
مابعد پہلگام، مدارس کے خلاف امتیازی کارروائی ، مسلم بستیوں پر چھاپے
مسلمانوں کی گرفتاریاں اور جبری بے دخلی: عالمی سطح پر خدشات جنم لینے لگے
سید خلیق احمد
پہلگام کی وادی میں پیش آنے والا وہ ہولناک دہشت گرد حملہ جس نے 26 معصوم سیاحوں کی جان لے لی اور پورے ملک کو لرزہ براندام کر دیا، نہ صرف دلوں کو دہلا گیا بلکہ اس کے بعد جو سلسلۂ واقعات شروع ہوا اس نے ایک اور طرح کا زخم تازہ کر دیا کیونکہ متعدد بی جے پی زیرِ اقتدار ریاستوں میں مسلمان اور ان کے مذہبی و تعلیمی ادارے انتظامیہ کے تعصب کا نشانہ بننے لگے۔
ایک جانب جب ہندوستانی افواج نے سرحد پار جا کر دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تو دوسری جانب ملک کی بعض ریاستوں میں جو فیصلے کیے گئے انہوں نے مسلمانوں میں اپنے تحفظ، عزت اور مذہبی آزادی کے تعلق سے گہری تشویش پیدا کر دی۔
اترپردیش اور اتراکھنڈ جیسے صوبوں میں مدارس، مساجد اور دیگر اسلامی اداروں پر یہ کہہ کر چھاپے مارے گئے کہ یہ یا تو سرکاری زمین پر قابض ہیں یا نجی اراضی پر بلا اجازت تعمیر کیے گئے ہیں۔ وہیں گجرات و راجستھان میں بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو غیر قانونی بنگلہ دیشی قرار دے کر ان کی زندگی اجیرن کر دی گئی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں چاہے وہ انہدامی ہوں یا گرفتاری یا اداروں کی بندش، محض قانونی معاملات نہیں بلکہ ایک مخصوص مذہبی شناخت کو نشانہ بنانے کی منظم روش کا حصہ ہیں، جس کی جڑیں ہندتوا کی اس سیاسی سوچ میں پیوست ہیں جو ملک کے دستور کی روح سے متصادم نظر آتی ہے۔
اترپردیش میں حکومت نے نیپال سے ملحقہ سرحدی اضلاع پِیلی بھیت، شراوستی، بلرام پور، بہرائچ، سدھارتھ نگر، لکھیم پور کھیری اور مہاراج گنج—میں 350 سے زائد مذہبی ڈھانچوں کی، جن میں مساجد، مدارس اور عیدگاہیں شامل ہیں، نشان دہی، مہر بندی اور انہدام کا عمل شروع کیا ہے۔
انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے احکام کی روشنی میں کیا جا رہا ہے اور ان عمارات کے خلاف پہلے نوٹسیں بھی جاری کی گئی تھیں۔ لیکن مقامی لوگوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور دینی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں محض قانونی خانہ پُری نہیں بلکہ تعصب پر مبنی اور یک طرفہ ہیں اور انہیں قانونی دفاع کا کوئی مؤثر موقع بھی فراہم نہیں کیا گیا۔
اتراکھنڈ میں بھی صورتِ حال کچھ مختلف نہیں رہی۔ وہاں دہرہ دون، ہریدوار، اودھم سنگھ نگر اور پاؤڑی گڑھوال جیسے اضلاع میں 150 سے زائد مدارس کو یہ کہہ کر بند کر دیا گیا کہ وہ غیر رجسٹرڈ ہیں اور حکومتی منظوری کے بغیر چلائے جا رہے تھے۔
متاثرین کی زبان پر ایک ہی شکوہ ہے کہ یہ سب کچھ ان کے مذہب کو کچلنے، ان کی شناخت کو مٹانے اور ان کی برادری کو خوف کے سائے میں رکھنے کی منظم کوشش معلوم ہوتی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اتراکھنڈ میں تقریباً 500 غیر قانونی اور 450 غیر رجسٹرڈ مدارس قائم ہیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ دیگر مذہبی طبقات کے ایسے ہی غیر منضبط اداروں کے خلاف کوئی قابلِ ذکر کارروائی نہیں کی گئی جس سے حکومت کی پالیسی پر جانب داری اور امتیاز کا شبہ ہوتا ہے۔
مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی تعلیمی معیار اور احتساب کو یقینی بنانا چاہتی ہے تو مدارس کو مسمار کرنے کے بجائے ان کی باقاعدہ منظوری اور اصلاحات میں تعاون کرے۔ بیشتر مدارس غریب اور نادار طبقات کے طلبہ کو مفت تعلیم، خوراک اور رہائش فراہم کرتے ہیں۔
اسی اثنا میں گجرات میں حالات اور بھی تشویشناک ہو گئے۔ احمدآباد کے چاندولا جھیل علاقے اور سورت کے مختلف مقامات سے ہزار سے زائد مسلمانوں کوجو زیادہ تر بنگالی بولنے والے اور بنگلہ دیشی شہری ہونے کے شبہ میں زیرِ تفتیش تھے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کے فوراً بعد چاندولا جھیل اور راخیال جیسے مسلم اکثریتی علاقوں میں دو ہزار پانچ سو سے زائد مکانات، دکانیں، گودام اور کارخانے مسمار کر دیے گئے۔
راجستھان میں بھی ایک ایسا ہی منظر نامہ سامنے آیا، جہاں مختلف علاقوں سے مبینہ طور پر ایک ہزار سے زائد بنگلہ دیشی دراندازوں کو حراست میں لیا گیا۔ ان میں سے کم از کم 150 افراد کو کولکاتا روانہ کیا گیا، جہاں سے انہیں ممکنہ طور پر بنگلہ دیش واپس بھیجا جانا تھا۔
یہ صورت حال بین الاقوامی سطح پر توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ ڈھاکہ سے شائع ہونے والے معروف اخبار "ڈیلی اسٹار” کے مطابق، بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے بھارتی حکومت سے باقاعدہ تشویش کا اظہار کیا ہے اور طے شدہ واپسی کے طریقۂ کار پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈھاکہ حکومت کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ ان کارروائیوں میں قانونی ضوابط اور انسانی حقوق کی پاسداری کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
رپورٹوں کے مطابق 7 سے 9 مئی کے درمیان بھارت کی بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) نے تقریباً 300 افراد کو جن میں روہنگیا پناہ گزین بھی شامل تھے، غیر رسمی سرحدی راستوں سے زبردستی بنگلہ دیشی حدود میں دھکیل دیا ہے۔
دہلی میں معاملہ مزید سنگین اس وقت ہوا جب پولیس نے 38 روہنگیا پناہ گزینوں کو حراست میں لے کر مبینہ طور پر انڈمان اور نکوبار جزائر منتقل کیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان افراد کو بعد ازاں خلیج بنگال کے بین الاقوامی پانیوں میں لے جا کر تنہا چھوڑ دیا گیا۔ اس اقدام کو انسانی حقوق اور عالمی پناہ گزین قوانین کی صریح خلاف ورزی اور غیر انسانی سلوک قرار دیا گیا ہے۔
(بشکریہ انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)
***
اترپردیش اور اتراکھنڈ جیسے صوبوں میں مدارس، مساجد اور دیگر اسلامی اداروں پر یہ کہہ کر چھاپے مارے گئے کہ یہ یا تو سرکاری زمین پر قابض ہیں یا نجی اراضی پر بلا اجازت تعمیر کیے گئے ہیں۔ وہیں گجرات و راجستھان میں بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو غیر قانونی بنگلہ دیشی قرار دے کر ان کی زندگی اجیرن کر دی گئی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں چاہے وہ انہدامی ہوں یا گرفتاری یا اداروں کی بندش، محض قانونی معاملات نہیں بلکہ ایک مخصوص مذہبی شناخت کو نشانہ بنانے کی منظم روش کا حصہ ہیں، جس کی جڑیں ہندتوا کی اس سیاسی سوچ میں پیوست ہیں جو ملک کے دستور کی روح سے متصادم نظر آتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025