’’لو جہاد‘‘: اتر پردیش کابینہ نے جبراً مذہبی تبدیلی کے معاملات کی جانچ کے لیے آرڈیننس منظور کیا
اترپردیش، 25 نومبر: ٹائمز ناؤ کی خبر کے مطابق اتر پردیش کی کابینہ نے منگل کے روز ’’لو جہاد‘‘ (Love Jihad) کے معاملات کی جانچ کے لیے ایک آرڈیننس کو منظوری دے دی۔
"لو جہاد” ہندوتوا تنظیموں کی خود ساختہ اصطلاح ہے، جو مسلمان مردوں پر شادی کے ذریعہ ہندو خواتین کا مذہب تبدیل کروانے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
ریاستی کابینہ کے وزیر سدھارتھ ناتھ سنگھ نے کہا کہ یہ آرڈیننس غیر قانونی مذہبی تبادلوں کے خلاف ہے۔ سنگھ نے کہا کہ اس آرڈیننس میں زبردستی مذہبی تبادلوں پر 15000 روپے جرمانے کے ساتھ 1 سے 5 سال تک کی قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
شیڈیولڈ ذاتوں اور شیڈول ٹرائب کمیونٹی کی نابالغ لڑکیوں اور خواتین کی مذہبی تبدیلی کروانے پر 25،000 روپے جرمانے کے ساتھ 3 سے 10 سال قید کی سزا ہوگی۔ زبردستی بڑے پیمانے پر مزہبی تبادلوں کی صورت اس آرڈیننس میں 3 سے 10 سال تک کی قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی دفعات ہیں۔
سنگھ نے مزید کہا کہ اگر کوئی فرد کسی دوسرے مذہب کو قبول کرنے کے بعد شادی کرنا چاہتا ہے تو انھیں شادی سے دو ماہ قبل ضلع مجسٹریٹ سے اجازت لینا لازمی ہوگا۔
یہ آرڈیننس اس واقعے کے ایک دن بعد منظور ہوا ہے، جب الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے پچھلے حکم کو کالعدم قرار دے دیا تھا، جس میں صرف شادی کی خاطر مذہبی تبدیلی کو ناقابل قبول کہا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ ’’یہ قانون میں اچھا نہیں ہے۔‘‘
جسٹس وویک اگروال اور پنکج نقوی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے نوٹ کیا تھا کہ ذاتی تعلقات میں مداخلت دو افراد کی اپنا ساتھی چننے کی آزادی کے حق پر سنگین تجاوزات کا باعث بنے گی۔
عدالت نے کہا ’’کسی ایسے شخص کے انتخاب کو نظرانداز کرنا جو بالغ ہو، نہ صرف فرد کے انتخاب کی آزادی کے منافی ہوگا بلکہ کثرت میں وحدت کے تصور کے لیے بھی خطرناک ہوگا۔‘‘
دریں اثنا بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر اقتدار دیگر ریاستوں جیسے ہریانہ، مدھیہ پردیش، کرناٹک اور آسام نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اسی طرح کے قوانین پر غور کر رہی ہیں۔
اس دوران اترپردیش کے کانپور میں مبینہ طور پر "لو جہاد” کے معاملات کی جانچ کرنے والی ایک خصوصی تفتیشی ٹیم نے کہا ہے کہ انھیں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ ان معاملات میں ملوث افراد کو غیر ملکی مالی اعانت مل رہی ہے یا انھوں نے یہ کسی منظم سازش کے تحت کیا ہے۔