ڈاکٹر فیاض احمد (علیگ)
اینٹی بائیوٹکس کا بے جا استعمال صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ
صحت وتندرستی کے بغیر انسان دین و دنیا کا کوئی بھی کام بخوبی انجام نہیں دے سکتا۔ اس لئے اپنی صحت کی حفاظت ہر انسان کے لئے فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کرہ ارض پر انسان کو بسایا گیا تو اسے علم دین کے بعد دنیاوی علوم میں سب سے پہلا علم جو ودیعت کیا گیا وہ علم طب ہی تھا۔ ’’العلم علمان علم الادیان و علم الابدان‘‘۔
اس وقت پورے ہندوستان میں دو طرح کی خدماتِ صحت موجود ہیں۔ ایک سرکاری دوسرے پرائیویٹ شہروں میں۔ تو سرکاری اسپتال کچھ حد تک بہتر ہیں لیکن دیہی علاقوں میں سرکاری اسپتالوں کا حال انتہائی بدتر ہے۔ کہیں ڈاکٹر ہیں تو دوا نہیں ہے اور کہیں دونوں ہی ندارد ہیں۔حالانکہ ملک کے اندر ڈاکٹروں کی کمی بھی نہیں ہے لیکن بدنصیبی یہ ہے کہ تمام تر طبی سہولیات صرف بڑے شہروں تک ہی محدود ہیں ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی ڈاکٹر (خواہ ایم بی بی ایس ہو یا ایوش یعنی یونانی ،آیوروید اور ہومیوپیتھی وغیرہ) گاؤ، دیہات میں جانا پسند نہیں کرتا۔ ڈاکٹروں کی کمی اور طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے شرح اموات بالخصوص بچوں کی شرح اموات بھی ان دیہی علاقوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح مناسب طبی عملہ کے فقدان اور لیڈی ڈاکٹروں کی کمی کے باعث، زچگی کے دوران عورتوں کی اموات کی شرح بھی دیہی علاقوں میں زیادہ ہے۔ ہر ماہ تقریباً ایک لاکھ خواتین کی موت، زچگی کے دوران ہو جاتی ہے اور تقریباً دس لاکھ بچے ہر سال ایک ماہ کی عمر پوری کرنے سے قبل ہی، مناسب طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح ہائی بلڈ پریشر، فالج، امراض قلب، ذیابیطس اور کینسر وغیرہ جیسے امراض کے ساتھ ہی مختلف متعدی امراض جیسے ملیریا، ڈینگو (Dengue) ،دماغی بخار (Japanese Encephalitis) وغیرہ کے نتیجہ میں بھی، دیہی علاقوں میں، کثرت سے اموات ہوتی رہتی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی اور دیگر طبی عملہ کی عدم موجودگی ،دواوں کے فقدان اور ان کی بد نظمی کی وجہ سے ہی اکثر مریض پرائیویٹ کلینک اور ہاسپٹل کا رخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جہاں مریض صحت یاب ہو یا نہ ہو لیکن صحت کے حصول کی خواہش میں قرض لینے اور بسا اوقات جائیداد بیچنے پر بھی مجبور ضرور ہوتا ہے ۔
گاوں، دیہات اور قصبات میں غیر مستند جاہل ڈاکٹروں کی بھر مار ہے، جن کے پاس طب کی کوئی ڈگری تو دور کی بات ہے اکثر و بیشتر وہ ہائی اسکول یا انٹر بھی پاس نہیں ہوتے اور ڈاکٹر بن کر لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ ان غیر مستند ڈاکٹروں میں کچھ تو بغیر کسی لیٹر ہیڈ اور بغیر کسی سائن بورڈ کے مطب کرتے ہیں جن سے ہر آدمی واقف ہوتا ہے کہ یہ ڈاکٹر تو نہیں ہیں بس دوا دیتے ہیں۔ اس کے باوجود مریض(خواہ وہ جاہل ہوں یا پڑھے لکھے) ان کے پاس جاتے ہیں اور اپنی مرضی سے اپنی صحت اور پیسہ دونوں برباد کرتے ہیں۔ اس کے ذمہ دار مریض خود ہیں۔ جاہل ڈاکٹروں میں اصل دھوکے باز مجرم تو وہ لوگ ہیں جو کوئی ڈگری نہ ہونے کے باوجود بڑی بڑی ڈگریاں لکھ کر یا پھر ادھر ادھر سے فرضی ڈگریاں بنوا کر باقاعدہ لیٹر پیڈ چھپوا کر اور سائن بورڈ لگا کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ایسے ہی دھوکے باز ڈاکٹروں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو مختلف میدانوں کے ماہر، جیسے ماہر امراض قلب، ماہر امراض نسواں، ماہر امراض جلد، ماہر امراض چشم، ماہر امراض اطفال وغیرہ وغیرہ کی حیثیت سے اور مختلف ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے اشتہارات کے ذریعہ عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ وہیں کچھ تعلیم یافتہ لوگ ایسے بھی ہیں جو گریجویشن، پوسٹ گریجویشن یا کسی مضمون سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ملازمت نہ ملنے کی صورت میں ڈاکٹر بن کر مطب شروع کر دیتے ہیں اور ساری زندگی، نماز روزہ کے ساتھ ساتھ دھوکہ اور فریب کا کاروبار بھی کرتے رہتے ہیں۔ بغیر سند کے بغیر ڈگری کے کوئی وکیل یا انجینئر تو درکنار مفتی تک نہیں بن سکتا لیکن بغیر پڑھے لکھے ڈاکٹر بن سکتا ہے اور ہمارا سماج حتیٰ کہ سماج کا دانشور طبقہ بھی اسے ڈاکٹر تسلیم کر لیتا ہے۔ مختصر یہ کہ جو زندگی میں کچھ نہیں کر سکتا وہ لیڈ یا ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ مذکورہ تمام صورتیں چوری، بے ایمانی، دھوکہ اور فریب کی ہیں اور اس بات کے سب قائل ہیں کہ چوری، بے ایمانی، دھوکہ اور فریب کی کمائی قطعاً حرام کے زمرے میں آتی ہے۔ اس کے باوجود نہ تو ان دھوکے بازوں کو شرم آتی ہے، نہ ہی ان کے افراد خانہ اور اعزہ و احباب کو۔ وہ ان کاموں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تو ہیں اور ایسا کرنے والوں کو چور، بے ایمان، دھوکے باز کے لقب سے نوازتے بھی ہیں لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ طب کے پیشہ میں چوری وبے ایمانی کے مرتکب، دھوکہ اور فراڈ کرنے والوں کو لوگ بڑی قدر کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں اور انہیں بڑی شان سے ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں، جبکہ حدیث میں صاف طور پر
ایسے لوگوں کو مجرم قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث کے الفاظ ہیں کہ
’’من تطبب ولم یعلم منہ الطب قبل ذلک فھو ضامن‘‘۔
ترجمہ:۔ جس شخص نے کسی کا علاج کیا اور اس سے پہلے وہ اس طریقہ علاج سے لا علم تھا تو وہ اس کا ذمہ دار ہے۔
اس حدیث کی تشریح علماء و ائمہ کرام نے اس طرح کی ہے کہ کسی غیر مستند طبیب نے مریض کو شفاء کا یقین دلا کر اس کا غلط علاج کیا تو شرعی حیثیت سے جاہل طبیب پر تاوان ہو گا کہ اس نے اپنی جہالت اور نا واقفیت سے علاج کر کے مریض کی جان لی یا اسے نقصان پہنچایا۔ اس نے مریض کو دھوکہ دیا اس لئے اس پر تاوان دینا لازم ہو گا۔ اسی پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ گویا حضور ﷺ نے فن طب سے ناواقف علاج کرنے والوں کو مجرم قرار دے کر ان پر علاج کرنے کی پابندی لگائی ہے۔ شرعی اور قانونی ہر لحاظ سے چوری، بے ایمانی، دھوکہ اور فریب کا کوئی بھی کام جرم ہے لیکن شریعت کا علم رکھنے والے مدارس کے کچھ فارغین اور مذہبی تنظیموں اور جماعتوں سے وابستہ کچھ افراد بھی مستقل دھوکہ اور فریب کے اس کاروبار میں ملوث نظر آتے ہیں۔ وہ نہ صرف خود یہ کاروبار کرتے ہیں بلکہ دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اہل مدارس اور مذہبی تنظیموں و جماعتوں کے افراد کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے اراکین و ممبران کا ذریعہ معاش کیا ہے۔ جس سے وہ چندہ اور زکوٰۃ لے رہے ہیں ان کا ذریعہ آمدنی کیا ہے۔ سچائی یہی ہے کہ مذہبی تنظیموں، جماعتوں اور مدارس کے افراد زیادہ سے زیادہ چندہ جمع کرنے کی ہوڑ میں حرام، حلال کی تمیز کھو چکے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ سماج میں پھیلے ہوئے ایسے دھوکہ بازوں کی سر زنش کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ دانستہ طور پر عوام کو دھوکہ دینے والے اور فراڈ کرنے والے افراد کی حرام کمائی کی زکوٰۃ اور چندہ لے کر اسے حلال کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔بہرکیف۔۔۔رسولﷺ نے جہاں غیر مستند معالج کی مذمت فرمائی ہے وہیں مستند بلکہ ماہر طبیب سے علاج کا مشورہ بھی دیا ہے جیسا کہ حدیث نبوی ہے کہ ’’حضرت سعد ؓ روایت ہے کہ ’’میں ایک مرض میں مبتلا ہو گیا۔ رسول ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور اپنا دست مبارک میرے سینے کے درمیان رکھا۔مجھے اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔آپؐ نے فرمایا کہ تم دل کے مریض ہو ،اس لئے حارث ابن کلدہ سے رجوع کرو، وہ ایک ماہر طبیب ہے۔ ویسے سات عمدہ کھجوریں مدینے کی لے لو اور گٹھلی سمیت انہیں استعمال کرو‘‘ ۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ’’:ْحضرت زید ابن اسلم ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے دور مبارک میں ایک شخص کو زخم لگ گیا اور خون بہنے لگا۔ اس نے بنی انمار کے دو طبیبوں کو بلوایا۔انہوں نے مریض کا معائنہ کیا ۔آپؐ نے ان لوگوں سے دریافت کیا کہ تم دونوں میں سے فن طب میں کون زیادہ ماہر ہے؟ انہوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا فن طب میں بھی خیر ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ جس خدا نے بیماری نازل کی ہے اسی نے اس کی دوا بھی اتاری ہے۔
مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ماہر فن طبیب سے علاج کروانا چاہئے اور اگر کئی ماہران فن موجود ہوں تو ان میں جو سب سے زیادہ ماہر ہو اس سے رجوع کرنا چاہئے۔ حارث ابن کلدہ اپنے دور کا سب سے زیادہ ماہر، تجربہ کار اور مستند طبیب تھا اس لئے آپؐ نے حضرت سعد ابن وقاص کو اس سے علاج کا مشورہ دیا۔
دوسری طرف پڑھے لکھے ڈاکٹروں کی ایک جماعت ہے جو اس معزز پیشہ بھی کو تجارت بنائے ہوئے ہے۔ فن طب کو کسی زمانے میں ایک معزز پیشہ تصور کیا جاتا تھا اور اس کا مقصد انسانیت کی خدمت سمجھا جاتا تھا۔ ہندو مذہب میں تو ڈاکٹر کو باقاعدہ بھگوان سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ معزز پیشہ بھی انسانوں کی خدمت کے بجائے صنعت وتجارت کا درجہ حاصل کر چکا ہے اور بیشتر ڈاکٹر تاجر بن چکے ہیں۔ اب ڈاکٹروں کا مقصد مریضوں کا علاج اور ان کی خدمت کرنا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنا رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مہنگی فیس کے باوجود، مہنگی مہنگی جانچ اور مہنگی دوائیں لکھ کر لیب اور میڈیکل کمپنیوں سے زیادہ سے زیادہ کمیشن لے کر غریب مریضوں کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت پورے ہندوستان میں دو طرح کے پڑھے لکھے مستند ڈاکٹر موجود ہیں۔ ایک تو وہ جو گاؤں، دیہات، قصبات یا پھر شہر کی جھونپڑیوں میں محض کلینک تک محدود ہیں۔ دوسرے وہ جو بڑے ہاسپٹل اور نرسنگ ہوم چلاتے ہیں۔ دونوں کی اپنی الگ الگ ضروریات اور مجبوریاں ہیں جن کے تحت دونوں ہی مریضوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
