قرض کی شان میں

قرض دار کے مسائل ہوں یا قرض خواہ کے مطالبے!دونوں آفت جاں

محمد اسد اللہ ، ناگپور

 

قرض سے بھلا کون راہِ فرار حاصل کر سکتا ہے ہماری زندگی ہی مانگے ہوئے چار دنوں سے عبارت ہے ۔ پائے فرار میسر ہو تب بھی جوتا قرض خواہ ہی کے چنگل میں ہوتا ہے۔ ایک دن ہم نے اپنی تسلی کی خاطر مظاہرِ فطرت پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ چاند، ستارے، ہوا، بادل سب قرض کی کچی ڈور میں بندھے کھسیانی ہنسی ہنس رہے ہیں۔ چاند کہنے لگا مت شرماو میاں! قرض لے کر اس بے حسی کے دور میں اس قدر دل بر داشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ مجھے دیکھو! میں سورج کا مقروض ہوں اور میرے ساتھی یہ ننھے منے ستارے بھی۔ اسی لئے ہم سب اندھیرے میں چھپ چھپ کر نکلتے ہیں۔ سورج ایک سود خور مہاجن ہے۔ اس کی آہٹ پاتے ہی ہم سب پلک جھپکتے ہی رات کے پردے میں چھپ جاتے ہیں۔ ہماری یہ آنکھ مچولی اور قرض کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
خدا نے انسان کو عمر کی مختصر سی پونجی دے کر کاروبارِ حیات کے لئے اس دنیا میں بھیجا۔ ساتھ ہی اس کی عمر کا وقفہ درمیان میں رکھ کر وصولی کے لئے تعاقب میں موت کا فرشتہ روانہ کیا۔ یہ وہی ملک الموت ہے جو زندگی میں بھی قرض خواہ کے روپ میں ہم سے بار بار ٹکراتا ہے۔ اسے دیکھتے ہی ہماری روح فنا ہونے لگتی ہے تاہم اسے ہم ہر بار چکما دے جاتے ہیں۔ ان بار بار کی ملاقاتوں میں دونوں بڑے سخت جان ہو گئے ہیں۔
قرض مانگنے والوں سے حفاظت کی خاطر دوکان دار یہ قولِ فیصل جلی حرفوں میں لکھ کر اپنی دکانوں میں لگاتے ہیں: ’قرض محبت کی قینچی ہے ‘۔اس کے باوجود گاہک محبت کا دشمن بن کر اس سے ادھار مانگ کر لے جاتا ہے۔ ’آج نقد کل ادھار‘ کی تختی دکان میں لگی رہ جاتی ہے۔ آدمی کا ’حال‘ برا ہو یا وہ ہوس پرستی کا شکار ہو جائے تو مستقبل پر تکیہ کرنے کے سوا چارہ کار نہیں۔ وقت بار بار ہمیں اس موڑ پر لا کر کھڑا کر دیتا ہے جہاں ادھار کو نقد پر ترجیح دینی پڑتی ہے۔ فتح سامنے کھڑی مسکرا رہی ہو پھر بھی شکست کو گلے لگانا پڑتا ہے۔ انسان کی بعض مجبوریوں کو وہ عقلمند لوگ کبھی سمجھ ہی نہیں پاتے جن کے ذہن میں دو اور دو چار والا فارمولا فٹ ہو چکا ہے۔ قرض بھی صرف اپنی اسی صورت میں ان کے پلّے پڑتا ہے جب وہ سود نکالنے کے بعد کچھ منافع بخش بھی ہو لیکن قرض کی بعض صورتیں زیاں ہی زیاں ہیں اور انسان انہیں اپنانے پر مجبور ہے۔ قرض لینا گاہک کی مجبوری ہے اور قرض دینا دوکان دار کی۔ ان دونوں کے اس نازک رشتے کی بنیاد محبت کا وہی اصول ہے ’ترا مجبور کردینا، مرا مجبور ہو جانا۔
دنیا کے تمام جائز و ناجائز رشتوں میں سانپ کے منہ میں چھچھوندر قسم کا تعلق سب سے اچھا، گہرا اور اٹوٹ ہوتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت میاں بیوی کی ہے۔ یہی حال قرض خواہ اور مقروض کا ہے۔ مفلسی میں قرض لینا ایک ایمان افروز تجربہ ہے۔
