مجتبیٰ فاروق، مانوحیدرآباد
ڈاکٹر محمد رفعتؒ معروف مفکر، مصنف اور سائنسی علوم کے ماہر تھے۔ انہوں نے اسلامی فکر، اسلامائزیشن آف نالج، اسلام اور مغرب، سائنسی مباحث، سوشل سائنس کے خد وخال اور اقامت دین کی تشریح و توضیح جیسے موضوعات پر کام کیا ہے۔ وہ نہایت ذہین اور حاضر دماغ تھے اور لکچر یا گفتگو بھی بہت منظم انداز سے کرتے تھے۔علی گڑھ میں پروفیسر یوسف امین صاحب کے ساتھ مل کر فلسفہ جیسے دقیق موضوع پر کئی بار لیکچر دیا۔ فلسفہ کے مختلف جہتوں پر انگریزی زبان میں بہت ہی سہل انداز میں اپنی گفتگو پیش کرنے کا بہترین سلیقہ رکھتے تھے۔ دلکش اسلوب تحریر کے ساتھ ساتھ ان کا انداز بیان بھی بہت خوبصورت تھا۔ درس وتدریس، تحقیق وتصنیف اور دعوت وتربیت کے میدان میں ہر وقت محوِ جد وجہد رہتے تھے گویا :
نرم دمِ گُفتگو گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز
رفعت صاحب کا طرز استدالال بھی نرالا تھا۔ قرآن مجید ان کی فکر کا سرچشمہ تھا۔ وہ اسلامی فکر اور دینی موضوعات میں قرآن مجید سے بھرپور استدلال کرتے تھے۔ اس کا ثبوت ان کی بعض تصنیفات اور ماہنامہ زندگی نو کے اشارات ہیں۔افکار و نظریات اور سائنسی و سماجی علوم کے تصوارت کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے بعض اوقات قرآن سے استدال کرتے ہیں اور بعض اوقات بات کو مدلل کرنے کے لیے فلسفہ اور عقل کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مضبوط استدال کے ساتھ اسلام کو ایک عالمگیر تناظر میں پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام ایک تحریک ہے اس کے مخاطب سارے انسان ہیں، اس تحریک کے کارکن سارے مسلمان ہیں اور اس تحریک کی علمبردار امت مسلمہ ہے۔ چونکہ اس کا نشانہ ’’الناس‘‘ ہے اس لیے اس تحریک کا دائرہ عمل امت مسلمہ سے باہر ہے۔ ان باتوں سے وہ کام بھی واضح ہوگیا جو اس تحریک کو کرنا ہے یعنی پوری انسانیت کو اللہ کی طرف بلانا۔سماجی علوم کو وہ اسلامی نقطہ نظر سے پیش کرنے کی بے حد ضرورت محسوس کرتے تھے اور اس تعلق سے انہوں نے سماجی علوم کا تصورِ کائنات کے تناظر میں ایک خاکہ پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام کے نزدیک انسانی فطرت کے یہ پانچ بنیادی پہلو ہیں :عبدیت، خلافت، آزادی، خیر کی طلب اور مسئولیت۔ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق انسانی اور سماجی علوم میں تحقیق کا پہلا اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسانی فطرت کے ان عناصر کی تشریح اور وضاحت کی جائے۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ انسانی فطرت کے اسلامی تصور کو ذہن میں رکھ کر افراد اور سماج کا مطالعہ کیا جائے اس کے نتیجہ میں فطرت انسانی کا مجمل تصور تفصیلی شکل اختیار کر سکے گا۔ اگر یہ منہج اختیار کیا جائے تو انسانی اور سماجی علوم کا مطالعہ آیات الٰہی کا مشاہدہ بن جائے گا۔ مغربی علوم و فنون سے استفادہ کرنے پر ڈاکٹر صاحب زور تو دیتے تھے اور کہتے تھے کہ مغربی لٹریچر میں اعداد و شمار اور معلومات کا ایک قابل قدر ذخیرہ موجود ہے البتہ واقعات سے جو نتائج مغربی مفکرین اخذ کرتے ہیں وہ ان کی کج نگاہی کی بنا پر اکثر غلط ہوتے ہیں اس لیے ان کے نتائج کو تنقیدی نظر سے پرکھنا چاہیے۔ ہندوستانی تناظر میں دور جدید کے جو سماجی موضوعات اور ایشوز ہیں اس تعلق سے وہ لکھتے ہیں کہ سماجی محققین کو ان موضوعات اور مسائل پر زیادہ توجہ دینی چاہیے جو ہندوستانی سماج کے زندہ موضوعات ہیں مثلاً ذات پات کا نظام، برہمنیت کا احیا، ہندوستان پر جدیدیت کے اثرات، اقدار کا بحران، Urbanization کے مسائل اور غربت کے مسائل وغیرہ۔ہندوستانی پس منظر اور موجودہ حالات کے تناظر میں وہ Power Sharing کے سیاسی طرز عمل کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ اس تعلق سے وہ کہتے ہیں کہ اگر مغربی نقطہ نظر اور اسلامی نقطہ نظر کے فرق کو اچھی طرح سے سمجھ لیا جائے تو غیر مسلموں کے ساتھ مل کر سیاسی اشتراک عمل کرنا غلط ہے۔ اس کے بجائے ایسی سیاسی ہیئتیں (پارٹیاں اور ادارے) تشکیل دی جانی چاہئیں جو مسلمانوں پر مشتمل ہوں اور ان کا مقصد تمام انسانوں کو ظلم سے بچانا اور سب کو انصاف فراہم کرنا ہو۔
