
عید قرباں سے پہلے ہجومی تشدد کے واقعات، مویشی تاجروں میں خوف و ہراس کا ماحول
متھرا کے بانکے بہاری مندر انتظامیہ نے بائیکاٹ کی اپیل ٹھکرادی، مسلم دستکاروں کی خدمات کو روحانی روایت کا لازمی حصہ بتایا
محمد ارشد ادیب
احمد آباد کے بعد دلی کی مسلم بستیوں پر انہدامی کارروائی کا خطرہ۔ سپریم کورٹ سے انصاف کی اپیل
گجرات میں محض بیٹا کہنے پر پٹائی ،دلت کی موت
الٰہ آباد ہائی کورٹ سے 48 برس بعد انصاف کی جیت، لکھن سروج کی 104 سال کی عمر میں باعزت رہائی
جنوبی ہند میں اس مرتبہ وقت سے پہلے مانسون کی آمد نے موسم خوشگوار بنا دیا ہے تاہم، شمالی ہند کو مانسونی بارشوں کا شدت سے انتظار ہے۔ امسال گرمی نے عوام و خواص کا برا حال کر رکھا ہے، کہیں کہیں مانسون سے پہلے پڑنے والی پھواروں سے وقتی راحت ضرور ملی ہے لیکن یہ ناکافی ہے۔
دوسری جانب آپریشن سندور کی بازگشت نے سیاسی ماحول کو گرم کر رکھا ہے۔ گرم لہو کے بجائے گرم سندور کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حکومت اتر پردیش نے اجتماعی شادی اسکیم کے تحت دلہنوں کو تحفے میں سندور دان دینے کا اعلان کیا ہے۔ کچھ خواتین نے اس کی مخالفت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے مطابق ایک شادی شدہ خاتون صرف اپنے شوہر کے سندور کو قبول کر سکتی ہے دان میں دیے گئے سندور کو نہیں۔
ہجومی تشدد سے مویشی تاجروں میں خوف و ہراس کا ماحول
شمالی بھارت میں عید قرباں سے پہلے قربانی کے جانوروں کی بڑے پیمانے پر خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اس دوران کچھ ہندو انتہا پسند مویشی تاجروں سے جبری وصولی بھی کرتے ہیں، اس میں مقامی پولیس کی ملی بھگت بھی شامل ہوتی ہے۔ لیکن اس بار عیدالاضحیٰ سے پہلے علی گڑھ میں ہجومی تشدد کا ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ انصاف پسند عوام کو بھی اندر تک ہلا دیا۔ تفصیلات کے مطابق علی گڑھ کے قصبے اترولی کے چار گوشت کے تاجر لائسنس یافتہ سلاٹر ہاؤس سے گوشت لے کر جا رہے تھے کہ ہردوا گنج تھانہ علاقے میں ان کی گاڑی روک کر ان کو بری طرح مارا پیٹا گیا اور ان کی گاڑی کو آگ لگا دی گئی۔ ان چاروں تاجروں کو علی گڑھ میڈیکل کالج میں داخل کرایا گیا ہے جہاں وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پولیس نے متاثرین کے اہل خانہ کی شکایت پر تین مجرموں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے باقی کی تلاش جاری ہے۔ اے پی سی آر کی ایک ٹیم نے علی گڑھ کا دورہ کر کے متاثرین کے ساتھ ان کے گھر والوں سے بھی ملاقات کی۔ ان کے مطابق اس واقعہ سے 15 دن قبل بھی غنڈوں نے ان کی گاڑی روکنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس کی بروقت مداخلت سے وہ بچ گئے تھے۔ اگر پولیس اسی وقت ان کے خلاف سخت کارروائی کرتی تو اس دل دوز واقعہ سے بچا جاسکتا تھا۔ ہجومی تشدد کا ویڈیو وائرل ہونے کے باوجود پولیس نے مجرموں کی جانب سے کراس ایف آئی آر بھی درج کر لی جس میں متاثرین کو ہی ملزم بنانے کی کوشش کی گئی۔ موقع سے برآمد شدہ گوشت متھرا لیبارٹری میں بھینس کا پایا گیا اس کے باوجود متاثرین کو ابھی تک ریاستی حکومت کی جانب سے کوئی راحت نہیں مل سکی ہے۔ اے پی سی آر، یو پی کے ذمہ دار مشفق رضا خان نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر خصوصی بات چیت میں بتایا کہ ان کی ٹیم متاثرین کو قانونی مدد فراہم کر رہی ہے۔ گھر والوں کے مطابق یہ پورا معاملہ گوشت تاجروں سے جبری وصولی کا ہے۔ اتر پردیش، ہریانہ اور راجستھان میں کچھ ہندو انتہا پسند گاؤ رکھشا کی آڑ میں غنڈہ گردی اور جبری وصولی کے دھندے میں ملوث ہیں۔ یہ لوگ مویشی سے لدے ٹرکوں کو روک کر پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں اگر پیسے نہیں ملتے تو جانوروں کو چھین لیتے ہیں اور تاجروں سے مار پیٹ کرتے ہیں۔ کانگریس کے قومی سکریٹری شاہنواز عالم کا کہنا ہے کہ علی گڑھ میں جو کچھ ہوا وہ مسلمانوں پر الگ الگ طریقوں سے کیے جانے والے حملوں کا تسلسل ہے۔ گاؤ رکھشکوں کا حملہ اسٹیٹ کی پالیسی بن گئی ہے جس کے تحت بی جے پی کے قریبی عناصر مسلمانوں کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے ریاستی حکومت سے مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سماجوادی پارٹی بھی اس معاملے میں سرگرم ہے۔ پارٹی کے ایک وفد نے علی گڑھ کا دورہ کر کے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر رام لال جی سمن نے علی گڑھ کا دورہ کرنے کے بعد ملزمین پر این ایس اے لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ سماجوادی لیڈر سمیہ رانا نے سرکار کی نیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس کی کارروائی سے یہ واضح ہو جائے گا کہ سرکار کی نیت کیا ہے؟
جمعیت القریش کے ایک وفد نے بھی علی گڑھ کا دورہ کرنے کے بعد اس سلسلے میں یو پی کے ڈی جی پی سے لکھنو میں ملاقات کی، انہوں نے بھی متاثرین کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
اسی دوران کانپور میں مویشی تاجروں کے ذریعے ایک ڈرائیور کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے کی اطلاع ملی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ٹرک ڈرائیور سلیم نے جانوروں سے بھرا ٹرک لے جانے سے انکار کر دیا اس پر مویشی تاجروں نے اسے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ پولیس اس معاملے کو آپس کا جھگڑا بتا رہی ہے لیکن سلیم کے گھر والے اسے قتل بتا رہے ہیں۔ فی الحال معاملہ زیر تفتیش ہے۔ یہ دو واقعات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ عید سے پہلے شمالی ہند میں گوشت اور مویشی کی تجارت سے وابستہ کاروباریوں کا کتنا برا حال ہو چکا ہے۔
3 متھرا کے ورندابن میں واقع بانکے بہاری مندر انتظامیہ نے مسلم دستکاروں کے بائیکاٹ کی اپیل کو مسترد کر دیا ہے۔ سنٹر فار جسٹس اینڈ پیس نے ایک تفصیلی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ مندر انتظامیہ نے ایک ہندو تنظیم کی جانب سے مسلم دستکاروں و فنکاروں کے بائیکاٹ کی اپیل ٹھکرا دی ہے۔ مندر انتظامیہ کی جانب سے گیانندر کشور گوسوامی نے واضح کیا کہ مسلمانوں کے بائیکاٹ کی کوئی بھی اپیل قابل عمل نہیں ہے اور نہ ہی برج منڈل کی روحانی روایات سے مطابقت رکھتی ہے۔ ان کے مطابق یہاں کے مقامی دستکار ایک زمانے سے مورتیوں کے لباس تیار کرتے ہیں اور ان کا سنگار بھی بناتے ہیں۔ کچھ مسلم فنکار مندر کے خاص پروگراموں میں نفیری بھی بجاتے ہیں۔ ان کی خدمات مندر کی روحانی روایت کا لازمی حصہ ہیں مسلمانوں کا بائیکاٹ کر کے اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ واضح رہے کہ پہلگام حملے کے بعد برج علاقے کی کچھ شدت پسند تنظیموں نے مسلمانوں سے سامان خریدنے کی مخالفت کرتے ہوئے ان کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔ اس سلسلے میں مندر انتظامیہ کو ایک میمورنڈم بھی دیا گیا لیکن مندر انتظامیہ نے اپیل کو ٹھکرا کر مذہبی رواداری کے ساتھ قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ہولی کے موقع پر بھی مسلمانوں کو میلے میں دکانیں لگانے سے روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔
یوگی کے بلڈوزر کی پہنچ دلی تک!
