ابونبیل خواجہ مسیح الدین
’’آدھے گھنٹے میں بچوں کو فوراً تیار کر لو ہمیں ڈنر پر جانا ہے، میں پہنچ رہا ہوں‘‘ عابد نے کہا۔
’’لیکن کیوں؟‘‘ مزنہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’بس تمہیں ایک سرپرائز دینا ہے‘‘ یہ کہہ کر عابد نے لائن کاٹ دی۔
’’عابد بھی ناں‘‘ زچ ہو کر مزنہ نے دونوں بچوں کو تیار کیا اور خود بھی تیار ہونے لگی۔
چند منٹوں میں عابد نے گھر پہنچ کر باہر سے بچوں کو آواز دی، ’’جلدی نیچے آجاؤ میں انتظار کر رہا ہوں‘‘
’’عابد! آپ اوپر آجائیں اور فریش تو ہولیں‘‘
’’نہیں نہیں! جلدی کرو دیر ہو رہی ہے‘‘
مزنہ نے آیا کو دروازہ بند کر لینے کے لیے کہا اور بچوں کو لے کر کار میں آبیٹھی، دورانِ سفر عابد نے کوئی بات نہیں کی، بس دل ہی دل میں مسکراتا رہا، پھر بنجارہ ہلز کی ملابار گولڈ کے عالی شان شور وم پر گاڑی روک دی اور والیٹ پارکنگ کے لیے ملازم کو کار کی چابی تھماتے ہوئے تیزی سے شوروم میں داخل ہو گیا، بچے بھی اپنے ابو کو حیرت سے تکے جا رہے تھے اور مزنہ کی شکل تو ہزاروں سوالوں کا استفسار نامہ بن چکی تھی۔
’’آج تم جو چاہو پسند کرو اور خرید لو! میں آج بہت خوش ہوں‘‘ عابد نے بیش بہا سونے جواہرت کے ریک میں رکھے سیٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
بہت دنوں سے مزنہ کے دل میں ایمرالڈ کا سیٹ خریدنے کی بڑی آرزو تھی، اس نے ایک خوبصورت اور قیمتی سیٹ پسند کیا، عابد اصرار کرنے لگا کہ کچھ اور بھی خرید لے، پھر بچوں کو ٹریٹ دینے کے لے شہر کے مہنگے باربی کیو پیراڈائز ریسٹورنٹ پر ڈنر کے لیے پہنچے، مزنہ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے۔
’’بتاؤ نا عابد! آخر یہ سب کیا ہے؟‘‘ مزنہ کا دل خوشی سے معمور تھا۔
’’کھانا کھاتے ہوئے بتاؤں گا، پہلے آرڈر تو کرلو۔‘‘ بچوں نے اپنی اپنی پسند کی چیزیں آرڈر کیں، بہت ساری گرِل کی چیزیں منگوائی گئیں۔
پھر عابد مزنہ سے کہنے لگا: ’’پتہ ہے ہائی ٹیکس میں جو ہمارا پراجیکٹ چل رہا تھا نا‘ آج اس کی فائنل ڈیل ہو گئی ہے اور پہلی قسط مل چکی ہے، الحمد للہ سو فیصد نفع ہوا ہے۔‘‘
’’الحمدللہ! میں نہ کہتی تھی اللہ تعالیٰ آپ کی محنتوں کو ضائع نہیں کرے گا، یہ وہی پراجیکٹ ہے نا جو آپ نے راجیش کے ساتھ شروع کیا تھا؟‘‘
’’ہاں وہی پراجیکٹ! بیچارہ راجیش! میرا بہترین دوست، اس کی قسمت میں اس سے مستفید ہونا نہیں لکھا تھا لیکن …… دیپا اور اس کے بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔‘‘ عابد کے اس آخری جملہ پر مزنہ چونک کر حیرت سے تکنے لگی۔
عابد اور راجیش نے ایک ساتھ پی جی مکمل کی، عابد کو ملازمت ملنے کا سوال ہی نہیں تھا، البتہ سرکاری ریزرویشن پالیسی کے تحت راجیش کو فی الفور سرکاری ملازمت مل گئی اور عابد نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ سخت کاوشوں کے بعد گلف کی ایک معروف کنسٹرکشن کمپنی میں کام حاصل کر لیا، چند ہی سال ملازمت کی اور وہاں کچھ سرمایہ اکھٹا کرکے وطن واپس لوٹ آیا پھر بہت سوچ بچار کے بعد رئیل اسٹیٹ کا کاروبار شروع کر دیا۔
