ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد،حیدرآباد
انصاف پسندوں کو آواز اٹھانے کی ضرورت
ہندوستان کا سیاسی منظر نامہ گزشتہ چند سالوں سے جس تیز رفتاری کے ساتھ ڈرامائی انداز میں بدلتا جا رہاہے اس سے ملک میں قانون کی حکمرانی، آئین کی پاسداری، دستوری اداروں کی شفافیت اور سب سے بڑھ کر شہریوں کے حقوق اور ان کی آزادیاں سب داؤ پر لگ چکے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں رائے دہندوں سے ووٹوں کو ہتھیانے کے لیے الیکشن کے موقع پر بلند بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن جب ان وعدوں کو پورا کرنے میں وہ اپنی نا اہلی کی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہیں تو پھر الیکشن کے آتے آتے دوبارہ اقتدار کے حصول کے لیے عوام کے درمیان ایسے موضوعات کو چھیڑ دیتی ہیں جن سے ان کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جاتی ہے۔ چنانچہ ان دنوں اتر پردیش کی بی جے پی حکومت اسی مشن میں لگی ہوئی ہے۔ یو پی میں 2022 کے اوائل میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ، سنگھ پریوار کے آشیرواد سے پانچ سال پہلے ریاست کے چیف منسٹر بننے میں کا میاب ہو گئے لیکن ان کی جو بھی پانچ سالہ کارکردگی رہی اس میں سوائے نفرت کو پھیلانے اور ایک مخصوص طبقہ کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کرنے کے اور کچھ نہیں رہی۔ یو پی، ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی طور پر ایک اہم ریاست ہے لیکن بی جے پی کے وہاں برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے ماحول کو پراگندا کرنے اور مختلف طبقوں کے درمیان فرقہ وارنہ کشیدگی کو جس بڑے پیمانے پر بڑھاوا دیا گیا اس کی نظیر اور مثال حالیہ عرصہ میں ملک کے کسی اور علاقہ میں نہیں ملتی۔ اب جب کہ الیکشن کا بخار تیز ہوتا جا رہا ہے یوگی آدتیہ ناتھ اپنی کرسی کو بچانے کے لیے جارحانہ فرقہ پرستی کا ایسا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ ہٹلر اور مسولینی بھی شاید ان کے سامنے شرما جائیں۔ وہ ملک کے دستور کو بھی خاطر میں لائے بغیر ایسے ناعاقبت اندیش اقدامات کر رہے ہیں جن سے ملک میں انارکی پھیل سکتی ہے۔ اس کی تازہ مثال تبدیلی ِ مذہب کے خلاف قانون سازی ہے۔ جبری تبدیلیِ مذہب کا شوشہ چھوڑ کر یو پی حکومت نے عوام کو یہ کہ کر گمراہ کیا کہ ملک میں کچھ عناصر ایسے ہیں جو پیسے اور دیگر سہولتوں کی لالچ دے کر لوگوں کا مذہب تبدیل کر رہے ہیں۔ اپنے اس جھوٹے پروپگنڈا کو سچ ثابت کرنے کے لیے اسلام کی تبلیغ کرنے والے مسلمان مبلغین پر بے بنیاد الزامات لگا کر یو پی حکومت انہیں گرفتار کر رہی ہے۔ ملک کا مخصوص میڈیا بھی حکومت کی اس ’’کار گزاری‘‘ میں اس کا بھر پور ساتھ دے رہا ہے۔ یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اگر تبدیلی مذہب کی اس لہر کو روکا نہ گیا تو ایک دن ہندوستان ’’اسلامستان‘‘ یا ’’مسلمستان ‘‘میں بدل جائے گا۔ یہ پروپگنڈا نادانستہ طور پر نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ ہندوتوا کے علمبردار جان بوجھ کر اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے یہ سب کر رہے ہیں تاکہ ہندو راشٹر کا دیرینہ خواب پورا ہو سکے۔ یوگی کے دور میں اسی خواب کی تعبیر کی تلاش میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کر نے کے لیے وقفے وقفے سے انہیں دہشت زدہ کیا گیا۔ پہلے تو ہجومی تشدد کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ ریاست کے مختلف شہروں میں مسلمانوں کا بیدردی سے قتل ہوتا رہا۔ پھر لو جہاد کے نام پر مسلم نوجوانوں کو مارنے پیٹنے کے مسلسل واقعات سامنے آتے رہے۔ گھر واپسی کی مہم بھی چلائی گئی اور یہ پروپگنڈا کیا گیا کہ مسلمان اپنے مذہب کو چھوڑ کر ہندو مذہب میں داخل ہو رہے ہیں۔ یوگی کے پانچ سال بس اسی میں گزرے اور اب ’’دھرم پریورتن‘‘ کے نام پر مسلمانوں کو یہ کہ کر بدنام کیا جارہا ہے وہ جبری طور پر لوگوں کا مذہب تبدیل کر رہے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی ثبوت ہندتوا کے علمبردار پیش نہیں کر سکے۔
مذہبی آزادی کا حق شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ اس حق کے تحت شہری کسی بھی مذہب کو قبول کر سکتے ہیں۔ مملکت یا حکومت اس میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتی۔ اس حق کی دستور نے ضمانت دی ہے۔ دستورِ ہند کی دفعہ ۲۵ میں صاف طور پر کہا گیا کہ ہر شہری کو اس بات کی آزادی دی گئی کہ وہ اپنی پسند کا مذہب اختیار کر سکتا ہے، اس مذہب کی پیروی کر نے اور اپنے مذہب کی تبلیغ واشاعت کے معاملے بھی وہ پوری طرح آزاد ہے۔ اس حق کے ذریعہ اس بات کی بھی آزادی دی گئی کہ کوئی بھی مذہبی طبقہ اپنے مذہبی اور خیراتی ادارے بھی قائم کر سکتا ہے۔ ملک کی اقلیتوں کو اس ضمن میں اور بھی آزدیاں دی گئی ہیں۔ ان سارے دستوری تیقنات کے باوجود مذہبی آزادی پر قدغن لگانا نہ صرف شہریوں کے حقوق کو سلب کرلینا ہے بلکہ ملک کے دستور کے ساتھ کھلواڑ بھی ہے۔ دستور سازوں نے ہندوستان کی ہمہ رنگی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سارے مذاہب کے احترام کے ساتھ تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ یکساں سلوک کو بھی اولین ترجیح دی۔ کثرت میں وحدت ہندوستان کی پہچان رہی ہے۔ یہاں کسی کے مذہبی عقائد سے چھیڑ چھاڑ کو روا رکھنے کی روایت نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان ایک سیکولرملک ہوتے ہوئے مختلف مذاہب کا گہوارا ہے۔ صدیوں سے یہاں کئی مذاہب پائے جاتے ہیں۔ فسطائی طاقتیں اس کی اسی انفرادیت کو ختم کر کے اسے ایک رنگ میں رنگنا چاہتی ہیں۔ ڈیڑھ سو سال سے یہ خواب دیکھا جا رہا ہے کہ کیسے ہندوستان کو ایک ہندو راشٹرا میں تبدیل کر دیا جائے۔ آر ایس ایس کے سابق سرسنچالک کے ایس سدرشن نے ایک موقع پر خطاب کر تے ہوئے مسلمانوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسلام کا بھارتیہ کرن کریں۔ انکا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے آ با واجدا اسی ہندو خاندان کا حصہ تھے۔ آر ایس ایس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ملک کے دستور میں لفظِ سیکولر بعد میں شامل کیا گیا۔ ورنہ یہ ملک شروع سے ہندو راشٹرا رہا ہے۔ آج جو کچھ یوگی یا مودی کر رہے ہیں اس کے پسِ پردہ یہی وہ فلسفہ ہے جو سنگھ پریوار کے کرتا دھرتا پیش کر کے دنیا سے چلے گئے۔ بی جے پی کو جب بھی اپنی شکست کا احساس ہو تا ہے وہ اپنے ٹھنڈے بستے سے اس ہندوتوا کے جِن کو باہر لاتی ہے تاکہ اس کے ذریعہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچا یا جا سکے۔ دستوری دفعات کے ساتھ بھونڈا مذاق اسی لیے کیا جا رہا ہے کہ یوگی نے کورونا وائرس کے دوران یو پی کے عوام کی کوئی مدد نہیں کی اور اب وہی عوام انہیں سبق سکھانے کے لیے کمر بستہ ہو گئی ہے۔ اس لیے مسلمانوں میں خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کرکے ہندو اکثریت کو یہ کہ کر ورغلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دو گے تو آنے والے دنوں میں مسلمان تم کو ہندو بھی باقی نہیں رکھیں گے۔ ہندو فرقہ پرستی کا زہر اس انداز میں گھولا جا رہا ہے کہ عام ہندو، مسلمانوں کو اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہا ہے۔ سنگھ پریوار اس کے لیے بار بار 1980کے دہے میں ہوئے میناکشی پورم کے واقعہ کو دہرا کر یہ باور کرارہا ہے کہ کس طرح کانگریس کے دور میں تمل ناڈو کا پورا کا پورا گاؤں اسلام قبول کر چکا تھا۔ ہندو ووٹوں کو متحد کر نے کے لیے بی جے پی اتر پردیش میں آگ اور خون کا کھیل رچا رہی ہے۔ مسلمان کی شکل میں اسے ایک دشمن مل گیا ہے۔ اسی کو بنیاد بناکر یوگی آدتیہ ناتھ اپنی بگڑی صورت کو پھر سے بہتر بنانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ یو پی میں الیکشن کی تاریخیں جیسے جیسے قریب آتی جائیں گی ماحول کو گرمانے کا ہر وہ حربہ اختیار کیا جا رہا ہے جس سے اکثریتی طبقہ الجھن کا شکار ہو کر پھر ایک بار بی جے پی کی جھولی میں اپنا ووٹ ڈال دے۔ اس وقت بی جے پی کی حالت یو پی میں انتہائی خستہ ہے۔ کوئی بھی ووٹر اس کی طرف پھوٹی آنکھ سے بھی دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کوویڈ۔۱۹ اور کسانوں کے احتجاج نے سارے ملک اور بالخصوص یو پی میں بی جے پی کو خاک چٹا دی ہے۔
حالات کے اس تناظر میں یہی بات کہی جا سکتی ہے کہ تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی دراصل اس ملک کی کثیر مذہبی اور کثیر تہذیبی شناخت کو ختم کر کے ایک مذہب، ایک تہذیب اور ایک زبان کو پوری ہندوستانی قوم پر جبری طور پر مسلط کرنا ہے۔ اس منفی نظریہ اور سوچ کو پروان چڑھا کر بی جے پی اقتدار کی منزلوں کو بھی طے کرنا چاہتی ہے۔ سماج کو بھی مذہبی خطوط پر تقسیم کر کے انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نفرت آمیز پروپیگنڈہ کا مقصد ہندو دھرم کا تحفظ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے مسلم دشمنی کا عنصر کار فرما ہے۔ یو پی کے الیکشن کے ساتھ 2024 کے پارلیمانی انتخابات بھی بی جے پی کے پیشِ نظر ہیں۔ اس لیے ابھی سے تیسری مرتبہ مرکز میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے فرقہ وارانہ بنیاد پر فضاء کو مکدر کر نے کے لیے ایسے مسائل کو چھیڑا جا رہا ہے جو نہ ملک کی ضرورت ہیں اور نہ شہریوں کے کسی طبقہ نے ایسے موضوعات کو منظرِ عام پر لانے کی بی جے پی سے اپیل کی ہے۔ ایک ایسے وقت جب کہ سارا ملک کوویڈ۔۱۹ کی قہر سامانی سے سسک رہا ہے، اسپتالوں میں مریض علاج نہ ہونے کی وجہ سے دم توڑ رہے ہیں۔ ایک سال سے زائد عرصہ ہونے کے باوجود حکومت اس جان لیوا مرض پر قابو نہیں پا سکی ہے۔ شمشان گھاٹوں میں متوفیوں کو سپردِ آتش کر نے کے لیے لواحقین کو انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ گنگا میں ہزاروں نعشیں تیرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ مہاجر مزدوروں کو نا قابلِ بیان تکالیف سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ راستوں پر چلتے چلتے کئی مزدور فوت ہو گئے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں بے روزگاروں نے فاقہ کشی سے تنگ آکر خود کشی کر لی ہے۔ ایسے ہوش رُبا حالات میں بھی حکمران اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے عوام کو ایک دوسرے سے دور کرنے کے لیے مذہب کی آڑ میں سیاست چلائیں تو اس سے بڑھ کر ملک اور قوم سے بد دیانتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اشتعال انگیز بیانات اور ملک کے ایک طبقہ کے حقوق پر شب خون مارتے ہوئے ہندتوا طاقتیں ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کر رہی ہیں۔ اس کا مقصد سماج کو مختلف خانوں میں بانٹ کر ہندو ووٹ بینک کو متحد کرنا ہے۔ کل تک ملک میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کر نے کی باتیں ہوتی رہیں۔ گزشتہ معیاد میں بی جے پی کی مرکزی حکومت نے اس کے لیے با ضابطہ کوشش بھی کی۔ لاء کمیشن کو استعمال کرتے ہوئے ایکسوال نامہ بھی تیار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے ذریعہ مسلمانوں کی شہریت پر سوالات اٹھائے گئے۔ اس پر جب سارے ملک میں ہنگامہ شروع ہو گیا اور ہر طرف سے صدائے احتجاج بلند ہو نے لگی تو مودی حکومت پیچھے ہٹ گئی۔ لیکن اب بھی خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ اب جبری تبدیلیِ مذہب کا ہّوا کھڑا کر کے مذہبی آزادی پر پابندیاں عائد کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ سب محض اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرنے اور انہیں اس ملک میں دوسرے درجہ کا شہری بناکر رکھ دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ فرقہ پرستی کے سیلاب کو روکنے کے لیے ملک کی جمہوریت پسند طاقتوں کو متحد ہو کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ دستور نے جن حقوق کی ضمانت دی ہے ان کا حکومت کو لحاظ رکھنا ہو گا۔ مذہبی آزادی شہریوں کی بنیادی آزادی ہے ۔ تبدیلی مذہب کے خلاف قانون، شہریوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کر دیتا ہے۔ اس لیے ملک کے تمام انصاف پسند حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ مذہبی آزادی پر منڈلاتے ہوئے سائے کو ختم کرنے کے لیے حکومت پر زور دیں کہ وہ ایسے اقدمات سے گریز کرے جس سے شہریوں کی شخصی ومذہبی آزادی متاثر ہوتی ہو۔ ملک اور قوم کا مفاد اسی میں مضمر ہے کہ حکومت شہریوں کے ان بنیادی حقوق کا تحفظ کرے اور ہر ایک کو عقیدہ وفکر کی آزادی دے۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو ملک کی جمہوریت اور اس کا سیکولرازم داؤ پر لگ جائے گا۔
***
تبدیلی مذہب کے خلاف قانون ، شہریوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کر دیتا ہے۔ اس لئے ملک کے تمام انصاف پسند حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ مذہبی آ زادی پر منڈلاتے ہوئے سائے کو ختم کر نے کے لئے حکومت پر زور دیں کہ وہ ایسے اقدمات سے گریز کرے جس سے شہریوں کی شخصی و مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہو۔ملک اور قوم کا مفاد اسی میں مضمر ہے کہ حکومت شہریوں کے ان بنیادی حقوق کا تحفظ کر ے اور ہر ایک کو عقیدہ و فکر کی آ زادی دے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021