ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
قرآن مجید میں زندگی گزارنے کا طریقہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں واضح کر دیا گیا ہے کہ کون سے کام صحیح ہیں اور کون سے غلط؟ کن کاموں سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور کن سے ناراض؟ وہ نیک کاموں پر جنت کا وعدہ کرتا ہے اور برے کاموں پر جہنم کی وعید سناتا ہے۔ جنت اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کا مظہر اور اس کی طرف سے انعام ہوگی اور جہنم اس کے غیظ و غضب کی علامت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزا ہوگی۔ قرآن میں جنت اور جہنم کے مستحقین کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کون سے کام انسان کو جنت میں لے جانے والے ہیں اور کن کاموں کی وجہ سے اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا یہ بیان انسانوں کے اخلاق و کردار، رویوں اور طرز زندگی کی طرف مائل کرنے کے لیے ہیں جو انھیں برے کاموں سے دور رہنے پر بھی آمادہ کرتے ہیں۔ قرآن مجید کا یہ مخصوص اسلوب ہے کہ اس میں حق اور باطل، مثبت اور منفی، صحیح اور غلط، اللہ کی رضا سے بہرہ ور کرنے والے اعمال اور اس کے غضب کو بھڑکانے والے اعمال، اہلِ جنت کی صفات اور اہلِ جہنم کی پہچان، دونوں کا بیان ساتھ ساتھ ملتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو ان کاموں کی ترغیب ملتی ہے جن سے وہ اللہ کی رضا حاصل کرکے جنت کے مستحق بن سکیں اور ان کاموں سے وہ بچنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے اس کا غضب بھڑکتا ہے اور جو جہنم میں لے جانے والے ہیں۔
قرآن کے بہت سے احکام عائلی زندگی سے متعلق ہیں۔ نسلِ انسانی کی بقا اور تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ مرد اور عورت رشتۂ ازدواج سے جڑیں، ان کی اولادیں ہوں، رشتے داریاں قائم ہوں،وہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور ان کے حقوق ادا کریں۔ قرآن عائلی زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ بتاتا ہے،ا س کے آداب کی طرف رہ نمائی کرتا ہے، اس کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات و مسائل کو حل کرتا ہے۔ وہ افرادِ خاندان کے حقوق بھی بیان کرتا ہے اور خاندان سے وابستہ تمام لوگوں کو ان کی ادائیگی کی تاکید بھی کرتا ہے۔ ان احکام پر عمل آوری کی صورت میں وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر و انعام کا وعدہ کرتا ہے اور ان کی نافرمانی کے بھیانک انجام سے ڈراتا ہے۔ یہ وعدے اور وعیدیں دونوں مل کر عائلی زندگی کی سلامتی اور خوش گواری کو قائم رکھتے ہیں اور اختلاف و تنازعہ کے سر ابھارنے پر خوش اسلوبی سے اس کے حل میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
آئندہ سطور میں عائلی زندگی سے متعلق قرآن مجید کے وہ احکام بیان کیے جائیں گے جن پر عمل آوری کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی خوش نودی اور اجر کا وعدہ کیا گیا ہے اور نافرمانی پر اخروی سزائیں اور وعیدیں بیان کی گئی ہیں:
(1) عائلی زندگی کا آغاز رشتۂ نکاح سے ہوتا ہے۔ قرآن نے مرد اور عورت کے درمیان جنسی تعلق کی واحد صورت نکاح کو قرار دیا ہے۔ وہ ازدواجی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی نشانی قرار دیتا ہے۔ (الروم:21) اس کے نزدیک نکاح سے ماورا جنسی تعلق جائز نہیں، خواہ وہ مرد اور عورت کی مرضی اور باہمی موافقت سے قائم کیا جائے یا زبردستی ۔ وہ اسے ’زنا‘ سے تعبیر کرتا ہے اور اسے بہت برا فعل اور بڑا ہی برا راستہ قرار دیتا ہے۔ (الاسراء:32) وہ اہلِ ایمان کی صفت بیان کرتا ہے کہ وہ زنا سے دور رہتے ہیں۔ ساتھ ہی دھمکی کے انداز میں یہ بھی کہتا ہے کہ جو کوئی یہ کام کرے گا وہ اپنے گناہ کی سزا پائے گا۔ (الفرقان:68) زنا کی دنیوی سزا بھی بہت دردناک اور عبرت ناک بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں ہی کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے تاکہ اسے عبرت حاصل ہو۔ (النور: 2)
