قرآن، رحمتِ عامہ کا پیغام

کرناٹک کے دیہاتوں میں اُمتِ مسلمہ کی خاموش دعوتی بیداری

0

چکجمبور، شموگہ (دعوت نیوز ڈیسک)

کرناٹک کے سرسبز پہاڑوں اور صندل کی خوشبو سے مہکتے جنگلات کے بیچوں بیچ واقع چکجمبور نام کا چھوٹا سا گاؤں ہے جہاں 4 ہزار نفوس اور 545 گھرانے آباد ہیں۔ پچھلے دنوں اس علاقے میں جماعت اسلامی ہند چکجمبور کے زیر اہتمام منعقدہ قرآن پروچن (Qur’an Pravachana) پروگرام نے جو کچھ پیش کیا وہ محض ایک بین المذاہب اجتماع نہیں بلکہ امت کی دعوتی ذمہ داری کی یاد دہانی تھا۔
بارش زوروں پر تھی، آسمان ابر آلود اور منتظمین کی آنکھوں میں تشویش۔ مگر اللہ کی رحمت نے وقت پر برسنے کے بعد راستہ ہموار کیا اور جب مغرب کی اذان ہوئی تو سب کچھ جیسے تبدیل ہو چکا تھا۔ شام سات بجے گاؤں کے آڈیٹوریم میں 600 سے زائد افراد موجود تھے جن میں 40 فیصد سے زائد غیر مسلم مرد و خواتین تھے، جنہیں نہ کسی دنیوی مفاد نے کھینچا نہ کسی مادی وعدے نے بلکہ وہ قرآنی پیغام کی کشش اور مسلمانوں کی خوش اخلاقی سے متأثر ہو کر شریک ہوئے۔
جلسے کا موضوع تھا: "قرآن کی روشنی میں کامیاب زندگی” جس کا آغاز سورۃ الملک کی ان مبارک آیات سے کیا گیا: تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً۔۔۔یہ تلاوت محض تلاوت نہیں تھی بلکہ دعوت فکر تھی جس میں انسان کی تخلیق کا مقصد، زندگی کا امتحانی مزاج اور اخروی انجام پر غور کرنے کی دعوت تھی۔ جلسے کے مرکزی مقرر سکریٹری حلقہ جماعت اسلامی ہند کرناٹک جناب محمد کنہی صاحب (منگلور) نے کنڑا زبان میں اس پیغام کو نہایت بصیرت و اخلاص کے ساتھ سامعین کے دلوں تک پہنچایا۔
پروگرام کا ایک بہترین پہلو یہ بھی تھا کہ اس میں شری لنگ شیوا آچاریہ سوامی (کبینے کانتی مٹھ، رٹّے ہلّی) نے بھی شرکت کی اور قرآن پر ہونے والے اس پروگرام کو بین المذاہب ہم آہنگی کی علامت قرار دیا۔ انہوں نے کہا "آج جب کہ نفرت کی سوداگری عام ہے، ایسے مواقع روشنی کے چراغ کی مانند ہیں جو دلوں کے اندھیرے دور کرتے ہیں۔”
بتا دیں کہ قرآن پروچن کوئی وقتی یا نمائشی پروگرام نہیں بلکہ جماعت اسلامی ہند کرناٹک کے اس جامع دعوتی منصوبے کا حصہ ہے جس کے ذریعے قرآن کے آفاقی اور اخلاقی پیغام کو کنڑا زبان میں کرناٹک کے عوام تک پہنچایا جا رہا ہے۔ شہروں و دیہاتوں سے لے کر قصبوں و گاوؤں تک، جیسے بیدر، ہاسن، میسور، اُلّال وغیرہ میں اس قسم کے پروگرام مسلسل مرتب کیے جا رہے ہیں۔
یہ پروگرام مذہبِ اسلام کو اس کے عقائد کے ساتھ ساتھ، عدل، سچائی، صبر، شرافت اور خدمت خلق جیسے مشترکہ انسانی اقدار کے دائرے میں پیش کرتا ہے۔ غیر مسلم برادران وطن ان پروگراموں میں شریک ہو کر قرآن کو خطرہ نہیں بلکہ فکری روشنی اور اخلاقی رہنمائی کے طور پر محسوس کرتے ہیں۔ آج ہندوستان میں جہاں اسلام کی تصویر کو مسخ کر کے پیش کیا جا رہا ہے، ایسے میں مسلمانوں کی طرف سے قرآن کے اصل پیغام کو لوگوں تک پہنچانا ایک ناگزیر فریضہ بن چکا ہے کیونکہ قرآن محض تلاوت کی چیز نہیں بلکہ حقیقت میں یہ انسانیت کی رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ یہ پروگرام دعوتِ دین کی وہ شکل ہے جس میں نرمی، حکمت اور خلوص نمایاں ہے۔ نہ مناظرہ نہ زور و زبردستی، بس صداقت اور اخلاق کے ذریعے دلوں کی طرف سفر جاری ہے۔ یہی دعوت ہے جس کا اسوہ انبیائے کرام علیہم السلام نے ہمیں دیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ بارش رحمت ہے اور یہ شام کی بارش واقعی فکری و روحانی فصل کے اگنے کا پیش خیمہ بن گئی۔ پروگرام کے اختتام پر جب لوگ منتشر ہو رہے تھے، تو محض ایک پروگرام ختم نہیں ہو رہا تھا بلکہ امت مسلمہ کے اندر ایک خاموش بیداری کی لہر اٹھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ لوگوں نے قرآن کو سنا، غور کیا اور مسلمانوں کے اخلاق سے متاثر ہو کر رخصت ہوئے۔ یہ مہم امت سے چند سوالات کرتی ہے جن کے جواب ڈھونڈھنا ہر فرد کے لیے لازمی ہے :
"کیا ہم قرآن کو محض برکت کی کتاب بنائے رکھیں گے، یا اسے انسانوں کی رہنمائی کا ذریعہ بھی بنائیں گے؟”
"کیا ہم قرآن کے امانت دار بنیں گے یا اسے صرف اپنی مساجد کی شیلفوں تک محدود رکھیں گے؟”
"کیا ہم نفرتوں کے جواب میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش بیٹھے رہیں گے یا قرآن کی روشنی سے دنیا کو منور کریں گے؟”
جواب کسی اور کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو دیجیے مگر دیجیے ضرور۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025