دیہی علاقوں میں لوگ ہر طرح کی خدمات پر ہنسی خوشی فیس دیتے ہیں لیکن کوئی ڈاکٹر اگر فیس لیتا ہے تو اس سے برا کوئی نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ پڑھے لکھے افراد بھی گاؤں دیہات میں ڈاکٹر کو فیس نہیں دینا چاہتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر بھی مریض کے تئیں ایماندار نہیں رہ پاتا۔ ایسی صورت میں کچھ مستند ڈاکٹر بھی پیشہ ورانہ بد دیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ البتہ ان میںجو ایماندار ہوتا ہے وہ ایسی کوئی دوا نہیں دیتا جس سے مریض کو کسی قسم کا نقصان ہو۔ لیکن وہیں دوسری طرف کچھ مستند ڈاکٹر ایسے بھی ہیں جو جانے انجانے میں محض پیسوں کے لالچ میں مریض کو ایسے انجکشن اور دوائیں دیتے ہیں جو مریض کی صحت کے لئے نقصان دہ تو ہوتا ہے لیکن اس کا نقصان فوری طور پر محسوس نہیں ہوتا اور وہ ان دواؤں کا ایسا عادی ہوجاتا ہے کہ بار بار انہیں کے پاس آنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے یہ لوگ غیر ضروری طور پر Steroids ، Anabolic Steroids اور دو دو تین تین اینٹی بائیوٹکس کے ساتھ ہی دیگر ادویہ بھی Overdose استعمال کرتے ہیں۔ ایسے ڈاکٹروں کو نہ تو معاہدہ بقراطیہ کا پاس ہوتا ہے، نہ ہی قرآن وحدیث کی تعلیمات کا لحاظ ہوتا ہے۔ بڑی حیرت اس وقت ہوتی ہے جب کچھ مسلم ڈاکٹر (سب نہیں) جو نماز روزہ کرتے ہوئے باقاعدہ اسلامی وضع قطع میں بیٹھ کر اس طرح کی گھٹیا پریکٹس کرتے ہوئے دھوکہ اور فراڈ کرتے ہیں۔ اگر ان کو دولت کمانے کے لئے دن بھر دھوکہ اور فراڈ ہی کرنا ہے تو مذہب کا چولا پہن کرنماز روزے کا دکھاوا کیوں کرتے ہیں؟ نماز تو برائیوں سے روکتی ہے ’’ان الصلوۃ تنہی عن الفحشاء و المنکر۔‘‘ لیکن جب نفس لوامہ مر چکا ہو اور نفس امارہ حاوی ہو تو نماز روزے کے باوجود مردہ ضمیر بیدار نہیں ہوتا۔ کسی غلط کام پر ان کا ضمیر انہیں جھنجھوڑتا نہیں بلکہ اس غلط کام کی تائید اور جواز فراہم کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے اصل رازق یعنی خدا کی ذات پر بھروسہ نہیں ہوتا وہ خدا کی ذات پر یقین کے بجائے اپنی تدابیر اور چالبازیوں پر یقین رکھتے ہیں۔
دوسری طرف بڑے شہروں کے کارپوریٹ ہاسپٹل ہیں جن کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ وہاں جس طرح کی لوٹ کھسوٹ ہوتی ہے اس سے بھی ہر شخص واقف ہے۔ ان کارپوریٹ ہاسپٹلز میں غریب مریض تو دور کی بات ہے مڈل کلاس بھی اپنا علاج نہیں کروا سکتا اور اگر کبھی مجبوری میں جانا پڑ گیا تو گھر بار بکنا لازمی ہے۔ آج کل کورونا کی جانچ اور علاج کے نام پر جو گورکھ دھندہ چل رہا ہے، اس سے بھی ہر شخص واقف ہے۔ خوف اور دہشت کا یہ عالم ہے کہ سنگین اور پیچیدہ امراض میں بھی لوگ بڑے ہاسپٹل میں جانے سے صرف اس لئے گھبراتے ہیں کہ کہیں کورونا پازیٹیو نہ کر دیے جائیں اور پھر ان کے اوپر تجربات شروع ہو جائیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کورونا کے نام پر ہونے والی بیشتر اموات کورونا سے نہیں بلکہ دیگر مختلف امراض کے باعث یا پھر مختلف ادویہ کے تجربہ کے نتیجہ میں ہو رہی ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ مزید برآں! کورونا کے علاج کے نام پر بڑے ہاسپٹلز کے لاکھوں کے بل کی ادائیگی بھی غریب اور مڈل کلاس آدمی کے بس میں نہیں ہے۔ ان حالات میں مسلم مریض جائے تو جائے کہاں جائے؟