(2) نکاح کے بارے میں قرآن ایک صراحت یہ بھی کرتا ہے کہ کسی مسلمان کا دیگر مذاہب کے ماننے والے سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ وہ عقیدہ کی یکسانیت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کوئی مسلمان مرد کسی غیر مسلم عورت سے نکاح نہ کرے اور کوئی مسلمان اپنی لڑکی کا نکاح کسی غیر مسلم مرد سے نہ کرے۔اس حکم کے ساتھ وہ جنت اور جہنم کا حوالہ دیتا ہے اور ممانعت کی وجہ یہ بیان کرتا ہے کہ مذاہب کے اختلاف سے عین ممکن ہے کہ غیر مسلم مرد یا عورت اور اس کے گھر والے اس کے جہنم میں جانے کا باعث بن جائیں۔
(3) نکاح کے بعد شوہر پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ بیوی کو مہر دے۔ شریعت نے مہر کی کوئی مقدار نہیں متعین کی ہے اور اسے زوجین کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے، لیکن شوہر کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مہر خوش دلی سے ادا کرے اور بیوی کو اس کا مالک بنا دے۔ ہاں، بیوی اگر اپنی مرضی سے مہر نہ لے، یا اس کا کچھ حصہ معاف کردے تو اس کی اجازت ہے۔ (النساء:4)اس تعلق سے قرآن صراحت کرتا ہے کہ اگر نکاح کے بعد کسی وجہ سے نباہ ممکن نہ ہو اور شوہر طلاق کا ارادہ کرلے تو بھی اس کے لیے جائز نہیں کہ بیوی کو جو کچھ دے دیا ہو اس سے واپس لے لے۔ قرآن اسے ’اثم مبین‘ (کھلا گناہ) قرار دیتے ہوئے ایسا نہ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
(4) قرآن مجید میں زوجین کے حقوق و فرائض تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ شوہر کوگھر کا نگراں، محافظ اور منتظم قرار دیتے ہوئے بیوی کو اس کی اطاعت کی تاکید کی گئی ہے۔ آگے کہا گیا ہے کہ اگر شوہردیکھے کہ بیوی نافرمانی اور سرکشی پر آمادہ ہے تو اسے سمجھائے بجھائے، خواب گاہ میں اس سے علحٰیدگی اختیار کرے اور وہ پھر بھی نہ مانے تو اس کی تادیب کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ کہا گیا ہے:’’ اگر بیوی اطاعت شعار ہو تو خواہ مخواہ اس پر دست درازی کے بہانے نہ تلاش کرو۔ یقین رکھو کہ اللہ بڑا اور بالاتر ہے۔‘‘ (النساء:34) قرآن کے اس اسلوب میں سخت تنبیہ اور دھمکی پائی جاتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر تم ناحق بیوی کو ستاؤگے تو اللہ تعالیٰ کی گرفت اور سزا سے نہیں بچ سکتے۔ تم بیوی پر تسلط رکھتے ہو تو اللہ تم پر تسلط رکھتا ہے۔ تم خود کو بیوی سے بڑا سمجھتے ہو تو اللہ تم سے بڑا ہے۔
(5) شوہر چوں کہ گھر کا نگراں ہے، اس لیے اس کی ذمہ داری ہے کہ گھر والوں کی دینی و اخلاقی تربیت کی فکر کرے، انھیں احکام دین پر چلانے کی کوشش کرے اور ایسے کاموں سے بچائے جو جہنم کی طرف لے جانے والے ہیں۔ قرآن مجید میں شوہر کی یہ ذمہ داری یاد دلائی گئی ہے اور اس سلسلے میں جہنم سے ڈرایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہلِ عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انھیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔ ‘‘ (التحریم:6)
(6)کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کے بچے یتیم ہوجاتے ہیں۔ سماج میں عموماً یتیموں کا کوئی پُرسان حال نہیں ہوتا۔ وہ در در کی ٹھوکریںکھانے لگتے ہیں۔ ان کے رشتے دار، جو ان کے سرپرست ہوتے ہیں، ان پر دست شفقت رکھنے کے بجائے ان کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں یتیموں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اور ان کے ساتھ ہم دردی کرنے اور انھیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور ان کے ساتھ زیادتی کرنے اور برا سلوک کرنے پر سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے۔ وہی تو ہے جو یتیم کو دھمکی دیتا ہے۔‘‘ (الماعون:2-1) یتیموں کے سرپرستوں کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی گئی ہے: ’’یتیموں کے مال ان کو واپس کردو۔ (ان کے) اچھے مال کو (اپنے) برے مال سے نہ بدلو اور ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ ‘‘ (النساء: 2)
