’قاتل بھی وہی اور نگہباں بھی وہی ہے‘

بے قصور سلاخوں کے پیچھے مگر گنہگار آزاد

حسن آزاد

 

دلی فساد پر ہٹ دھرمی اور پردہ پوشی کو متبادل میڈیا نے کیسے کیا بے نقاب ؟
آج سے ٹھیک ایک سال پہلے شمال مشرقی دلی میں فرقہ وارانہ فساد برپا ہوا تھا۔ 23 فروری سے 27 فروری تک مذہبی منافرت کی آگ انسانیت کو جلا کر خاکستر کرتی رہی۔ 53 افراد نفرت و عداوت کی بھٹی میں جھونک کر ہلاک کر دیے گیے۔ سیکڑوں افراد زخمی ہوئے، ہزروں لوگ بے گھر ہو گئے، کروڑوں کی جائیدادیں پھونک دی گئیں۔ نہ جانے کتنے بچے یتیم ہوئے، سیکڑوں عورتیں بیوہ ہوئیں۔ یوں انسانیت کا جنازہ اٹھتے ہوئے پوری دنیا نے دیکھا۔
شاید یہ ملک کا پہلا ایسا فساد تھا جو ببانگِ دہل مچایا گیا تھا۔ دلی فساد سے پہلے حکمراں جماعت کے لوگ عام مسلمانوں کے خلاف انتہائی زہریلی اور دھمکی آمیز زبان استعمال کر رہے تھے جبکہ پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کا حصہ ہے تاکہ ملک گیر سطح پر متنازع شہریت ترمیم قانون کے خلاف تحریک چلانے والوں کو خوف زدہ کیا جائے۔ بدنام زمانہ بی جے پی لیڈر کپل مشرا، مرکزی مملکتی وزیر خزانہ انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کی اشتعال انگیز تقاریر نے دلی کے ماحول کو زہر آلود بنا دیا تھا۔ اتنی تباہی مچانے کے باوجود آج نفرتوں کے سوداگر نہ صرف آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں بلکہ انسانیت سوز حرکات کو دوبارہ انجام دینے کے لیے تیار نظر آ رہے ہیں۔ کپل مشرا نے ’دی وائر‘ کو دیے گیے انٹرویو میں صاف لفظوں میں کہا کہ انہیں اپنے کیے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ کپل مشرا پوری ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ احتجاج کرنا اگر کسی کا حق ہے تو سڑکوں کو خالی کرانا بھی ہمارا حق ہے۔ جب کہ یہ سراسر گمراہ کن باتیں ہیں کیوں کہ مظاہرین سے نمٹنے کی ذمہ داری حکومت اور پولیس انتظامیہ کی ہوتی ہے پارٹی کارکنوں کی نہیں۔ اگر کپل مشرا کی بات صحیح مان لی جائے تو ملک میں آئے دن جو مظاہرے ہوتے رہتے ہیں تو کیا وہ اور ان کی پارٹی کارکنان احتجاجیوں سے مقابلہ کے لیے مقام احتجاج تک پہنچتے رہیں گے؟ اس طرح تو ملک میں ہر روز اور ہر جگہ فساد ہی فساد ہو گا۔
ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق آزادی کے بعد سے اب تک ملک کے طول و عرض میں 58400 فسادات ہو چکے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2008 سے 2018 کے دوران کم و بیش 8 ہزار فسادات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ یعنی ملک میں ہر روز دو فسادات!
کپل مشرا ’دی وائر‘ کو دیے گیے انٹرویو میں کئی بار جھوٹ بولتے بھی نظر آئے لیکن ’دی وائر‘ نے انہیں اسی وقت بے نقاب کیا۔ مثال کے طور پر کپل مشرا نے نعروں میں جے این یو، جامعہ اور اے ایم یو کے غداروں کو گولی مارنے کی بات کہی تھی لیکہ وہ بضد تھے کہ انہوں نے صرف نعروں میں دیش کے غداروں جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں جبکہ اسی انٹرویو میں ’دی وائر ‘ کے اینکروں نے جب ثبوت دکھائے تو مرتا کیا نہ کرتا والی حالت نظر آئی اور کپل مشرا نے قبول کیا کہ نعروں میں جامعہ، جے این یو اور اے ایم یو کے طلباء کا نام لیا گیا تھا۔ ان نعروں کے بعد ہی شاہین باغ میں پستول لہراتا ہوا کپل گرجر پکڑا گیا اور جامعہ میں رام بھگت گوپال گولی چلاتا ہوا نظر آیا۔ خود ساختہ ہندوؤں کی لیڈر راگنی تیواری کا ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں وہ دلی فساد میں ملوث نظر آ رہی ہے۔ لیکن کارروائی عمر خالد، خالد سیفی، صفورا زرگر، شرجیل عثمانی اور شرجیل امام جیسے لوگوں پر ہوئی جن کا فساد کرانے میں رتی برابر بھی حصہ نہیں ہے۔ سیکڑوں مسلمان جیلوں میں آج بھی دلی تشدد کے الزام میں بند ہیں۔ لیکن دلی تشدد برپا کرنے والے اہم ملزمین سینہ زوری کے ساتھ معاشرہ میں نفرت کے بیج بوتے ہوئے آج بھی نظر آرہے ہیں۔
دلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ میں ہندوتوا گروپوں اور دلی پولیس کو فسادات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لیے دلی پولیس پر ہی سوال اٹھائے گئے۔ جبکہ گروپ آف انٹلیکچولس اینڈ اکیڈمیشینس کی رپورٹ میں دلی پولیس کی تھیوری کو صحیح قرار دیا گیا ہے اور تشدد کو سی اے اے کی مخالفت کو فساد سے جوڑ کر دیکھا گیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایک سال گزر جانے کے بعد دلی پولیس کی تین ایس آئی ٹیز جانچ کرتی رہیں جب کہ اسپیشل سیل کی ایک ٹیم دلی فسادات کی سازش کی جانچ الگ سے کر رہی ہے۔ جانچ کے تحت 755 کیس درج کیے گئے ہیں۔ 349 معاملوں میں چارج شیٹ داخل کر دی گئی ہے۔ 102 سپلیمنٹری چارج شیٹس داخل کی گئی ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں معاملوں کو دیکھتے ہوئے دلی کے کڑکڑڈوما کورٹ کو خاص طور پر فسادات سے متعلق معاملوں کی سنوائی کے لیے منتخب کیا گیا وہیں دلی ہائی کورٹ میں ضمانت کی بھی عرضیاں آتی رہیں۔ لیکن عدل و انصاف بیچارہ کہیں کسی تاریک کوٹھری میں بند ہے۔ اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کیوں کہ حالت کچھ یوں ہے کہ:
ہر چند کہ انصاف کا خواہاں بھی وہی ہے
قاتل بھی وہی اور نگہباں بھی وہی ہے
ظاہر ہے جب ظالموں کی پشت پناہی حکومت کرے گی تو پھر ظلم و ستم کی داستان ایسے ہی لکھی جائے گی۔ دوسری طرف عام آدمی پارٹی کی دلی سرکار بھی اس دوران نکمی ثابت ہوئی ہے وہ آج بھی دلی فساد کے متاثرین کے نقصان کی بھر پائی نہیں کر پائی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021