اس وقت صحت کے لئے سب سے بڑا خطرہ اینٹی بایوٹکس (Antibiotics) کا بے جا استعمال ہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جی ہاں!وہی اینٹی بایوٹکس جو میڈیکل سائنس کی شان اور شناخت ہے اور جس کے وجود میں آنے کے بعد بیشتر متعدی امراض کا علاج آسان ہو گیا ہے۔ وہی اینٹی بایوٹکس اب انسانوں کے لئے بے اثر ثابت ہو رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان اینٹی بایوٹکس کا بے دریغ، غلط اور بے جا استعمال ہے۔کوئی بھی اینٹی بایوٹک کسی بھی تعدیہ میں اسی وقت تک کارگر ثابت ہوتی ہے جب اسے مخصوص مرض میں متعینہ مقدار میں اور معینہ مدت تک دیا جائے۔ اگر اسے متعینہ مقدار سے کم یا زیادہ دیا جائے یا معینہ مدت سے کم استعمال کیا جائے تو اس اینٹی بایوٹک کے خلاف جراثیم کے اندر قوت مزاحمت (Résistance) پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس جرثومہ کے خلاف اس اینٹی بایوٹک کا اثر یا تو کم ہو جاتا ہے یا پھر وہ بالکل بے اثر ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد دوبارہ تعدیہ ہونے کی صورت میں یا تو اس کی مقدار خوراک بڑھائی جائے یا پھر اس کے ساتھ ہی دوسری اینٹی بایوٹک کا اضافہ کیا جائے یا پھر ایف ڈی سی (Fixed Dose Combination)(ایسی دوا جو کئی دواؤں کا مرکب ہو) زمرے کی اینٹی بایوٹک کا استعمال کیا جائے۔ اس قسم کی دواؤں کا استعمال وقتی طور پر مفید ضرور ہوتا ہے لیکن وہیں اس کے ضمنی اثرات بھی دوگنا ہو جاتے ہیں اور قوت مزاحمت پیدا ہو جانے کی صورت میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ دوائیں بھی بے اثر ہو جاتی ہیں اور نتیجہ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال ہزاروں افراد صرف اینٹی بایوٹکس کی قوت مزاحمت کی وجہ سے تمام وسائل کے باوجود ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس قوت مزاحمت کا سب سے زیادہ بچے اور بوڑھے شکار ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کی قوت مدافعت (Defence Power ) اور قوت مناعت (Immunity) پہلے ہی سے کمزور ہوتی ہے اور اینٹی بایوٹکس کی قوت مزاحمت کے باعث کوئی بھی انفیکشن کنٹرول نہیں ہو پاتا اور نتیجتاً وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ہر سال صرف ہندوستان میں تقریباً ۵۸۰۰۰ بچے مختلف قسم کے انفیکشن میں مبتلا ہو کر صرف
اس لئے فوت ہو جاتے ہیں کہ ان کے انفیکشن میں کوئی بھی اینٹی بائیوٹک کارگر نہیں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پوری دنیا میں لوگ متبادل طریقہ علاج (Alternative Medicine) بالخصوص آیوروید اور یونانی کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور ان متبادل طریقہ علاج کی مقبولیت میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔
ہندوستان میں اینٹی بائیوٹکس کی بڑھتی ہوئی قوت مزاحمت (Résistance) کا معاملہ پہلی بار ۲۰۰۸ء میں دلی میں سامنے آیا تھا جو پوری دنیا کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے اور دنیا کے تمام ممالک اس سے پریشان ہیں لیکن ہندوستان میں یہ مسئلہ روز بروز سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے کہ ہندوستان میں اینٹی بائیوٹکس کا استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے حتیٰ کہ معمولی نزلہ زکام اور وائرل فیور میں بھی، جہاں اینٹی بایوٹکس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، وہاں بھی بے دریغ اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ اینٹی بائیوٹکس ایف ڈی سی (Fixed Dose Combination) زمرے کی استعمال کی جاتی ہیں۔ ایف ڈی سی زمرے کی دواؤں کا مقصد، دواؤں کی تعداد اور اس کی قیمت کو کم کرنا تھا، چنانچہ کچھ سنگین، پیچیدہ اور متعدی امراض جیسے ٹی بی، ایڈز وغیرہ میں، ایف ڈی سی زمرے کی دوائیں ہی سستی اور کارگر ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن جنرل پریکٹس میں غیر ضروری طور پر ایف ڈی سی زمرے کی دواؤں، بالخصوص اینٹی بائیوٹکس کا استعمال، عموماً نقصان دہ ہو تا ہے۔جنرل پریکٹس میں ان دواؤں کی Safety اور Efficacy کو دیکھتے ہوئے قانونی طور صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بہت سی ایف ڈی سی زمرے کی دوائیں ممنوع (Banned) قرار دے دی گئی ہیں۔ بین الاقوامی طبی جریدہ دی لانسیٹ (The Lancet) کے مطابق، ۱۰ ،مارچ ۲۰۱۶ء کو ہندوستانی حکومت نے تقریباً ۳۳۰ ایف ڈی سی زمرے کی دواؤں پر فوری طور سے پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن بڑا المیہ یہ ہے کہ ہندوستان میں تمام تر قوانین اور پابندیوں کے باوجود بہت ساری قومی و بین الاقوامی کمپنیاں اس طرح کی ایف ڈی سی دوائیں دھڑلے سے بنا رہی ہیں اور دولت کے حریص ڈاکٹر اس طرح کی دوائیں بیچ رہے ہیں۔ طبی جریدہ دی لانسیٹ کے مطابق ایف ڈی سی زمرے کی ۱۱۸ اینٹی بایوٹکس ہندوستان میں بنائی اور بیچی جا رہی ہیں جن میں سے ۸۰ دوائیں (۶۸ فیصد) سینٹرل ڈرگس اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائیزیشن (Central Drugs Standard Control Organisation) میں رجسٹرڈ نہیں ہیں یعنی مذکورہ ادارہ کی اجازت کے بغیر بنائی اور بیچی جا رہی ہیں جبکہ ایف ڈی سی زمرے کی دواؤں کو بنانے کے لئے مذکورہ ادارہ سے اجازت لینا ضروری ہوتا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس کے بے دریغ استعمال کی اس روش پر اگر قابو نہ پایا گیا تو یقیناً ایک دن ایسا آئے گا جب تمام تر سہولیات اور وسائل کے باوجود متعدی امراض کا علاج نا ممکن ہو جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یقیناً اس کے ذمہ دار اکثر و بیشتر ڈاکٹر ہیں لیکن کچھ حد تک مریض بھی اس کے ذمہ دار ہیں اس لئے کہ کچھ لوگ خود میڈیکل اسٹور سے دوائیں (جن میں اینٹی بایوٹک بھی شامل ہوتی ہے ) لے کر استعمال کر لیتے ہیں وہیں دوسری طرف اکثر مریض سستے علاج کے چکر میں ایسے ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں جو صرف ایک دن کی یا چار خوراک دوائیں دیتے ہیں، جس میں اینٹی بایوٹکس بھی شامل ہوتی ہیں۔ اب اگر ایک دن کی دوا سے مریض کو کچھ افاقہ ہو گیا (لیکن مرض ختم نہیں ہوا) تو وہ دوبارہ دوا لینے نہیں آتا اس لئے کہ ڈاکٹر نے اسے بتایا ہی نہیں کہ یہ دوا کتنے دن کھانی ہے۔ مزید ستم یہ کہ اس ایک دن کی دوا میں اکثر و بیشتر کوئی نہ کوئی اسٹیرائڈ (Steroids) بھی شامل ہوتی ہے۔ دونوں ہی صورتیں مریض کی صحت کے لئے خطرناک ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ ایک دن یا چار خوراک اینٹی بایوٹک یا اسٹیرائیڈ کھانے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوتا۔ ایسا کرنے سے ایک طرف تو اینٹی بائیوٹک کا Résistance بڑھتا جاتا ہے دوسری طرف غیر ضروری طور سے دیے گئے اسٹیرائیڈز کے ضمنی اثرات بھی جسم پر مرتب ہوتے ہیں، جس کا فوری طور پر پتہ نہیں چلتا۔ بیشتر غیر مستند ڈاکٹروں کو تو اینٹی بائیوٹکس کی صحیح مقدار خوراک اور اسٹیرائیڈز کے استعمال کا طریقہ ہی نہیں معلوم ہوتا جبکہ کچھ مستند ڈاکٹر (سب نہیں) دانستہ طور پر اس طرح کی غلط پریکٹس کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہے یہ ہے کہ آج کل کامیاب پریکٹس کا انحصار ڈاکٹر کی تشخیص اور صلاحیت پر نہیں ہے بلکہ اس بات پر ہے کہ ڈاکٹر یہ سمجھ لے کہ مریض ڈاکٹر سے کیا چاہتا ہے؟ اس کو اس بات سے بالکل مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ مریض کے حق میں کیا بہتر ہے؟ اور طبی نقطہ نظر سے اسے کیا کرنا چاہئے؟ بلکہ وہ صرف وہی کرتا ہے جو مریض اس سے چاہتا ہے۔ مریض صرف یہ چاہتا ہے کہ وہ کم پیسوں میں جلدی صحت یاب ہو کر اپنی روزمرہ کی مصروفیات کو انجام دے سکے۔ اس لئے اس کی مرضی کے مطابق ڈاکٹر دو چار خوراک دوائیں اسے دے دیتے ہیں اور مستقل ایسا کرنے سے ایک دن ایسا آتا ہے کہ کوئی بھی اینٹی بائیوٹک کارگر نہیں رہ جاتی۔ نتیجتاً معمولی بیماری بھی موت کا سبب بن جاتی ہے۔
دوسری طرف نرسنگ ہومز اور ہاسپٹل کا معاملہ ہے جہاں مریض گاؤں دیہات اور جھونپڑ پٹی کے ڈاکٹروں سے ہو کر پہنچتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اتنی اینٹی بایوٹکس اور اسٹیرائیڈز کھا چکا ہوتا ہے کہ اب کسی بھی ایک اینٹی بایوٹک اور متعینہ مقدار کی دیگردواؤں کے اثرات رونما ہونے میں کافی وقت لگ سکتا ہے جو مریض کے پاس نہیں ہے اس لئے کچھ نرسنگ ہومز اور ہاسپٹل (سب نہیں) کے کچھ ڈاکٹر اسے دو دو تین تین اینٹی بایوٹکس کے ساتھ ہی دیگر ادویات کے بھی اوور ڈوز دینا شروع کرتے ہیں تاکہ مریض جلدی ٹھیک ہو جائے اور ان کی ساکھ بنی رہے۔ ان ڈاکٹروں کا یہ رویہ بھی پیشہ ورانہ بد دیانتی اور مریض کے ساتھ نا انصافی ہے لیکن کچھ ڈاکٹر اپنا نام اور اپنی ساکھ بچانے کے لئے دانستہ طور پر ایسا کرتے ہیں۔ اس طریقہ علاج سے مریض کو فوری آرام تو ضرور ملتا ہے لیکن طویل مدت (Long Term) کے لحاظ سے نقصان ہوتا ہے۔ مزید برآں اوور ڈوز (Over Dose) دواؤں اور غیر ضروری اینٹی بایوٹکس کے نتیجہ میں ان کے ضمنی اثرات کے علاوہ بسا اوقات جگر اور گردے تک خراب ہو جاتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی تحقیقات کے مطابق درد کی دواؤں (NSAIDS) جیسے Ibuprofen، Naproxen وغیرہ، قروح معدہ (Ulcer) میں استعمال ہونے والی مختلف PPIs (Proton Pump Inhibitors) ادویہ اور اینٹی بایوٹکس جیسے Penicillin، Sulfonamides، Cephalosporins وغیرہ کا غیر ضروری طور باربار استعمال یا