(7) قرآن مجید میں صلہ رحمی کی تاکید کی گئی ہے اور قطع رحمی سے روکا گیا ہے۔ صلہ رحمی کا مطلب ہے رشتے داروں کا خیال رکھنا، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، وقتِ ضرورت ان کی مدد کرنا اور ان کے حقوق ادا کرنا۔ ایسا نہ کرنے کو قطع رحمی کہا جاتا ہے۔ رشتے داروں میں نسبی اور سسرالی دونوں طرح کے رشتے دار آتے ہیں۔ (الفرقان:54) شوہر اور بیوی دونوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے نسبی اور سسرالی دونوں رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کریں اور ان کے ساتھ خوش گوار تعلقات رکھیں۔ قرآن مجید میں صلہ رحمی کرنے والوں کی تعریف و تحسین کی گئی ہے اور قطع رحمی کرنے والوں کو سخت وعید سنائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دانش مند لوگوں کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرا رکھنے کا حکم دیا ہے، انھیں برقرارر کھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ (الرعد:21) آگے قطع رحمی کرنے والوں کو ان الفاظ میں تنبیہ کی گئی ہے: ’’رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں، جو ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنھیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت برا ٹھکانا ہے۔(الرعد: 25) دوسرے مقام پر ایسے لوگوں کو ’’نقصان اٹھانے والے‘‘ کہا گیا ہے۔ (البقرۃ:27)
(8) ازدواجی زندگی میں اگر خوش گواری باقی نہ رہے تو تنازعات سر ابھارنے لگتے ہیں، زوجین کو ایک دوسرے سے شکایات ہوجاتی ہیں اور دلوں میں دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں، یہاں تک کہ بسا اوقات طلاق تک کی نوبت پہنچ جاتی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر رشتہ باقی نہ رہے اور شوہر بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کرلے تو اسے خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کردے۔ اسے ستانے کے لیے مختلف تدبیریں نہ سوچے اور مختلف طریقوں سے اسے اذیت میں مبتلا نہ کرے۔ سورۂ البقرۃ (آیات 227 تا237) میں احکامِ طلاق تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً کہا گیا ہے کہ شوہر نے ازدواجی زندگی کے دوران بیوی کو جو تحفے دیے ہوں، طلاق کی صورت میں انھیں واپس نہ لے۔ طلاق کے بعد عدّت پوری ہونے لگے تو یا تو عورت کو بھلے طریقے سے روک لو،یا بھلے طریقے سے رخصت کردو۔ محض ستانے کے لیے انھیں نہ روکے رکھو کہ یہ زیادتی ہوگی۔ عدّت پوری ہونے کے بعد عورت کہیں اور پنا رشتہ کرنا چاہے تو سابق شوہر کی طرف سے رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے۔ علیحدگی کے بعد اگر بچہ ہو تو اس کی ماں اسے دودھ پلا سکتی ہے، لیکن وہ اس پر اجرت کی مستحق ہوگی۔ بیوہ عورت کی عدّت چار ماہ دس دن ہے، اس کے بعد وہ اپنا دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔ زمانۂ عدت میں عورت سے نکاح کا ارادہ اشارہ و کنایہ میں تو ظاہر ہو سکتا ہے، لیکن عدت مکمل ہونے سے قبل اس کا نہ دوسرا نکاح ہو سکتا ہے اور نہ اس سلسلے میں صراحت سے اس سے کوئی بات کرنی جائز ہے۔ اگر خلوت سے قبل طلاق ہوگئی ہو اور مہر متعین ہو تو عورت نصف مہر کی مستحق ہوگی، وغیرہ۔ان احکام کے ساتھ قرآن بار بار دھمکی بھرے اسلوب میں تنبیہ کرتا ہے۔ اس کا اندازہ ہر آیت کے آخری جملہ سے لگایا جا سکتا ہے: ’’اللہ سب پر غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔‘‘ (آیت:228) ’’یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجوز کریں وہی ظالم ہیں۔‘‘ (آیت:229) ’’جو ایسا کرے گا وہ درحقیقت اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا۔ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ…….اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے۔‘‘ (آیت:231)’’ اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو سب اللہ کی نظر میں ہے۔‘‘ (آیت: 233)’’ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘ (آیت 234)’’ خوب سمجھ لو کہ اللہ تمھارے دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ لہٰذا اس سے ڈرو ‘‘(آیت 235) ’’بے شک اللہ تمھارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘ (آیت237)