چند سالوں کی انتھک محنت و لگن سے عابد نے شہر میں قابل بھروسہ بلڈر کی حیثیت سے اپنا مقام بنالیا۔ اسی اثناء میں راجیش کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی رہا، وہ تو رہا سرکاری ملازم اور عابد کی ترقی و خوشحالی دیکھ کر اُسے اپنے دوست پر رشک آنے لگا۔ ایک دن راجیش بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اپنی ضروریاتِ زندگی پورا نہ ہو پانے کا گِلہ کرتے ہوئے عابد سے گزارش کی کہ اُسے بھی اپنے کاروبار میں شریک کرلے، لیکن سوال سرمایہ کا تھا، راجیش ایک دیانت دار افسر تھا، اس لیے صرف تنحواہ پر ہی قانع تھا۔
ایک روز وہ اپنے رہائشی مکان کے کاغذات لے آیا اور اصرار کرنے لگا کہ عابد یہ مکان فروخت کر کے سرمایہ اپنے کاروبار میں لگائے، راجیش کا یہ آبائی مکان چھوٹا سا ضرور تھا لیکن شہر کے اہم محل وقوع پر ہونے کی وجہ سے دو ڈھائی کروڑ کی مالیت کا تھا۔ چونکہ عابد کو راجیش سے محبت تھی اور کیوں نہ ہوتی دونوں کے جی ٹو پی جی کے ساتھی تھے۔ عابد کو احساس ہوا کہ راجیش ایک دیانت دار افسر ہونے کے ناطے اس مہنگائی کے دور میں اس کی گزر بسر بس ہینڈ تو ماؤتھ ہی ہے، پھر کیوں نہ اُسے بھی معاشی طور پر اوپر اٹھایا جائے۔
بہت پس و پیش اور غور و فکر کے بعد طے پایا کہ راجیش کا مکان بطور سرمایہ عابد کے قبضہ میں رہے گا اور نفع و نقصان کی بنیاد پر معاہدہ طے پایا کہ جز وقتی طور پر راجیش حسابات کے ساتھ ساتھ کاروبار کا نگران بھی ہوگا، اس کام کے عوض ہر ماہ اُسے مقررہ تنخواہ بھی ملے گی، راجیش کی فیملی کرایہ کے فلیٹ میں منتقل ہوگئی اور اس کا مکان کاروباری سرگرمیوں کے لیے عابد کے قبضہ میں آ گیا۔
سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی چل رہا تھا، لیکن سرکار کی جانب سے اچانک نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا قانون لاگو ہونے کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ماند پڑ گیا اور دونوں بری طرح فکر مند رہنے لگے کہ ہائی ٹیکس میں زیر تعمیر کامپلکس میں لگائے سرمایہ کا کیا بنے گا؟ عابد پھر بھی راجیش کو دلاسا دیتا رہا کہ خدا پربھروسہ رکھنا چاہیے، چند ہی مہینوں بعد ریاستی چناؤ ہونے والے ہیں اور موجودہ برسر اقتدار پارٹی ہی کامیاب ہو کر حکومت بناتی ہے تو ترقی کے یہی منصوبے جاری رکھے گی، اس طرح نقصان کا اندیشہ نہ رہے گا لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایک دن راجیش کو اچانک دل کا دورہ پڑا اور وہ بھگوان کو پیارا ہوگیا۔ عابد کے لیے یہ سانحہ بہت ہی غم انگیز تھا۔ راجیش کی بیوی دیپا کی تو دنیا ہی اُجڑ گئی، ہندو معاشرے میں عورت کے بیوہ ہونے سے بہتر ہوتا کہ وہ بھی خاوند کی چتا کے ساتھ جل مرے۔ عابد اور مزنہ‘ دیپا اور اس کے یتیم بچوں کو دلاسا دیتے رہے کہ ہر ہر قدم پر وہ اس کے ساتھ ہیں، لیکن دیپا محسوس کر رہی تھی کہ اب اُس کی دنیا اندھیری ہو چکی ہے، اس کے بچوں کا مستقبل اُجڑ چکا ہے۔