قرض خواہ بلا سودی کیوں نہ ہو، گراں بار احسانات کے زیاں سے خالی نہیں ہوتا۔ قرض لینے کے بعد جب لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں تب آدمی اس گھڑی کو کوستا ہے جو کسی طرح لوٹ کر آنے والی نہیں۔ حالتِ قرض میں ہماری حالت ایسی ہوتی ہے گویا کسی نے ہمیں پیڑ پر الٹا لٹکا دیا ہو۔الٹا لٹکنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ دنیا اتنی سیدھی نہیں جتنی نظر آتی ہے۔ سارے مناظر ایک الگ زاویے سے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی صورتیں بھی ایسی دکھائی دینے لگتی ہیں جیسی ہولی کھیلنے کے بعد ہو جاتی ہیں۔
دراصل قرض بنا ہی طرفین کی پول کھولنے کے لئے ہے۔ آپ صاحبِ کشف ہو کر دنیا دیکھنا اور لوگوں کی فطرت سے باخبر ہونا چاہیں تو میرا مشورہ ہے اپنے دوستوں سے قرض لیجئے ۔ایسا خطرناک مشورہ آپ کو کوئی دشمن ہی دے سکتا ہے، اس لئے اتنے وقت کے لیے مجھے اپنے دوستوں کی فہرست سے خارج کر دیجئے۔ قرض کی وصولی میں قرض خواہ کو اکثر پیغمبروں کی سی مشکل پیش آتی ہے ۔ ہوتا یہ ہے کہ مقروضوں کی امت کلمۂ قرض پر ایمان تو لاتی ہے مگر واپسی کے عملِ صالحہ والے مطالبے پر عمل پیرا نہیں ہوتی۔ زیادہ تنگ کیا جائے تو ارتداد کا خطرہ ہوتا ہے ۔ایسا ہوا تو کہاں کا سود اور کہاں کا قرض، سب صدقہ خیرات ہو جاتا ہے ۔
قرض کی عینک سے دیکھی تو دنیا میں لوگوں کی دو ہی قسمیں ہیں ۔ ایک جو قرض کے بارِ گراں تلے دبے ہوئے ہیں اور دوسرے، جو انہیں دبا رہے ہیں ۔تیسرا طبقہ خود کو قرض کے بوجھ سے آزاد خیال کرتا ہے تاہم قرض اس کے سر پر بھی موجود ہے ۔یہ ایسا ہی ہے جیسے سر پر بال موجود ہوں اور ان کے ہونے کا احساس نہ ہو۔ اگر مانیں تو کسی کا احسان بھی ایک قرض ہی ہے۔ ہمارا تہذیبی ورثہ گزشتہ نسلوں، والدین اور اساتذہ کی عنایات اور ہمارے نشو و نما اور ترقی میں کسی کا ہاتھ یہ سب احسانات ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ آپ ان سب سے مکر جائیں تب بھی جس ملک کے باشندے ہیں وہ کسی نہ کسی بیرونی ملک کا قرض دار ضرور ہے۔ بتائیے! کس منہ سے دعویٰ کریں گے کہ ہم مقروض نہیں۔
کسان فطرت کی گود میں رہتا ہے اور فطری زندگی گزارتا ہے ہمیشہ قرض کا جوا اس کے کاندھے پر رکھا رہتا ہے۔ پریم چند کے افسانوں ناولوں اور ہندی فلموں کے سود خوار ظالم مہاجن، کہانیوں میں دفن ہو کر رہ گئے مگر اپنی اولاد بینکوں کی شکل میں چھوڑ گئے۔
تاجروں اور صنعتکاروں کے مقابلے میں ملک کی خدمت میں کسانوں کا حصہ ہمیشہ شیر کا حصہ رہا ہے، اسی لئے آج جہاں صنعت کار بینک سے قرض لے کر ملک چھوڑنے پر اکتفا کرتا ہے وہیں کسان خودکشی کر کے دنیا چھوڑ جاتا ہے۔
