مدھیہ پردیش :گنگا جمنا اسکول تنازعہ کے ساتھ ہی  ہزاروں طلباءکے خواب بھی بکھر گئے

مقامی غریب اور پسماندہ ہندو ومسلم خاندان کے لئے امید بن کر آیا تھا گنگا جمنا اسکول ،کارروائی کے بعد بچوں کی تعلیم کو لے کر والدین فکر مند

نئی دہلی ،27جون :۔

مدھیہ پردیش کے دموہ ضلع  کے فوتیرا میں  واقع گنگا جمنا ہائر سیکنڈری اسکول15ہزار کی غریب پسماندہ اور محروم طبقے کی آبادی کے لئے  امید کی کرن تھا۔2010 میں گنگا جمنا اسکول کا علاقے میں قیام ہوا۔جہاں تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں تھا وہاں اس اسکول نے اپنی شناخت قائم کی اور لوگوں کے لئے امید بن کر آیا تھا لیکن گزشتہ دنوں حجاب تنازعہ کے بعد ہندو تو تنظیموں کے نشانے پر آیا اسکول اب بند ہے ۔اسی کے ساتھ وہاں رہنے والے غریبوں کے بچوں کے خواب بھی ٹوٹ چکے ہیں۔

دی کوئنٹ کی رپورٹ کے مطابق ایک مقامی سماجی کارکن، نرمدا سنگھ ایکتا بتاتی ہیں کہ یہ اسکول مقبول ہوا کیونکہ اس نے طلباء کو معیاری تعلیم فراہم کی، خاص طور پر پسماندہ طبقوں کے لوگوں کو، اور علاقے سے ‘ غنڈوں’ سے نجات دلانے میں مدد کی۔

وہ بتاتی ہیں کہ فوٹیرا میں اسکول کے قیام سے پہلے یہ علاقہ مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے جانا جاتا تھا۔ لوگ غروب آفتاب کے بعد اس علاقے سے سفر کرنے سے ڈرتے تھے۔ لیکن اسکول کھلنے کے بعد صورتحال بدل گئی۔ جو لوگ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے، ان کے رشتہ داروں کے بچے تھے۔ یا پڑوسی اسکول جانے لگے  اور اس لیے انہوں نے یہاں آنا چھوڑ دیا ہے۔

اسکول کے بند ہونے کے بعد اب علاقے کے لوگوں کو اپنے بچوں کی تعلیم کی فکر ستانے لگی ہے ۔ ایک طرف اچھے اسکول میں داخلہ دلانا اور دوسری طرف تعلیم کی فیس کی ادائیگی کرنا ان کی صلاحیت اور آمدنی سے باہر نظر آ رہا ہے ۔

وکرم ٹھاکر کے تین بچے گنگا جمنا اسکول میں پڑھ رہے تھے۔ پیشے کے لحاظ سے ایک کسان، ا نکے پاس پانچ ایکڑ زمین ہے – اور وہ اسکول سے محض 700 میٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں   ۔ وہ اپنی زمین کی کمائی سے اپنے پانچ افراد کے خاندان کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔

ٹھاکر کی فکر اس وقت اپنے بچوں کے لیے ایک نیا اسکول تلاش کرنا ہے۔ لیکن، اس سے بھی زیادہ، اس کی فیس برداشت کرنے کے قابل ہونا ہے۔

ٹھاکر بتاتے ہیں کہ میرے تین بچے گنگا جمنا اسکول میں پڑھ رہے تھے جبکہ مجھے صرف اپنے دو بچوں کی فیس ادا کرنی پڑتی تھی، انہوں نے میرے ایک بچے کی فیس چھوٹ دی تھی۔ اگر اسکول نہیں کھلا تو مجھے نہیں معلوم کہ میرے بچے کہاں پڑھیں گے۔  ترون ابھی گنگا جمنا اسکول میں 10ویں جماعت کا طالب علم ہے – نرسری سے گنگا جمنا اسکول میں پڑھا ہے۔ اس کے والد مکیش اہیروار مدھیہ پردیش بجلی بورڈ میں کنٹریکٹ ملازم ہیں اور 8,000-9,000 روپے ماہانہ کماتے ہیں۔ ترون کہتا ہے کہ”میں پولیس میں سب انسپکٹر بننا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے، مجھے دسویں جماعت پاس کرنا ہے۔ انہوں نے ہمارا اسکول بند کر دیا ہے، اور میرے والد دوسرے اسکولوں کے اخراجات برداشت نہیں کر پائیں گے کیونکہ وہ زیادہ فیس لیتے ہیں۔ سرکاری اسکول اتنی اچھی تعلیم نہیں دیتا جتنی گنگا جمنا میں دی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ گنگا جمنا اسکول میں حجاب تنازعہ پر  بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ ہمیں ڈریس کوڈ پر کوئی اعتراض نہیں، ہندوتوادی زبردستی ماحول خراب کر رہے ہیں۔دی کوئنٹ کی رپورٹ کے مطابق ہندو والدین کا کہنا ہے کہ ہماری بیٹی نے حجاب کے بارے میں کبھی شکایت نہیں کی، یہ ان کے ڈریس کوڈ کا حصہ تھا اور اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔ ہم جانتے تھے کہ ڈریس کوڈ کیا ہے۔ پھر بھی ہم نے اپنے بچے کو داخلہ دلوایا۔ڈریس کوڈ ہمارے لیے اہمیت نہیں رکھتا لیکن تعلیم کے معیار سے فرق پڑتا ہے، جو گنگا جمنا اسکول میں بہت اچھا تھا۔ حجاب پہننے کے لیے اسکول کی طرف سے کبھی کوئی دباؤ نہیں تھا۔

ایک بچے کے والد رام پرکاش ساہو کا کہنا ہے کہ ٹاپر طلباء کے پوسٹر لگانے کے بعد ہندوتوا پرستوں کی طرف سے ہنگامہ ہوا، جن کے بچے اس اسکول میں پڑھتے ہیں ان کے والدین کی طرف سے کوئی احتجاج نہیں ہوا۔

ایک اور بچے کی ماں آشا چوہان کے مطابق اس اسکول میں میرے خاندان کے تین بچے پڑھتے تھے، میرا گھرا سکول کی عمارت سے ملحق ہے۔ میرے ٹیرس سے پورا سکول نظر آتا ہے، میں نے کبھی نہیں سنا کہ اسکول میں کسی کو حجاب پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہو۔

جب کہ اسکول میں بہت سارے ثقافتی پروگرام ہوتے ہیں، ان میں سے ایک تقریب میں، میرے بچے کرشن اور رادھا بھی بنے تھے۔

آپ کو بتاتے چلیں کہ بی جے پی حکومت نے ہندوتوا پرستوں کی جانب سے ان پر حجاب پہننے پر مجبور کرنے کے الزام کے بعد اس اسکول کی  منظوری منسوخ کر دی ہے، جس کی وجہ سے 1000 بچوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