شمالی ہند کے کئی خطوں میں ان دنوں بلڈوزر کی انہدامی کارروائی چل رہی ہے ان میں بی جے پی کی زیر اقدار ریاستیں پیش پیش ہیں۔ احمد آباد میں کئی رہائشی علاقوں میں بلڈوزر کارروائی ہو چکی ہے۔ ان علاقوں کے اجڑنے والے مکینوں میں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ تازہ معاملہ قومی دارالحکومت دلی سے متصل اس علاقے کا ہے جو ہے تو دلی کا لیکن اس پر یو پی کا محکمہ آب پاشی مالکانہ حق کا دعویٰ کر رہا ہے۔ حکومت اتر پردیش نے بٹلہ ہاؤس اوکھلا اور برادی روڈ کے مکانوں اور دکانوں پر انہدامی کارروائی کے لیے سرخ نشان لگا کر نوٹس چسپاں کر دیے ہیں۔ مقامی باشندوں کے مطابق وہ اس علاقے میں 50-60 سال سے آباد ہیں۔ اگر یہ غیر قانونی ہے تو مکان بناتے وقت انہیں کیوں نہیں روکا گیا۔ 22 مئی کے نوٹس 26 تاریخ کو لگائے گئے اور انہیں 15 دنوں کے اندر گھر خالی کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ خسرہ نمبر 271 ،279 کے تقریباً 40 متاثرین نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے پہلے تو انہیں دلی ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کی ہدایت دی تھی لیکن عرضی گزاروں کی دلیل پر غور کرتے ہوئے ایک ہفتے کے بعد شنوائی پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اب اس سال اس علاقے کے تمام امیدیں عدالت عظمیٰ سے وابستہ ہو گئی ہیں۔ اگر وہاں سے فوری راحت نہ ملی تو عیدالاضحیٰ سے پہلے ہی ان کے آشیانے اجڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ مقامی باشندے کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے الیکشن سے پہلے ہر شہری کو پکی چھت دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب انہی کی سرکاریں ہمارے پکے مکان اجاڑ رہی ہیں یہ بلڈوزر انصاف سراسر نا انصافی ہے۔ عدالتوں کو اس کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔
گجرات میں بیٹا کہنے پر دلت نوجوان کو جان سے مار دیا گیا
گجرات کے ضلع امریلی میں ایک دلت نوجوان کو صرف اتنی سی بات پر پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا کہ اس نے نام نہاد اونچی ذات کے دکاندار کے بچے کو سودا مانگتے وقت بیٹا کہہ کر مخاطب کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق نلیش راٹھور سامان خریدنے کے لیے دکان پر گیا، دکاندار کا بیٹا قد میں چھوٹا تھا وہ مطلوبہ سامان اوپر سے نہیں اتار پا رہا تھا اس پر نلیش نے صرف اتنا کہا کہ "بیٹا میں اتار دوں؟” اتنی سی بات پر ناراض ہو کر اعلی ذات کے دکاندار نے اپنی برادری کے لوگوں کو بلا لیا اور نلیش کو گھیر کر مار ڈالا۔ گجرات کے دلت لیڈر اور رکن اسمبلی جگنیش میوانی نے اس واقعے کی تفصیلات دیتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے ملزمین کو گرفتار کر لیا ہے لیکن اس معاملے کو فاسٹ ٹریک کورٹ میں چلا کر مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دینے کی ضرورت ہے۔ پشپ راج نام کے ایک صارف نے ایکس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا "گجرات ماڈل کا ایک اور گھناونا نمونہ سامنے آگیا جہاں نیچی ذات کے شخص نے اونچی ذات کے بچے کو بیٹا کہہ کر مخاطب کر دیا تو اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ واہ رے اندھے قانون کے رکھوالوں کی سرکار۔ لعنت ہے ایسے گجراتیوں پر اور ان کی سرکار پر”۔