قرض سانس لینے کے عمل سے زیادہ نازک اور ناگریز ہے بلکہ ہر سانس اور سانسوں پر سوار گراں، تلخ، تند اور شیریں لمحات بذاتِ خود ادائیگیِ قرض کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔ عام طور پر قرض نظر نہیں آتا نہ اپنے ہونے کا احساس گھڑی کی ٹک ٹک کی طرح ہر وقت گوش گزار کرواتا ہے ۔ یہ ذہن کے طاق پر کسی بھولی ہوئی شئے کی طرح رکھا رہتا ہے یا ندی میں غوطہ زن تیراک کی طرح اپنا وزن کم کر دیتا ہے۔ جونہی قرض دار ہمارے روبرو حاضر ہوتا ہے یہ پھولی ہوئی لاش کی طرح احساس کی سطح پر ابھر آتا ہے۔ قرض اپنی موج و روانی میں ہمیں چھوتا ہے، جھنجھوڑتا ہے اور کبھی آندھی بن کر ہمارے ہوش وحواس کو تنکوں کی طرح بکھیر دیتا ہے۔
قرض ہماری پیدائش سے پہلے بھی موجود تھا۔ہماری بے بسی پر مسکراتا بھی رہا ہوگا ۔ہم معرضِ وجود میں آئے تو وہ بھی ہمارے سائے کی طرح ہمارے کھاتے میں منتقل ہوگیا، چنانچہ مرحومین کے قرض خواہ ہمارے پیچھے پڑے رہے ۔زندگی تو خیر دولت کی طرح آنی جانی ہے مگر قرض سے موت کے بعد بھی چھٹکارا نہیں ۔یہ میدانِ حشر میں بھی ’صاحب سلام میرا‘ کہہ کر آ دھمکے گا اور دامن پکڑ لے گا۔ حالانکہ وہاں ہمارا نہ دامن ہوگا نہ جیب۔ ستم ظریفی یہی ہے کہ قرض دینے والا ہم سے اسی وقت دست و گریباں ہوتا ہے جب ہم تہی دست ہوں اور ہماری جیب شیطان کا کارخانہ بنی ہو۔
بعض لوگ قرض سے پناہ مانگتے ہیں اور جنہیں یہ نعمت حاصل ہوجائے وہ قرض مانگنے والوں سے نجات کی دعا کرتے ہیں ۔یہ قوم ایک تیر سے دو شکار کرتی ہے۔ یہ لوگ نہ صرف آپ سے کچھ رقم مانگ کر لے جاتے ہیں بلکہ اسی وقت آپ کو کسی اور کا مقروض بنا جاتے ہیں، گویا جس مردے کے لئے قبر کھودی گئی تھی وہ زندہ ہو کر دفنانے والے کو قبر میں دھکیل کر بھاگ کھڑا ہو۔
ہمارا تعلق قرض مانگنے والے طبقے سے رہا ہے ۔کبھی اپنے طبقے کا کوئی آدمی خوش فہمی میں مبتلا ہوکر ہم سے بھی قرض مانگ بیٹھتا ہے تو ہمیں وہ اس بیمہ ایجنٹ کی طرح نظر آتا ہے جو کسی دوسرے بیمہ ایجنٹ کو پھانسنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس قسم کے لوگوں سے ہم ذرا لمبی چوڑی معذرت کر لیتے ہیں کہ جناب! ہم اپنی قمیص میں جیب نامی دردِ سر تو پالتے نہیں۔ ایک ہمارا سر ہے جس پر بہت تھوڑے بال بچے ہیں اور بقیہ بھی عن قریب اڑان بھرنے والے ہیں ۔قرض ہی ہمارا اوڑھنا بھی ہے اور بچھونا بھی ۔(بابا لحاف والے کے پانچ سو روپئے دینا ہے) ہمارا اوڑھنا بچھونا چھوڑ کر اس متاعِ بے بہائے قرض سے تمہیں جو چاہئے لے جاو۔ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے۔
