عدلیہ اور مقننہ کی سرد جنگ: جمہوریت کی بنیادوں پر حملہ !

نائب صدر جمہوریہ کا عدلیہ پر حملہ دراصل مقننہ کی بالادستی کا خواب!

ڈاکٹر سلیم خان

چیف جسٹس پر الزامات، گورنر کے اختیارات اور وفاقی ڈھانچے کو لاحق خطرات
ملک کے اندر عدلیہ اور مقننہ کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے مگر اس کی جانب کسی کی توجہ نہیں جاتی کیونکہ اسے ہندو مسلم یا بھارت پاکستان تنازع کی دبیز چادر سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ سرکار کی جانب سے اس مہم کے سپہ سالاران نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکھر اور رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس پر مذہبی خانہ جنگی کا سنگین الزام لگانے کے باوجود نشی کانت دوبے کا بال بیکا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس سپریم کورٹ کی بدنام زمانہ جسٹس بیلا ترویدی (جن کو بار نے الوداعیہ تک نہیں دیا) کے بارے میں مبینہ قابلِ اعتراض تبصرے پر نڈر صحافی اجے شکلا کے خلاف از خود توہینِ عدالت کا مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کسی بھی شخص کو جج کی توہین کرنے یا عدلیہ کو بدنام کرنے کی اجازت نہ دینے کا اعلان تو کرتے ہیں مگر نشی کانت دوبے کو استثناء مل جاتا ہے۔ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ عدالتیں پھولوں کی طرح نازک نہیں ہیں جو اس طرح کے مضحکہ خیز بیانات کے سامنے مرجھا جائیں۔
نشی کانت دوبے کو ان کی بد زبانی کے باوجود ’سنسد رتن‘ (ایوانِ پارلیمنٹ کا موتی) کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ شوقین حضرات اپنے پیارے کتے کو انگریزی میں ٹامی اور اردو میں موتی کہہ کر پکارتے ہیں۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے کے بیان کا اجے شکلا کے تبصرے سے موازنہ کریں تو زمین آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہے۔ دوبے نے سپریم کورٹ کے ذریعہ ’وقف (ترمیمی) قانون‘ پر عدالتِ عظمیٰ کے رویہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’سپریم کورٹ اپنی حدوں سے آگے جا رہا ہے۔ اگر سب کچھ وہیں طے ہونا ہے تو پارلیمنٹ کو بند کر دیجیے‘‘ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ عدلیہ مذہبی جنگ بھڑکا رہی ہے اور چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ پر ’خانہ جنگی‘ کے لیے ذمہ دار ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ کیا اجئے شکلا جیسا کوئی عام شہری ایسی جرأت کر کے بچ سکتا ہے۔ دوبے نے آرٹیکل 377 پر عدالتی فیصلے کی بھی تنقید کرکے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے آئینی طاقتوں کو ہضم کر لیا ہے۔
مذکورہ بالا تبصرے اس قدر سخت تھےکہ بی جے پی کے گلے سے بھی نہیں اتر سکے اور اس کو فوری طور پر نشی کانت دوبے کی یاوہ گوئی سے خود کو الگ کرنا پڑا۔ پارٹی صدر جے پی نڈا نے یہ کہہ کر اپنا دامن جھٹک لیا کہ یہ تبصرہ ان کی ذاتی رائے تھی، اس سے پارٹی کا کوئی سروکار نہیں ہے لیکن پھر اسی نشی کانت دوبے کی عزت افزائی کے لیے انہیں اسدالدین اویسی کے ساتھ بیرونِ ملک روانہ کیے جانے والے ارکانِ پارلیمنٹ کی وفد میں شامل کرکے یہ ثابت کر دیا کہ دوبے سے فاصلہ گھڑیالی آنسو تھے۔ عدلیہ اور مقننہ کے درمیان جو ’چیک اینڈ بیلنس‘ کا نظام ہے اس کو بگاڑنے کی ناپاک مہم میں نائب صدر جگدیپ دھنکھر دن رات لگے رہتے ہیں اور کوئی موقع نہیں گنواتے کیونکہ ان کے سر پر اقتدار کا سایہ ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں ماہِ اپریل میں نائب صدر نے عدلیہ پر مقننہ کی برتری کے پر موضوع بہت طویل لیکچر دیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین پارلیمنٹ سے اوپر کسی طاقت کا تصور نہیں کرسکتا۔ عدلیہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ بولے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور یہ صورتحال ہر شہری پر لاگو ہوتی ہے۔ یعنی عدلیہ کو مقننہ کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا ہوگا۔ نائب صدر مملکت نے اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں کہا ’ہم ہندوستانی عوام آئین کے تحت اپنے عوامی نمائندوں کے ذریعہ اپنی امنگوں اور خواہشات کا اظہار کرتے ہیں اور انتخاب کے ذریعہ نمائندوں کو جواب دہ ٹھیراتے ہیں۔
موصوف کہتے ہیں کہ آئین عوام کے لیے ہے اور اس کے تحفظ کی ذمہ داری منتخب نمائندوں پر عائد ہوتی ہے۔ آئین کے مندرجات کیا ہوں گے اس کے حتمی مالک وہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی گروہ کسی تگڑم اقتدار پر قابض ہو جائے تو اسے آئین کے ساتھ کھلواڑ کا پورا اختیار حاصل ہوجائے گا اور وہ اپنی من مانی کرنے کے لیے شتر بے مہار ہوگا۔ عدلیہ کو آئین میں تسلیم شدہ بنیادی اصول وضوابط کو پامالی سے روکنے کا جو اختیارحاصل ہے وہ اس سے چھین لیا جائے گا۔ اس موقع پر نائب صدر بولے کہ عدالت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ گورنروں کی زیادتی پر صدر کو ہدایت دے۔ پہلے تو یہ بات اشاروں میں تھی مگر آگے چل کر بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ تمل ناڈو کے نامزد گورنر جب وہاں کے چنندہ نمائندوں کے ذریعہ منظور شدہ نمائندوں کے قوانین پر سانپ بن کر بیٹھ گئے تو جگدیپ دھنکھڑ کو ان کی مخالفت کرنی چاہیے تھی مگر بھلا ہو منافقت کا کہ جب عدلیہ نے گورنر کی سرزنش کرتے ہوئے صدر مملکت کو تین ماہ بعد ان فیصلوں پر دستخط کرنے کی سفارش کی تو دھنکھڑ نے پینترا بدل دیا۔
تمل ناڈو کے گورنر کی زیادتی پر جب سپریم کورٹ نے نکیل کسی تو اس فیصلے پر نہ صرف نائب صدر نے تنقید کی بلکہ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے بھی اعتراض کردیا۔ صدر مرمو نے سپریم کورٹ سے پوچھا کہ گورنر کے سامنے کوئی بل پیش کیا جاتا ہے تو آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت اس کے پاس کیا اختیارات ہیں؟ کیا گورنر ان اختیارات کے باوجود وزراء کی کونسل کے مشورے کا پابند ہے؟ کیا آرٹیکل 200 کے تحت گورنر کی طرف سے لیا گیا فیصلہ عدالتی نظر ثانی سے مشروط ہو سکتا ہے؟ کیا آرٹیکل 361 آرٹیکل 200 کے تحت گورنر کے فیصلوں پر عدالتی نظرثانی کو مکمل طور پر روک سکتا ہے؟ کیا عدالتیں آرٹیکل 200 کے تحت گورنر کے فیصلوں کے لیے ایک وقت کی حد مقرر کر سکتی ہیں جب کہ آئین میں ایسی کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی ہے؟ کیا آرٹیکل 201 کے تحت صدر کی طرف سے لیے گئے فیصلے پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے؟