یو پی کا محکمہ صحت خود ہی بیمار؟
اتر پردیش بیوروکریسی کی ایک خبر نے محکمہ صحت کی شبیہ خراب کر دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق لکھنؤ کے سکریٹریٹ میں صوبے کے اعلی حکام کی ایک اہم میٹنگ چل رہی تھی، اسی دوران محکمہ مالیات کے افسر کی طبیعت بگڑ گئی لیکن ہسپتال لے جانے کے لیے موقع پر موجود ایمبولینس اسٹارٹ ہی نہیں ہوئی۔ میٹنگ میں اے پی سی دیپک کمار سمیت 14 محکموں کے اعلیٰ حکام موجود تھے لیکن کسی نے بھی مریض کو ہسپتال لے جانے کے لیے اپنی نجی گاڑی دینا گوارا نہیں کیا۔ چنانچہ پنکج کمار کو موٹر سائیکل سے ہی ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے چیک اپ کے بعد انہیں مردہ قرار دے دیا۔ سوشل میڈیا پر خبر وائرل ہوتے ہی میٹنگ میں موجود افسر اور محکمہ صحت کے عہدہ دار زبردست تنقید کی زد میں آگئے۔ کسی نے محکمہ صحت کو بیمار قرار دیا تو کسی نے افسروں کی بے حسی کو شرم ناک کہہ کر تبصرہ کیا۔
48 سال بعد انصاف کی جیت
اتر پردیش کے ضلع کوشامبی میں 104 سال کے ایک ضعیف شخص کو 48 سال بعد قتل کے الزام سے باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ اسٹوری کور کرنے والے ایک نجی ویب سائٹ کے رپورٹر اولیور فریڈرک نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر خصوصی گفتگو میں بتایا کہ لکھن سروج کو تقریباً 48 سال پہلے یعنی 1977 میں قتل کا ملزم بنایا گیا جبکہ وہ واردات میں شامل نہیں تھا۔ اس کیس میں لکھن پاسسی کا سب نے ساتھ چھوڑ دیا لیکن اس کی بیٹیاں انصاف کے لیے اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ کھڑی رہیں۔ اس کے اکلوتے بھائی نے بھی خود کو کیس کی پیروی سے الگ کر لیا لیکن لکھن کی پانچ بیٹیاں اس کے ساتھ انصاف کی لڑائی میں اس کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ آخر کار الٰہ آباد ہائی کورٹ نے دو مئی 2025 کو لکھن کو ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر باعزت بری کر دیا۔ اس کے باوجود لکھن سروج کو جیل سے رہا ہونے کی خانہ پوری میں مزید بیس دن لگ گئے۔ اولیور کے مطابق ملک کی عدالتی تاریخ میں سب سے لمبی عمر میں باعزت بری ہونے والے ملزم کی حیثیت سے لکھن سروج کا نام درج ہونا چاہیے۔ رہائی کے بعد لکھن سروج نے اپنی کپکپاتی ہوئی آواز میں بتایا کہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ یہ دن دیکھنے کے لیے زندہ رہ پائے گا۔ اس کیس کے سبھی فریق ختم ہو چکے ہیں اور وہ صرف اپنی بیٹیوں کے سبب باعزت بری ہونے میں کامیاب ہو سکا ہے۔
دو فریقوں کی لڑائی میں لکھن پاسی کی آدھی زندگی اس مقدمے کی نذر ہو گئی۔ لکھن نے اپنی بوجھل مسکراہٹ کے ساتھ کہا "میری عمر کیا ہے اس کا کوئی مطلب نہیں ہے، خوشی اس بات کی ہے کہ اب میں آزاد ہوں۔” شاید اسی لیے کہا جاتا ہے تاخیر سے ملنے والا انصاف، انصاف کا انکار ہے۔
تو صاحبو، یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025