قانون اور قانونی نظام مکمل طور پر امیر اور طاقتور کے حق میں لگا ہوا ہے: جسٹس دیپک گپتا
نئی دہلی، مئی 7: بدھ کے روز سپریم کورٹ کے جج جسٹس دیپک گپتا نے کہا کہ ملک کے ’’قوانین اور … قانونی نظام امیروں اور طاقتوروں کے حق میں مکمل طور پر لگے ہوئے ہیں‘‘۔ اور کہا کہ ’’موجودہ دور اور زمانے کے جج ہاتھی دانت کے ٹاوروں میں نہیں رہ سکتے، بلکہ انھیں اس سے آگاہ ہونا چاہیے، جو ان کے آس پاس کی دنیا میں ہو رہا ہے۔
اپنے کام کے آخری دن سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ایک مجازی الوداعیہ سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس گپتا نے کہا ’’اگر کوئی امیر اور طاقت ور ہے اور وہ سلاخوں کے پیچھے ہے تو وہ بار بار مقدمے کی سماعت کے دوران اعلی عدالتوں سے رجوع کرتا ہے، یہاں تک کہ کسی دن اسے حکم ملتا ہے کہ اس کے مقدمے کی سماعت میں تیزی لائی جائے۔ یہ ان غریب مقدمہ کرنے والوں کی قیمت پر ہوتا ہے جن کے مقدمے کی سماعت میں مزید تاخیر ہوتی ہے کیونکہ وہ اعلی عدالت سے رجوع نہیں کرسکتے۔‘‘
انھوں نے مزید کہا ’’دوسری طرف اگر کوئی امیر شخص ضمانت پر ہے یا وہ کسی قانونی مقدمے کی سماعت میں تاخیر کرنا چاہتا ہے تو وہ بار بار اعلی عدالتوں سے رجوع کرنے کا متحمل ہے جب تک کہ دوسرا فریق عملی طور پر مایوس نہ ہوجائے، یا مقدمے کی سماعت یا کارروائی میں تاخیر نہ ہو جائے۔ بینچ اور بار کا فرض غریب قانونی مقدمہ کاروں کی طرف توجہ دینا ہے، تا کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے معاملات کو پس پشت نہ ڈالا جائے۔‘‘
انھوں نے کہا ’’اگر حقیقی انصاف کرنا ہے تو انصاف کے ترازو کو پسماندگان کے حق میں جھکانا ہوگا۔‘‘
جسٹس گپتا نے تاکید کی کہ بار ’’مکمل طور پر آزاد ہونا چاہیے اور بار کے ممبران کو عدالت میں معاملات پر بحث کرتے ہوئے اپنی سیاسی یا دیگر وابستگیوں کو ختم کرنا چاہیے اور اس معاملے پر قانون کے مطابق سختی سے بحث کرنی چاہیے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’عدلیہ اور ججوں کی سب سے اہم خوبی آزادی، نڈر ہونا اور بے عیب سالمیت ہے‘‘ اور یہ کہ ’’جس ملک میں قانون کی حکمرانی اور اختیارات کی علاحدگی کے اصول پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے، وہاں عدلیہ کے سوا کوئی اور مکمل طور پر آزاد نہیں ہوسکتا ہے۔‘‘
2019 میں بھی احمد آباد میں ایک لیکچر کے دوران جسٹس گپتا نے ملک بغاوت کے قانون پر نظر ثانی کی ضرورت کے بارے میں بات کی تھی۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومت پر کڑی تنقید کرنا ناقدین کو اقتدار میں آنے والوں سے کم محب وطن نہیں بناتا۔ رواں سال فروری میں ہونے والے ایک اور پروگرام میں انھوں نے کہا تھا کہ اکثریت پسندی جمہوریت کی مخالف ہے۔
جسٹس گپتا نے دہلی یونی ورسٹی کیمپس لا سنٹر میں تعلیم حاصل کی اور ہماچل پردیش ہائی کورٹ میں قانون کی مشق کی۔ وہ 2004 میں وہاں بطور جج مقرر ہوئے تھے اور 2013 میں وہ تریپورہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ انھیں 2016 میں چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا گیا تھا اور 2017 میں انھیں سپریم کورٹ میں ترقی دی گئی تھی۔