سیف اللہ، کوٹہ، راجستھان
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ’’میرے پاس ایک عورت آئی جو اپنی دو بچیوں کو لیے ہوئے تھی۔ وہ مجھ سے کچھ مانگنے آئی تھی مگر میرے پاس اس وقت ایک کھجور کے سوا کچھ بھی نہ تھا چنانچہ میں نے وہی کھجور اٹھا کر اس کو دے دیا۔ اس نے کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور اپنی دونوں بچیوں کو آدھا آدھا بانٹ دیا، خود اس نے چکھا بھی نہیں۔۔ پھر وہ اٹھی اور چلی گئی۔ کچھ دیر کے بعد نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ کو اس عورت کا سارا قصہ سنایا۔ اس پر آپ نے فرمایا ’’جس کسی کو بھی لڑکیوں کے ذریعے آزمایا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بن جائیں گی‘‘۔ (بخاری و مسلم)
یہ حدیث مومن والدین کو ایک ایسا طاقتور محرک دیتی ہے کہ اسلامی معاشرہ میں والدین لڑکی کی پرورش و کفالت کو بوجھ نہیں بلکہ اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھیں گے اور اس کمزور صِنف کو معاشرہ میں عظمت واحترام کا وہ حقیقی مقام حاصل ہو گا جس کی یہ حقیقت میں مستحق ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ میرے پاس ایک غریب عورت اپنی دو بچیوں کو لیے ہوئے آئی میں نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس نے ایک ایک کھجور تو اپنی دونوں بچیوں کو دی اور ایک کھجور اپنے منھ میں ڈالنا چاہتی تھی کہ ان بچیوں نے وہ بھی مانگ لیا، ماں نے اس کھجور کو جسے وہ کھانا چاہتی تھی دو ٹکڑے کئے اور دونوں بچیوں کو دے دیا، مجھے اس کی یہ ادا بہت پسند آئی اور میں نے اس کا یہ کارنامہ نبی ﷺ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا ’’اللہ نے ان بچیوں کے ساتھ نیک سلوک کے صلے میں اس کے لیے جنت واجب کر دی اور جہنم کی آگ سے اسے آزاد کر دیا ‘‘۔
لڑکیوں کی پرورش اور کفالت پر اس قدر زور، مختلف موقعوں پر اس کی ترغیب اور اس قدر عظیم صلے کی بشارت دینے کا سبب یہ ہے کہ ہر دور میں انسانی سماج لڑکیوں کے سلسلے میں ناانصافی اور زیادتی کرتا رہا ہے اور اسلام اس ظلم و ناانصافی کو یکسر ختم کرنا چاہتا ہے۔لڑکا چونکہ زندگی بھر بالعموم ماں باپ کے ساتھ رہتا ہے، زندگی بھر اس سے خدمت و تعاون کی امید رہتی ہے، وہ باپ کا قوت بازو اور خاندان کی شان و عظمت کا ذریعہ ہوتا ہے کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس سے گھر کے مال و دولت میں اضافہ کی امید ہوتی ہے اس لیے اس کی پرورش و کفالت زیادہ شوق اور چاو سے کی جاتی ہے اور وہ نسبتاً زیادہ پیار ومحبت کا مرکز رہتا ہے اس کے برخلاف لڑکی سے نہ خدمت و تعاون کی امید ہوتی ہے نہ دولت میں اضافے کی- وہ جونہی ذرا ہوشیار ہو کر کچھ کرنے کے لائق بنتی ہے، دوسرے کے گھر کی رونق بن جاتی ہے اور والدین کے گھر کی دولت میں اضافہ کے بجائے عام حالات میں کچھ کمی کر کے ہی رخصت ہوتی ہے، اس لیے گھر میں اسے وہ اہمیت و عظمت حاصل نہیں ہوتی جو لڑکے کو حاصل ہوتی ہے-