مقدار خوراک سے زیادہ استعمال حتیٰ کہ Herbal Supplements کا بھی ضرورت سے زیادہ یا غیر ضروری استعمال گردوں کے امراض (Chronic Kidney Diseases) کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر کے نسخہ کے بغیر بکنے والی بعض دواؤں(On The Counter (OTC) Products) جیسے Ibuprofen،Naproxen، Aspirin وغیرہ اور اینٹی بایوٹکس و اینٹی فنگلز (Antifungals) کا کثرتِ استعمال جگر کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ آج کل بیشتر امراض غیر فطری طرز زندگی، قوانین قدرت سے انحراف اور مذہب سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ اسلام نے زندگی کے تمام گوشوں کے ساتھ ہی صحت و مرض سے متعلق بھی مکمل رہنمائی کی ہے۔ کھانے پینے اور سونے جاگنے کے اصول بھی بتائے ہیں جن پر عمل کر کے ہم اپنی صحت کی حفاظت کے ساتھ ہی بہت سے متعدی و غیر متعدی امراض سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔
ذاتی حفظان صحت (Personal Hygiene ) اور صاف صفائی پر خاص دھیان دیں۔
کھانے پینے میں اعتدال رکھیں۔
روزانہ ہلکی پھلکی ورزش یا چہل قدمی ضرورکریں۔
اگر بیمار پڑ جائیں اور علاج کی ضرورت ہو تو خود علاجی (Self-Medication) کے بجائے کسی مستند اور ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں اور مکمل جانچ کے بعد ہی دوا لیں۔
کوئی بھی آپریشن یا Surgical Procedure کرانے سے پہلے اس میدان کے دیگر ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ ضرور کریں۔
ڈاکٹروں کو چاہئے کہ معاہدہ بقراطیہ پر سختی سے عمل کرنے کے ساتھ ہی اس پیشہ کی عظمت کو برقرا رکھیں اور مریضوں کے علاج کے تئیں ایماندار رہیں۔
مسلم ڈاکٹروں کو چاہئے کہ معاہدہ بقراطیہ کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث کو بھی پیش نظر رکھیں۔ اس لئے کہ جب آپ کے دل میں خدا کا خوف ہی نہیں ہوگا تو صرف معاہدہ بقراطیہ آپ کو غلط پریکٹس سے نہیں روک سکے گا ۔ ڈاکٹر حضرات روزانہ سونے سے قبل ایک بار اپنا احتساب ضرور کریں کہ آج انہوں نے کسی مریض کے ساتھ کسی طرح کی پیشہ ورانہ بد دیانتی تو نہیں کی ہے۔
رفاہی تنظیموں اور جماعتوں کو چاہئے کہ غریب بستیوں اور آبادیوں میں رفاہی مطب اور ہاسپٹل کا قیام کریں جہاں غریب مریضوں کو سستا اور مناسب علاج مل سکے۔ ڈاکٹروں کو بھی چاہئے کہ ایسے رفاہی مطب اور ہاسپٹل میں کم ازکم ہفتہ میں ایک دن یا کچھ گھنٹے (بلا شرط و بلا معاوضہ) غریب مریضوں کی خدمت کے لئے ضرور دیں۔
[email protected]
***
ذاتی حفظان صحت (Personal Hygiene ) اور صاف صفائی پر خاص دھیان دیں۔ کھانے پینے میں اعتدال رکھیں۔ روزانہ ہلکی پھلکی ورزش یا چہل قدمی ضرورکریں۔ اگر بیمار پڑ جائیں اور علاج کی ضرورت ہو تو خود علاجی (Self-Medication) کے بجائے کسی مستند اور ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں اور مکمل جانچ کے بعد ہی دوا لیں۔ کوئی بھی آپریشن یا Surgical Procedure کرانے سے پہلے اس میدان کے دیگر ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ ضرور کریں۔ڈاکٹروں کو چاہئے کہ معاہدہ بقراطیہ پر سختی سے عمل کرنے کے ساتھ ہی اس پیشہ کی عظمت کو برقرا رکھیں اور مریضوں کے علاج کے تئیں ایماندار رہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021