ایک مرتبہ ایک صاحب بہت مُصر ہوئے کہ کہیں سے قرض دلوا دو۔ ہم نے جھنجھلا کر کہا کہ میاں گردن کے پیچھے سے ہاتھ ڈال کر ناک پکڑنے پر کیوں تلے ہوئے ہو۔ سامنے سے بے دھڑک کسی کی بھی ناک پکڑ لو سوائے ہمارے کہ آجکل قرض داروں نے ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے مگر وہ نہ مانے۔ تنگ آ کر ہم نے ارادہ کیا کہ اپنی ناک کے نیچے پڑی ہوئی اس اضافت یعنی اپنے آپ کو سرے سے غائب کر دیا جائے ۔ایسے برے وقت میں ایک قرض دار ہی دوسرے قرض دار کے کام آ سکتا ہے۔ چنانچہ مرزا غالب سے مشورہ کیا۔ ادھر سے ارشاد ہوا ’رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو‘ یہ سنتے ہی ہم چپل پہن کر سیدھے مسجد پہنچے کہ یہاں سوال کرنا شرعاً منع ہے قرض کی درخواست یا وصولی ہر دو صورتوں میں سوال کرنا ضروری ہے۔ حالانکہ اب یہاں بھی لوگوں نے نئے راستے نکال لیے ہیں۔ قرض کا تقاضا نہ کیا ذرا اونچی آواز میں سلام کردیا یا جسے ہمیشہ سلام کیا کرتے تھے اب سلام نہ کیا۔ اسی طرح مقروض کو جسے زندگی میں کبھی سلام نہ کیا اب آتے جاتے سلام کئے جا رہے ہیں۔ سلام قرض میں بڑا خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ سیدھا کلیجے میں اتر جاتا ہے۔ بہر حال ہم نے مسجد پہنچ کر نمازکے بعد تمام عالم کے قرض داروں کے حق میں گڑ گڑا کر دعا کی اور ارادہ کیا کہ دن بھر یہیں اعتکاف میں بیٹھے رہیں گے۔ ناگہاں ایک شخص نے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور داڑھی میں انگلیاں پھیر کر ایک آیت پڑھ دی جس کا ترجمہ یہ ہے ۔اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسنہ دو ۔اس کے بعد ہم چپل اور ٹوپی سنبھال کر الٹے پاوں غالبؔ کی تلاش میں نکل پڑے۔ یہ پوچھنے کے لیے کہ ایسی جگہ بتا کہ جہاں پر خدا نہیں۔
قرضِ حسنہ کی تعریف کسی سے یہ سنی کہ ایسا قرض جس کی واپسی کے مطالبے پر قرض دار زور سے ہنس دے قرضِ ہنسنا (قرضِ حسنہ) کہلاتا ہے ۔یہ بھی خوب رہی قرض مانگتے وقت آدمی ہر طرح کا رونا روئے اور واپسی کا مطالبہ ہو تو ہنس دے ۔لوگ کہتے ہیں کہ وہ کام اچھا جس کا انجام اچھا۔ اس قرض کا انجا م بھی ہنسی خوشی ہوتا ہے۔ اسی لئے ہمیں بھی قرض کی یہ قسم دیگر تمام اقسام میں پسند ہے بشرط یہ کہ کوئی دے ہمیں قرض! یعنی ہنسنے کا موقع۔ حالانکہ یہ ایک مشکل کا م ہے اسی لئے دنیا میں ہنسنے کے مواقع کم ہیں۔
***

آپ صاحبِ کشف ہو کر دنیا دیکھنا اور لوگوں کی فطرت سے
با خبر ہونا چاہیں تو میرا مشورہ ہے اپنے دوستوں سے قرض لیجئے۔ ایسا خطرناک مشورہ آپ کو کوئی دشمن ہی دے سکتا ہے، اس لئے اتنے وقت کے لیے مجھے اپنے دوستوں کی فہرست سے خارج کر دیجئے ۔ قرض کی وصولی میں قرض خواہ کو اکثر پیغمبروں کی سی مشکل پیش آ تی ہے ۔ہوتا یہ ہے کہ مقروضوں کی امت کلمۂ قرض پر ایمان تو لاتی ہے مگر واپسی کے عملِ صالحہ والے مطالبے پر عمل پیرا نہیں ہوتی ۔زیادہ تنگ کیا جائے تو ارتداد کا خطرہ ہوتا ہے ۔ایسا ہوا تو کہاں کا سود اور کہاں کا قرض ،سب صدقہ خیرات ہو جاتا ہے ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021