یہ حدیث شریف اسلامی معاشرہ کو ایک دوسرے انداز سے سوچنے کی ترغیب دیتی ہے، یہ متوجہ کرتی ہے کہ مومن کی منزل گھر کی رونق کو بڑھانا اور صرف مادی انداز میں سوچنا ہی نہیں ہے بلکہ اس کی آخری منزل اور منتہائے مقصود آخرت کی فلاح و نجات ہے اور لڑکی کی پرورش ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے آدمی اس منتہائے مقصود کو پا سکتا ہے۔ لڑکی سے پیارو محبت، اس کے ساتھ نیک سلوک اور شوق و لگن سے اس کی پرورش وکفالت کے لیے فلاح آخرت کا محرک ہی سب سے مضبوط اور موثر محرک ہونا چاہئے –
اللہ نے آپ کو لڑکیاں دے کر اور ان کی پرورش و کفالت کی ذمہ داری سونپ کر گویا یہ موقع فراہم کیا ہے کہ آپ اپنی فلاح و سعادت کا سامان اپنے گھر میں ہی کر لیں اور اپنے فطری جذبے کی تسکین کر کے اپنے منتہائے مقصود کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ لڑکی کے ساتھ حسنِ سلوک کے صلے میں جنت کی ضمانت نبی صادق کی زبان سے اس قدر زبردست محرک ہے کہ اس کے مقابلے میں دوسرے سارے محرک بے اثر ہو کر رہ جاتے ہیں ایک موقع پر تو نبی ﷺ نے اس اجر و صلے کو اس قدر پرکشش بنا کر پیش فرمایا ہے کہ مومن کی روح وجد کرنے لگتی ہے۔ فرمایا: جس شخص نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ دونوں بالغ اور جوان ہو گئیں اور اپنے گھروں کی ہوگئیں تو وہ قیامت کے روز اس حال میں آئے گا کہ وہ اور میں ان دو انگلیوں کی طرح ساتھ ساتھ ہوں گے – اور آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملا کر دکھایا- (صحیح مسلم)
پھر بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بہنوں کی پرورش و کفالت کا بھی اللہ کے رسول نے یہی صلہ بیان فرمایا ہے اور ایسے شخص کو جنت کی بشارت دی ہے۔ ایک روایت میں نبی ﷺ نے دو بیٹیوں یا بہنوں کی پرورش کا صلہ جنت قرار دیا ہے- اسی میں حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کا یہ بیان بھی ہے کہ اگر لوگ ایک بیٹی یا بہن کی پروش کے بارے میں پوچھتے تو حضور ایک کے بارے میں بھی یہی بشارت دیتے۔
اوپر کی ان حدیثوں میں لڑکیوں کی پرورش و کفالت کی ترغیب دینے کے لیے سب سے زیادہ قوی محرک یعنی فلاح آخرت کی طرف ذھن کو متوجہ کرنے سے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہئے کہ لڑکیوں کی پرورش کرنے والے کو جو کچھ ملے گا وہ بس آخرت میں ہی نصیب ہوگا۔ یہاں تو زحمتیں، پریشانیاں اور تنگ دستی ہی اس کے لئے مقدر ہے۔ درحقیقت سب کی کفالت کرنے والا تو وہ خدا ہے جو تمام خزانوں کا اصل مالک ہے ہو سکتا ہے کہ وہ بچیوں کے طفیل خود سرپرست پر بھی خصوصی توجہ فرمائے اور یہاں بھی اسے خوش حالی اور کشادگی نصیب ہو۔ جن بچیوں کی وہ پرورش کررہا ہے درحقیقت وہ اس کے دسترخوان پر اپنی قسمت کا کھاتی ہیں اور یہ اس کی خوش نصیبی اور سرفرازی ہے کہ خدا نے اس کے لئے اس کو چنا ہے-
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ ایک بار ان کے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، اس کے یہاں کئی بچیاں تھیں، اس نے کہا کاش یہ سب مر جاتیں۔ حضرت ابن عمرؓ کو اس شخص پر سخت غصہ آیا اور بولے ’’کیا تو ان بچیوں کو روزی دیتا ہے؟‘‘
ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’خدا کی طرف سے تمہاری جو مدد بھی کی جاتی ہے اور جو روزی تمہیں دی جاتی ہے وہ تمہارے کمزوروں کی بدولت ہی دی جاتی پے۔ (بخاری)۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021