقع پر اگر عورتوں کے لیے مسجد میں نماز کی سہولت ہو تو وہ نہ صرف نماز ادا کر سکتیں ہیں بلکہ ان کے دل میں اللہ و رسول کے احکام کا احساس تازہ ہو سکتا ہے اور خریداری میں اعتدال اور تقویٰ آ سکتا ہے۔
اگرچہ بعض بازاروں میں عورتوں کے لیے مسجد میں الگ جگہ فراہم کی گئی ہے مگر ایسی سہولتیں بہت کم ہیں۔
کچھ صحابہ کرام کو عورتوں کے مسجد جانے پر پسندیدگی نہ تھی،
ان میں حضرت عمرؓ بھی شامل تھے۔
لیکن ان کی زوجہ عاتکہؓ بنت زید مسجد جایا کرتی تھیں۔
کسی نے ان سے پوچھا:
’’جب تمہارا شوہر پسند نہیں کرتا تو تم کیوں جاتی ہو؟‘‘
انہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں جواب دیا:
’’تو پھر وہ مجھے روکتے کیوں نہیں؟‘‘
سائل نے کہا:
’’کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اجازت دی ہے۔‘‘
عاتکہؓ فجر کی نماز کے وقت مسجد میں موجود تھیں، جب حضرت عمرؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا (بخاری)
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عورتیں صرف جمعہ یا عید کی نماز کے لیے نہیں بلکہ پانچ وقت کی فرض نمازوں کے لیے بھی مسجد آیا کرتی تھیں۔ (جاری)
(مضمون نگار جماعت اسلامی ہند کی نیشنل سکریٹری ہیں)
(جاری)
***
ایسے دور میں جب خواتین سماج میں متحرک کردار ادا کر رہی ہیں، ان کو مسجدوں سے دور رکھنا نفع سے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن جب فقہی رعایت کو پابندی کے طور پر سمجھ لیا جائے تو راستے بند ہونے لگتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس مسئلے کو ٹھیک ٹھیک اسلامی اصولوں کی روشنی میں دیکھیں۔ اس کے لیے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم قرآن کریم کی تعلیمات کو جانیں، پھر نبی کریمؐ کی احادیث کو سمجھیں اور اس کے بعد آپؐ کے طرزِ عمل اور صحابہ کرام کے طرزِ عمل پر نگاہ ڈالیں۔ یہی وہ منہج ہے جو اسلام میں کسی بھی مسئلے پر غور کرنے کے لیے اختیار کیا جانا چاہیے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025