عماره رضوان، نئى دہلى
تقريباً دس سال پہلے تيونس كے شہر سيد بوزيد ميں ميونسپل كارپوريشن كے عالى شان دفتر كے سامنے 17؍ دسمبر 2010 کو ايک مقامى نوجوان محمد بوعزيزى نے خود كو آگ کے حوالے کر دیا تھا، وه مقامى پوليس كے رویے سے بڑا شاكى تھا، وه جس ٹھيلے پر سبزى ركھ كر گلى گلى ميں آواز لگا كر بيچا كرتا تھا، اس ٹھيلے كو پوليس نے توڑكر زمين پر سبزياں انڈيل دى تهيں اور اپنے بوٹوں سے اس كو روند ديا تھا۔ يہى ٹھيلا بوعزيزى كے پورے گھر كى كفالت كا ضامن تھا۔ پوليس كے اس رويّہ سے بوعزيزى اتنا كبيدہ خاطر ہوا كہ اس نے موت كو زندگى پر ترجيح دى ليكن اس كى موت پورى قوم كو جينے كا ہنر دے گئى۔ صرف تيونس كے حدودِ اربعہ ميں ہى نہيں بلكہ پورے مشرق وسطى ميں نوجوان سڑكوں پر نكل آئے اور كئى دہوں سے مسند اقتدار پر براجمان ڈكٹيٹروں كو اكھاڑ پھينكا۔ تيونس كے زين العابدين، ليبيا كےقذافى، مصر كے حسنى مبارك اور يمن كے عبد الله صالح سب بوعزيزى كے جسم سے اٹھنے والى لپٹوں ميں جھلس گئے اور سب كچھ خاكستر ہوگيا۔ شام كا بشار الاسد بھى اس عوامى سيلاب كے سامنے رک نہيں سكتا تھا اگر علاقے كى قوتيں اس ميں دخل نہ ديتيں۔ ايران اور روس كى پسِ پرده فوجى مداخلت نے عوامى قوت كا پانسہ پلٹ ديا اور پھر علاقے كى دوسرى قوتيں بھی اپنی اپنی مصلحتوں كے لحاظ سے عوامى تحريک كو سبوتاژ كرنے كے لیے كود پڑيں۔
30/ مئى كى صبح امريكى شہر مينيا پوليس كے ايك قہوه خانےميں ايک سياه فام امريكى داخل ہوا اور كافى كى چسكيوں كے ساتھ قہوه خانے كے باہر دوسرے ہاتھ سے سگريٹ كے دھوئيں كو ہوا ميں اڑا رہا تھا۔ وه اپنے سامنے جلتى ہوئى كاروں سے اٹھتے ہوئے دھوئيں كو بہت كرب سے ديكھ رہا تها، ايسا لگ رہا تھا كہ وه سگريٹ كے دھوئيں کا جلتى ہوئى كار كے دھوئيں سے موازنہ كررہا ہے۔ وه بار بار منہ ہى منہ ميں بڑبڑا رہا تھا كہ يہ شہر تو ايسا نہيں تھا، تشدّد كے اكّا دكّا واقعات كے علاوه تو پورا شہر بڑا ہى پرسكون تھا، آخر يہ سب كيسے ہوگيا۔
دو دن پہلے ہى اسى شہر ميں چھياليس سالہ سياه فام امريكى كو پوليس كى زيادتى كا شكار ہونا پڑا، اس سياه فام كی ايک كيفے كے سفيد فام امريكى مالک سے 20 ڈالر كے معمولى رقم پر تكرار ہوگئى تھى، جس پر كيفے کے مالک نے پوليس کو بلا ليا تھا۔ ڈيريك شووين نامى پوليس اہلكار نے اپنے ديگر چار ساتھيوں كے ساتھ مل كر اس سیاہ فام کو زمين پر پٹخ ديا اور اس كى گردن کو اس وقت تک اپنے پيروں سے دبائے ركھا جب تل كہ وه بے سُدھ نہيں ہوگيا۔ اتفاق سے اس پورے غير انسانى عمل كو پاس كا ايک نوجوان اپنے موبائل میں قيد كر رہا تھا۔ ويڈيو كلپ سے اندازه ہوتا ہے كہ ڈيريك نے آٹھ منٹ اور 46 سيكينڈ تک جارج كو اپنے پيروں تلے دبائے ركھا۔ اور اس وقت اس كى جان چھوڑى جب وه سڑک پر ہى اپنى جان سے ہاتھ دھو بيٹھا۔
يہ ويڈيو كلپ آگ كى تيزى سے امريكى سوشل ميڈيا ميں گردش كرنے لگی اور سياه فام امريكى سڑكوں پر اترنے لگے۔ شروع ميں يہ مظاہرے پرامن رہے مگر دھيرے دھيرے مظاہروں نے تشدد كا رنگ اختيار كرليا۔ يہاں تک كہ وہائٹ ہاؤس كو بھى اس پورے معاملے پر بيان جارى كرنا پڑا اور فورى طور پر چاروں پوليس اہلكاروں كو معزول كرنا پڑا۔ امريكى صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے احتجاج كى شدت كو ديكھتے ہوئے جمعہ كو وہائٹ ہاؤس كو بھى بند كرنے كا حكم صادر كرديا، كيوں كہ سيكڑوں كى تعداد ميں مظاہرين وہائٹ ہاؤس كى گيٹ تک پہونچ گئے تھے۔ امريكى صدر نے جارج فلائڈ كے اہل خانہ سے بهى گفتگو كى اور ان كو دلاسہ ديا، مگر صدر ٹرمپ كى كوششيں مظاہرين كے غصے كو ٹھنڈا كرنے ميں ابھى تک ناكام ثابت ہوئى ہيں، بلكہ اس كى شدّت ميں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور دھيرے دھيرے پورے امريكى رياست كو یہ اپنے لپیٹے میں لے رہا ہے۔ بالآخر صدر ٹرمپ كو دھمكى آميز انداز ميں ٹويٹ كرنا پڑا كہ لوٹ مار اور تشدد كے سامنے قوت كا استعمال ہمارى پوليس كى مجبورى ہے۔
امريكى معاشرے ميں سياه اور سفيد كے درميان پائى جانى والى خليج نئى نہيں ہے، اٹھائيس سالہ سياه فام امريكى نائمن اس ہمہ گير مظاہرے پر تبصره كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ "سفيد فاموں كى طرف سے زيادتى كوئى نئى بات نہيں ہے، ايسا ہر روز ہوتا رہتا ہے، اس حادثے كے ساتھ يہ بات ہوئى كہ يہ لوگوں كے علم ميں آگيا اور پھر اندر اُبال كھانے والا غصّہ باہر سڑكوں پر آگيا ورنہ ہرروز سياه فام اس طرح كى زیادتيوں كے شكار ہوتے رہتے ہيں، اس واقعے نے جلتى پر تيل كا كم كيا ہے۔”
اسى سے ملتا جلتا ايک واقعہ 2017 ميں بھى اسى شہر ميں پيش آياتھا جب ايک سياہ فام امريكى نسلى تعصب كا شكار ہوا جب اس نے مقامى پوليس سے جنسى زيادتى كى شكايت كى اور پوليس كى جانب سے وه شكايت كے بدلے گولى كا شكار ہوا۔ يہ واقعہ بهى مقامى ميڈيا كى سہ سرخى بنا مگر اس نے احتجاج كى شكل اختيار نہ كى۔ 2015 كے اوائل ميں بھى سفيد فام پوليس كى دہشت گردى كا شكار ايک چوبيس سالہ نوجوان كلارک ہوا، جب اس نے پوليس سے سخت زبان ميں بات كرلى تھى۔
احتجاج كى آگ اب كئی شہروں تک پہنچ چكى ہے۔ دارالحكومت واشنگٹن سے لے كر شكاگو، نيويارک، لا س اينجلس اور ديگر امريكى شہر بهى اب اس كى چپيٹ ميں آچكے ہيں۔ كئى شہروں ميں مظاہرين كوقابو كرنے كے لیے آنسو گيس اور ربر كى گوليوں كا استعمال كيا گيا ہے۔
يہ مظاہرے ايسے وقت ميں ہورہے ہيں جب دنيا كا سپر پاور ملک كورونا سے سب سے زياده متاثر ہے اور صدر ٹرمپ دن بدن اپنى مقبوليت كھوتے جارہے ہيں۔ بے روزگارى نے اپنے سابقہ ريكارڈ توڑ دیے ہيں، روٹى بينک و فوڈ بينک كے سامنے امريكيوں كى اچھى خاصى تعداد قطار ميں لگى ہوئى ديكھى جاسكتى ہے۔ ايك لاكھ سے زائد امريكى كورونا كے شكار ہوچكے ہيں اور صدر ٹرمپ پر لاپروائى كا الزام برابر لگ رہاہے۔ ابھى صدر ٹرمپ اسى چيلينج سے نبردآزما تھے كہ جارج فلائڈ كى موت سے پیدا ہونے والے ملک گير احتجاج نے صدر ٹرمپ كى پيشانى پر بَل لا ديا ہے۔ ايسے ميں صدر ٹرمپ كى چين مخالف پاليسى ان كو كتنا فائده پہونچائے گی، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔
20 ڈالرسے شروع ہونے والى تكرار نے اب تک 20 ارب ڈالر كا نقصان كرديا ہے اور لگتا نہيں ہے كہ يہ آگ اتنى جلد سرد پڑےگى۔ اب تو ان مظاہرين كى تائيد ميں لندن، پيرس اور ٹورنٹو ميں بهى مظاہرے شروع ہو گئے ہيں۔
يہ ديكھنا دلچسپ ہوگا كہ آئنده نومبر ميں ہونے والے انتخاب ميں صدر ٹرمپ دوسرى مدّت كے لیے منتخب ہوپاتے ہيں يا پھر مشرق وسطى كے حكمرانوں كى طرح و ه بھى تاريخ كے صفحات تک محدود ہوجائيں گے۔
*مضمون نگار جامعہ سينئر سيكنڈرى ميں بارہويں كلاس كى طالبہ ہيں