کچھ مہینوں بعد ایک روز دیپا اپنے معصوم یتیم بچوں کے ہمراہ عابد کے گھر آئی، عابد گھر پر موجود نہیں تھا، وہ اپنے پراجیکٹ کے لیے دیگر پارٹیوں سے معاملات طے کرنے میں بے حد مشغول رہنے لگا تھا۔ عابد تھکا ماندہ گھر پہنچا تو دیپا کو اپنے گھر پا کر جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگیا۔ دیپا نے متانت سے ’’نمستے عابد بھیا‘‘ کہا، تو اس نے ٹھیک ڈھنگ سے جواب بھی نہ دیا، مُنّا موبائل سے کھیل رہا تو اُسے ڈانٹ بھی پلا دی۔ حسب عادت گُڈی دوڑ کر ’’ابو آگئے، ابو آگئے‘‘ کہتی پیروں سے لپٹ گئی تو روکھائی سے علیحدہ کیا اور اپنے بیڈ روم میں چلا گیا، مزنہ کے لیے عابد کا رویہ کچھ عجیب سا لگا۔ بیٹھک میں دیپا اور اس کے بچوں کو بٹھا کر مزنہ عابد کے پاس اپنے بیڈ روم میں آئی۔
’’خیریت تو ہے نا عابد؟ کیوں اتنا موڈ خراب ہے؟‘‘
’’میرا دماغ نہ کھاؤ! خدا کے لیے مجھے اکیلا چھوڑ دو۔‘‘ عابد نے مزنہ سے اس لہجے میں کبھی بات نہیں کی تھی۔
’’کیا ہوا عابد! تم کبھی ایسے تو نہ تھے! کچھ بتاؤ تو ہوا کیا ہے؟‘‘
’’یہ خاتون کب آئی ہے؟ اس نے تو جینا حرام کر دیا ہے۔‘‘
’’آہستہ بولو! میں نے اُسے بیٹھک میں بٹھایا ہے، وہ سن لے گی۔‘‘
’’سن لے میری بلا سے!‘‘
’’آخر ہوا کیا ہے؟‘‘ مزنہ نے نرمی سے عابد کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔
’’میں نے بڑی غلطی کی تھی راجیش کو اپنا پارٹنر بناکر، دیپا بار بار مجھ سے کہہ رہی ہے کہ میں اُسے اس کے گھر کے کاغذات واپس کر دوں، کیسے کردوں؟ اسی بھروسے پر تو میں نے اتنا پیسہ لگایا ہے کاروبار پر، پراجیکٹ میں بہت خسارہ ہونے والا ہے، اگر کاغذات واپس کردوں تو کون بھرپائی کرے گا اس نقصان کی؟‘‘ مزنہ کو عابد کی چڑچڑاہٹ کی ساری وجہ سمجھ میں آگئی۔
’’بس اتنی سی بات ہے! اچھا یہ جوس پی لو اور اپنا موڈ ٹھیک کرلو۔‘‘ مزنہ نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’تمہارے لیے یہ اتنی سی بات ہے!‘‘ عابد نے چڑ کر جوس کا گلاس ایک طرف رکھ دیا۔
’’عابد! میرے سرتاج! میری بات دھیان سے سنو، آپ کی نصف بہتر کا ناقص مشورہ آپ کے کسی کام آئے۔‘‘ مزنہ اُسے منانے کے لیے کسی قدر شوخی دکھاتے ہوئے کہنے لگی، ’’سنو عابد! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہوتے، آپ نے نیک ارادہ سے راجیش کا بھلا کرنا چاہا تھا، اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا، مناسب ہے کہ دیپا کو اس کا مکان لوٹا دو! بے چاری فی الحال بے سہارا ہے‘‘
’’تم کتنی آسانی سے کہہ رہی ہو کہ مکان اس کو لوٹا دوں؟ اگر نقصان ہوا تو کون بھگتے گا؟ میں ان حالات میں حساب کتاب بھی نہیں کر سکتا۔‘‘
’’مگر عابد! دیپا کا شوہر فوت ہوچکا ہے، وہ بیوہ ہے اور اس کے یتیم بچے بے یار و مددگار ہیں، اس کی آمدنی کے سارے ذرائع مسدود ہو چکے ہیں، وہ اپنے فلیٹ کا تین ماہ کا کرایہ بھی نہیں دے پائی، مکان دار اُسے فلیٹ خالی کرنے کے لیے کہہ رہا ہے۔ وہ بے چاری کہاں جائے گی؟‘‘