سورۂ طلاق میں بھی طلاق کے بعض احکام بیان کرتے ہوئے ان پر عمل کی تاکید کی گئی ہے اور ان کی خلاف ورزی کی صورت میں برے انجام کی دھمکی دی گئی ہے۔ مثلاً کہا گیا ہے کہ عدت کے دوران عورتوں کو ان کے شوہروں کے گھروں سے نہ نکالا جائے، بلکہ وہ وہیں رہ کر عدت گزاریں، ساتھ ہی کہا گیا: ’’یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود د ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا۔ ‘‘(آیت: 1) آگے حکم دیا گیا کہ عدت کے دوران عورتوں کو ستایا نہ جائے۔ انھیں نفقہ دیا جائے۔ وہ بچوں کو دودھ پلائیں تو انھیں اجرت دی جائے۔ ساتھ ہی یہ تنبیہ کی گئی کہ اللہ کے احکام کو نہ ماننے والے اس کے عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں: ’ کتنی ہی بستیاں ہیں جنھوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے ان سے سخت محاسبہ کیا اور ان کو بری طرح سزا دی۔ انھوں نے اپنے کیے کا مزا چکھ لیا اور ان کا انجام کار گھاٹا ہے۔ اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ پس اللہ سے ڈرو اے عقل رکھنے والو۔‘‘ (الطلاق: 8-10)
(9) قرآن مجید میں تقسیم میراث پر بہت زور دیا گیا ہے اور اس کے احکام تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج اور دیگر عبادات و اعمال سے متعلق صرف اصولی باتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں، ان کی جزئیات رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات یا معمولات کے ذریعہ فراہم کی ہیں، لیکن وراثت کے تقریباً تمام احکام قرآن مجید ہی میں بیان کر دیے گئے ہیں۔ قابلِ غور بات ہے کہ یہ احکام بیان کرنے کے ساتھ ان پر عمل کی فہمائش کی گئی ہے اور عمل نہ کرنے کی صورت میں بہت سخت الفاظ میں دھمکی دی گئی ہے۔ سورہ النساء آیت:7 میں کہا گہا ہے کہ وراثت میں مردوں کی طرح عورتوں کا بھی حصہ ہے اور مال وراثت چاہے کم ہو یا زیادہ، اس میں سے انھیں بھی ملنا چاہیے۔ آیت نمبر 8 میں کہا گیا ہے کہ وراثت تقسیم ہونے لگے تو خاندان کے دوسرے ضرورت مند لوگوں کو بھی، جن کا وراثت میں حصہ نہیں، کچھ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگلی آیت: 9 میں خوش دلی سے تقسیم وراثت پر ابھارنے کے لیے کہا گیا ہے کہ ’’لوگوں کو اس بات کا خیال کرکے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انھیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں۔‘‘ آیت نمبر 10 میں دھمکی بھرے اسلوب میں کہا گیا: ’’جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کا مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔‘‘ اس آیت میں یتیموں سے مراد وہی لوگ ہیں جنھیں وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا۔ ‘‘ آگے آیات 11-12 میں احکامِ وراثت مذکور ہیں۔ اس کے بعد کی دو (2) آیات میں بہت صراحت سے کہا گیا ہے کہ ان پر عمل آوری سے آدمی جنت کا مستحق بنے گا اور نافرمانی کی صورت میں اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا: ’’ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کام یابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔‘‘ (النساء: 13-14)
عائلی زندگی کے بارے میں قرآن مجید کے یہ وعدے اور وعیدیں انسانوں کو راست روی پر ابھارتے ہیں اور افرادِ خاندان پر ظلم اور ان کی حق تلفی سے باز رکھتے ہیں۔ll
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021