فکر مودودی پر مزید کام کرنے کے سلسلے میں ان کا موقف واضح تھا اور کہتے تھے کہ ’’مولانا مودودیؒ کے تذکرے کا اصل پیغام یہ ہے کہ اس علمی و تحقیقی تحریک کو آگے بڑھایا جائے جس کی ابتدا مولانا مودودیؒ نے کی تھی۔ وہ توقع رکھتے تھے کہ ان کے احباب ان کے کام کو آگے بڑھائیں گے۔ ہم سب کو اس توقع پر پورا اترنا چاہیے‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ بہت سے افراد نے مولانا مودودی کے افکار و خیالات سے استفادہ کیا اور پھر خود بھی مسائل پر سوچا۔ بہت سے سوالات کے سلسلے میں ان افراد نے نئی راہیں دریافت کیں۔ جو باتیں مولانا کے ہاں مجمل تھیں ان کو تفصیلی شکل دی۔ جن امور کا صرف ابتدائی خاکہ تجویز کیا گیا تھا وہاں مفصل نقشے بنائے گئے۔ ان افراد نے مولانا مودودی سےاختلاف بھی کیا لیکن ان کے بنیادی پیغام سے اتفاق کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ علوم وفنون کے تعلق سے ابتدا میں جو کچھ کام کیا گیا ہے اس کو آگے نہیں بڑھایا گیا ہے اور اس میں کام کرنے کی کافی گنجائش موجود ہے۔
ڈاکٹر صاحب بہت ہی سادہ مزاج اور انتہائی صاف ستھری زندگی گزارتے تھے۔ وہ تصنع پسندی سے بالکل پاک تھے۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ ایک دن علی گڑھ میں ایک سمینار کے دوران ان کی چپل ٹوٹ گئی تو اسی کو پہن کر چلتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے سادہ وضع قطع،صبر و تحمل، اعتماد اور مدلل اسلامی افکار سے ہزاروں افراد اور نوجوانوں کو متاثر کیا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے میری ایک کتاب ’’علوم اسلامی کی تدوین جدید‘‘ کا پیش لفظ بھی لکھا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اسلامائزیشن آف نالج کے کام کو آگے بڑھائیے۔ وہ چاہتے تھے کہ اس موضوع پر مفصل کام ہو۔ بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ گزشتہ مارچ میں مَیں نے ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ میں ان کے ساتھ کئی موضوعات پر گفتگو کی۔ وہ بہت گہرائی میں اتر کر فکری موضوعات پر گفتگو کرتے تھے۔ اس سمینار میں مَیں نے "خواتین کی سیاسی شمولیت اور اسلام” کے عنوان پر مقالہ پڑھا تو کھانا کھانے کے دوران مجھ سے مزاحیہ انداز میں کہا کہ مجتبیٰ! آپ کیسے خواتین پر لکھتے ہیں جبکہ آپ کے پاس عورت ہی نہیں ہے یعنی ابھی تک شادی نہیں کی؟ وہ کئی خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کی خوبیوں کو دیکھ کر رشک آتا تھا۔ ایمان اور تقوٰی سے وہ مزین تھے۔ ان کو دیکھ کر اور ان کے تربیتی مضامین پڑھ کر اللہ یاد آتا تھا۔ وہ رفعت تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں رِفعت بخشی تھی چنانچہ وہ ایمان و اطمینان کی زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
پروفیسر رفعت فکری آدمی تھے اور ایک منفرد فکری مربی بھی تھے۔ وہ حقیقی معنوی میں ایک درویش صفت اسلامی مفکر تھے۔ جدید علوم و افکار سے بھی لیس تھے اور اسلامی فکر و علوم پر بھی گہری نظر تھی۔ گویا قدیم وجدید علوم کے سنگم کی ایک بہترین مثال تھی۔ تحریک اسلامی میں ان جیسے مفکرین بہت کم ہیں۔ اب فکری سرمایہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ تحریک اسلامی میں گنے چنے مفکرین ہیں جن میں سے ایک ڈاکٹر صاحب تھے۔ ڈاکٹر رفعت کا شمار اس بزم میں ہوتا تھا جس میں مولانا صدرالدین اصلاحی، ڈاکٹر عبد الحق انصاری، ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی شامل تھے۔ ان میں سے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ابھی بقید حیات ہیں۔ اس بزم نے جدید افکار و نظریات کے رخ کو موڑنے کی صحیح اور فطری سمت دی۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر صاحب کا انتقال تحریک اسلامی کا ایک علمی وفکری نقصان ہے۔اللہ تعالیٰ ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔
(مضمون نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سےپی ایچ ڈی اسکالر ہیں)
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021