’’میں نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے ہر کسی کا؟‘‘
’’میں کہتی ہوں عابد! دیپا کو مکان اور کاغذات واپس لوٹا دو ، وہ ایک پورشن میں رہ لے گی اور باقی مکان کرایہ پر اٹھا دے گی، تو اس کے بچوں کی گزر بسر کا کوئی انتظام ہوگا۔‘‘
’’تم میری حمایت کرنے کے بجائے دیپا کی وکالت کرنے لگی ہو۔ میں ایسا نہیں کر سکتا، دیپا سے کہو کہ پراجیکٹ کے دیگر امور طے ہونے تک اپنا کوئی انتظام کر لے، جب حساب کتاب ہوگا تو نفع نقصان کا پتہ چلے گا، پھر دیکھا جائے گا۔‘‘
’’دیکھو عابد! آپ نے پہلی غلطی تو یہ کی کہ شرع کے مطابق کسی طرح کی باضابطہ لکھائی پڑھائی کیے بغیر راجیش کو پارٹنر بنالیا، اس کا گھر اور کاغذات ہمارے قبضے میں ہیں، اگر وہ عدالت جاتی ہے تو سوچو ہماری کتنی بدنامی ہوگی؟‘‘
’’دیپا سے کہو کہ جائے عدالت! میں دیکھ لوں گا‘‘
’’عابد پلیز! ٹھنڈے دل سے سوچو، دیپا ایک بے سہارا عورت ہے، اس کے بچوں کے سر پر باپ کا سایہ بھی نہیں رہا، کچھ نہ سہی آپ کو اپنے بچپن کے یار کی یاری کا خیال کرتے ہوئے ان کے اس بُرے وقت میں مدد کرنی چاہیے، ان کی دلجوئی کرنی چاہیے۔‘‘
’’تو کیا سارا خسارہ میں ہی برداشت کر لوں؟ راجیش میرا دوست ضرور تھا، اب اگر وہ مر گیا ہے تو کیا اُس کی بیوی بچوں کا بوجھ بھی اپنے سر ڈال لوں؟ دیکھو مزنہ مجھ سے بحث نہ کرو اور دیپا کی وکالت کرنا بھی چھوڑ دو۔‘‘
یکایک مزنہ کے تیور بدل گئے، ’’میں نہ آپ سے بحث کر رہی ہوں نہ دیپا کی وکیل ہوں۔ بس میں ایک عورت ہوں اور عورت کا دکھ آپ مرد حضرات کیا جانیں؟ ہمارے معاشرے میں عورت بیوہ ہو جاتی ہے تو اس کی حیثیت جانور سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ یتیموں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا، در در کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ دیپا اور اس کے بچے کسی بُرے انجام کو پہنچیں‘‘
’’راجیش مر گیا ہے تو کیا اس کی بیوی بچوں کے ہم ذمہ دار ہیں؟ وہ بھاڑ میں جائیں، مجھے ان سے کیا۔‘‘عابد بھی آپے سے باہر ہونے لگا۔
’’پلیز عابد! میں کہتی ہوں دیپا کو اس کا مکان لوٹا دو، وہ اس کے بچے لاچار ہیں، ان کے سر چھپانے کو نہ کوئی سائبان ہے اور نہ دو وقت کے گزارے کا کوئی سامان، وہ اپنے گھر میں ہوگی تو کچھ کام کاج بھی کرلے گی اور بچے بھی پڑھ لکھ لیں گے، میں کہتی ہوں اللہ ہماری ضرور مدد کرے گا، میں پھر ایک بار التجا کرتی ہوں کہ دیپا کا گھر اسے لوٹا دو۔ دیکھو! دیپا اور اس کے بچوں کے لیے راجیش تو فوت ہو گیا لیکن آپ ہمارے اور ہمارے بچوں کے لیے زندہ ہیں اور مجھے پورا یقین ہے ہمارا رب ہمیں ضائع نہیں کرے گا‘‘
جب عابد نے دیپا کو مکان کے کاغذات اور قبضہ لوٹا دیے تو دیپا نے جھک کر عابد کے پیر چھوئے اور کہا: ’’بھیا! آپ بھگوان سمان ہیں۔‘‘
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020