صدر مملکت نے یہ بھی دریافت کیا کہ کیا عدالتیں آرٹیکل 201 کے تحت صدر کے فیصلے کے لیے وقت کی حد مقرر کر سکتی ہیں؟ اگر گورنر نے بل کو فیصلے کے لیے محفوظ کر رکھا ہے تو کیا سپریم کورٹ کو آرٹیکل 143 کے تحت ان سے مشورہ لینا چاہیے؟ گورنر اور صدر کی جانب سے آرٹیکل 200 اور 201 کے تحت جو فیصلے کیے گئے ہیں، کیا نفاذ سے قبل عدالتیں ان کی سماعت کر سکتی ہیں؟ کیا سپریم کورٹ آرٹیکل 142 کے ذریعے صدر اور گورنر کے آئینی اختیارات کو تبدیل کر سکتی ہے؟ کیا ریاستی حکومت آرٹیکل 200 کے تحت گورنر کی منظوری کے بغیر قانون بنا سکتی ہے؟ مندرجہ بالا سوالات کی بھر مار کا مقصد گورنر کے ذریعہ مرکزی حکومت کے جبر کو جواز فراہم کرکے عدلیہ پر دباو ڈالنا نہیں تو کیا ہے؟ یہ ملک کے وفاقی ڈھانچے کی کھلی خلاف ورزی ہے اس لیے تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے ان سے ناراض ہو کر کہا کہ ’’میں مرکزی حکومت کے صدر سے متعلق معاملے کی سخت مذمت کرتا ہوں، جو عزت مآب سپریم کورٹ کے ذریعہ طے کردہ آئینی حالت کو الٹنے کی کوشش ہے۔‘‘
تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ نے الزام لگایا کہ تمل ناڈو بمقابلہ گورنر معاملے میں سپریم کورٹ کے ذریعہ دیے گئے فیصلے کو مرکزی حکومت پلٹنا چاہتی ہے۔ اس سے یہ صاف ہو گیا ہے کہ تمل ناڈو کے گورنر نے بی جے پی کے اشارے پر عوامی مینڈیٹ کو کمتر کیا۔ اسٹالن نے مزید کہا کہ یہ جمہوری طور سے منتخب کردہ حکومت کو کمزور کرنے اور انہیں مرکزی حکومت کے ایجنٹ کی طرح کام کرنے والے گورنروں کے کنٹرول میں دینے کی کوشش ہے۔ ساتھ ہی یہ آئین کی تشریح کرنے والے سپریم کورٹ کو بھی چیلنج ہے۔ صدر جمہوریہ کے ذریعہ کیے گئے سوالات کے جواب میں انہوں نے پوچھا کہ آخر گورنروں کے لیے مدت کار طے کرنے میں کیا اعتراض ہے؟ کیا بی جے پی بِلوں کو روکنے کی گورنروں کی کوشش کو جائز کرنا چاہتی ہے؟ کیا مرکزی حکومت غیر بی جے پی حکم راں ریاستوں اور ان کی اسمبلیوں کو اپاہج بنانا چاہتی ہے؟
وزیر اعلیٰ اسٹالن نے اس معاملے میں غیر بی جے پی حکم رانی والی ریاستوں کو متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم پر آنے کی گزارش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک ایک اہم موڑ پر ہے۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا بی جے پی کی مرکزی حکومت آئین میں موجود طاقتوں کی تقسیم کو بگاڑنا چاہتی ہے تاکہ اپوزیشن پارٹیوں کی حکومت والی ریاستوں کو کمزور بنایا جا سکے۔ یہ ریاست کی خود مختاری کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں سبھی غیر بی جے پی حکم راں ریاستوں اور پارٹیوں کے لیڈروں سے اس قانونی اور آئین کو بچانے کی جنگ میں متحد ہونے کی اپیل کرتا ہوں۔ ہم اس جنگ کو پوری طاقت سے لڑیں گے اور تمل ناڈو جیتے گا۔ اس طرح مودی حکومت نے اقتدار کے نشے میں ملک کی سالمیت کے لیے خطرات پیدا کردیے اور عدلیہ کو کمزور کرکے نظام عدالت کو کھوکھلا کرنے کی جو کوشش کی ہے اس کی قوم کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔
نام نہاد جمہوریت پسند نائب صدر کو چاہیے تھا کہ اس تنازع میں عوامی نمائندوں کی حمایت میں گورنر کی مخالفت اور عدلیہ کی تائید کرتے مگر وہ بولے اب آرٹیکل 142 ایک ‘نیوکلیئر میزائل’ بن گیا ہے جو جمہوریت کو 24×7 دھمکاتا رہتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ’اگر عدالت صدر کو ہدایت دینے لگے کہ اتنے وقت کے اندر فیصلہ کریں ورنہ وہ قانون بن جائے گا تو کیا یہ آئین کی حدود کی خلاف ورزی نہیں ہے؟‘ جواب یہ ہے کہ بالکل نہیں ہے۔ گورنر کو عوام منتخب نہیں کرتے بلکہ اس کا تقرر ہوتا ہے مگر اسمبلی کے ارکان تو منتخب شدہ ہوتے ہیں۔ اس طرح دھنکھڑ خود اپنے جال میں پھنس گئے۔ جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی پر اظہار خیال کرنے والے جگدیپ دھنکھڑ بھول گئے کہ سرکاری قوانین کو منظور کرانے کے لیے ڈیڑھ سو سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ کو معطل کرکے ان کا گلا گھونٹنے کا اعزاز انہیں کو حاصل ہے۔ اس لیے بڑی بڑی باتیں کرنے والوں کو کبھی کبھار اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔
ملک کے 52 ویں چیف جسٹس نے حلف اٹھانے کے بعد بار کونسل مہاراشٹر و گوا کی جانب سے منعقدہ ایک استقبالیہ تقریب میں ریاستی وکلا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عدلیہ و مقننہ کے تنازع پر کھل کر اظہا ر کیا کیونکہ وہ طول پکڑ کر اپنے حدود سے تجاوز کرنے لگا تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی نے اس بابت زور دے کر کہا کہ نہ عدلیہ، نہ انتظامیہ اور نہ ہی پارلیمنٹ اعلیٰ ترین ادارہ ہے بلکہ اصل بالا دستی آئینِ ہند کی ہے اور آئین کے مطابق تمام ستونوں کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس گوائی نے واضح کیا کہ ملک کا بنیادی ڈھانچہ مضبوط ہے اور آئین کے تمام تین ستون برابری کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے نائب صدر کا نام لیے بغیر اشارے کنائے میں یہ تلقین کردی کہ ’’آئینی اداروں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ احترام کا رویہ اپنائیں اور تعاون کریں” وزیر اعظم مودی دراصل چینی اور روسی طرزِ حکومت سے مرعوب ہیں جہاں ایک فرد اور اس کی پارٹی کا بول بالا ہوتا ہے۔ اس آمر کے آگے عدلیہ یا انتطامیہ بے اختیار ہیں۔ جگدیپ دھنکھڑ اور نشی کانت دوبے جیسے لوگوں کا کام اسی طرزِ سیاست کے لیے راہ ہموار کرنا ہے اور وہ اس ذمہ داری کو بحسن وخوبی نبھا کر داد حاصل کر رہے ہیں۔
نائب صدر کی زبان پر آج تک سیاست دانوں کی بدعنوانی کے خلاف ایک حرف نہیں آیا مگر انہوں نے بڑی چالاکی سے جسٹس یشونت ورما پر ایف آئی آر درج نہ ہونے کا حوالہ دے کر عدلیہ پر کیچڑ اچھال دیا۔ وہ سوال کرتے ہیں 14-15 مارچ کی رات دارالحکومت دہلی میں ہائی کورٹ کے ایک جج کے گھر میں جو کچھ ہوا اس پر ایک ہفتہ تک خاموشی کیوں رہی؟ کیا یہ تاخیر محض اتفاق تھا یا ایک منصوبہ بند حکمت عملی؟ دھنکھڑ کہتے ہیں کہ اگر یہ واقعہ کسی عام آدمی کے گھر میں ہوا ہوتا تو ایف آئی آر درج ہوتی، جانچ شروع ہوتی اور ثبوت محفوظ رکھے جاتے لیکن جب بات جج کی ہو تو اصول بدل جاتے ہیں۔ ایف آئی آر کی بابت جگدیپ دھنکھڑ کو یشونت ورما تو نظر آتے ہیں مگر دہلی سرکار میں وزیر انصاف کپل مشرا دکھائی نہیں دیے جن کی فساد بھڑکانے والی ویڈیو کو دیکھ کر جسٹس مرلی دھرن نے پانچ سال قبل پوچھا تھا کہ اس کے خلاف ایف آئی آر کب درج ہوگی؟ کپل مشرا کو عدلیہ کی ‘زیادتی’ تو نظر آتی ہے مگر سرکار کا ججوں پر ہونے والا ظلم دکھائی نہیں دیتا۔
کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر تو درج کرنے کے بجائے ایکزیکٹیو نے جسٹس مرلی دھرن کا راتوں رات دہلی سے چندی گڑھ تبادلہ کر دیا اور سبکدوشی تک دہلی آنے نہیں دیا۔ بعد ازاں وہ سیاست داں آگے چل انتخاب جیت گیا تو اسے وزیر انصاف بناکر عدلیہ کا منہ چڑایا گیا اور اب کڑکڑڈوما کورٹ کے جج ادبھو کمار نے کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے لیے متعلقہ ایم پی/ایم ایل اے کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ پولیس یا تو مشرا کے خلاف جانچ میں ناکام رہی یا پھر جان بوجھ کر اسے بچا رہی ہے۔ جگدیپ دھنکھڑ کو اس سے بھی کوئی پریشانی نہیں ہے کہ ایک طرف سرکار کپل مشرا اور نتیش رانے جیسے لوگوں کو بچا رہی ہے مگر عباس انصاری کو دو سال کی سزا دے کر اسمبلی کی رکنیت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ عدلیہ کو نشانہ بنانے والے نائب صدر کو ان زیادتیوں پر بھی لب کشائی کرنی چاہیے ورنہ ان کا یہ الزام کہ آئین صرف صدر اور گورنر کو استغاثہ سے چھوٹ دیتا ہے، پھر عدلیہ کو بدعنوان جج کے خلاف کمیٹی کا استحقاق کس نے دیا بے، معنیٰ ہو جاتا ہے۔
نائب صدر کو یہ پریشانی ہے کہ تفتیش ایگزیکٹو کا حق ہے عدلیہ کا نہیں۔ لیکن تین ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔ ان کے خیال میں اس کمیٹی کی نہ تو آئینی بنیاد ہے اور نہ ہی اسے پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا ہے، تو پھر اس کا قانونی جواز کیا ہے؟ دھنکھڑ نے اپنا نزلہ اتارتے ہوئے کہا کہ ان کو اس بات سے دکھ ہوا ہے کہ آج عدلیہ خود کو جانچ سے بالاتر سمجھنے لگی ہے۔ اس واقعہ کی آڑ میں دھنکھڑ نے اپنے من کی بات اس طرح کہی کہ ملک میں عدالتی اصلاحات نہایت ضروری ہیں۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ پارلیمنٹ کوئی بڑا قانون پاس کرے تو اس کو کوئی ایک جج ایک عرضی پر روک دیتا ہے۔ عدلیہ کو بد نام کرنے کے لیے نائب صدر 1975 کی ایمرجنسی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج آپ ‘بنیادی ڈھانچہ’ کے نظریہ کی پوجا کر رہے ہیں، لیکن کیا 1975 میں ملک پر ایمرجنسی نافذ ہونے کے بعد اس نظریہ نے کوئی تحفظ فراہم کیا؟ مان لیا کہ نہیں کیا گیا تو بی جے پی بھی اعلان کر کے ایمرجنسی نافذ کر دے چور دروازے سے بلا اعلان بنیادی ڈھانچے کو پامال کرنے کی بزدلی کیوں دکھا رہی ہے؟
جگدیپ دھنکھڑ یہ تو کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا تھا کہ ایمرجنسی کے دوران کوئی بنیادی حقوق نہیں ہوتے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے اگر یہ کہہ کر غلطی کی تھی تو اس کا محرک کون بنا تھا؟ عدلیہ پر اٹھتے بیٹھتے الزام تراشی کرنے والے نائب صدر اس حکومت کے خلاف کیوں زبان نہیں کھولتے جس نے ماضی میں بھی عوام کے حقوق پامال کیے تھے اور اب بھی کر رہی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ نائب صدر، حکومت کے جبر واستبداد کا آلۂ کار بنے ہوئے ہیں اور اگر ان میں ہمت ہے تو ببانگِ دہل یہ اعلان کر دیں کہ ملک میں فی الحال ایمرجنسی نافذ ہے اور عدالت اپنی ماضی کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اس کی تائید کرے لیکن پھر اس جبر و استبداد کے خلاف جن سنگھ کی تحریکِ مخالفت اور اقتدار میں آنے کو کیا کریں گے؟ اپنی بد اعمالیوں کو اس کے ذریعہ جواز فراہم کرنے کے لیے کانگریس اور عدلیہ کو ایمرجنسی کی آڑ میں ہدفِ تنقید بنانا بد ترین منافقت ہے اور سنگھ پریوار کا یہی طرۂ امتیاز ہے۔

 

***

 عدلیہ پر اٹھتے بیٹھتے الزام تراشی کرنے والے نائب صدر اس حکومت کے خلاف کیوں زبان نہیں کھولتے جس نے ماضی میں بھی عوام کے حقوق پامال کیے تھے اور اب بھی کررہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نائب صدر حکومت کے جبر واستبداد کا آلۂ کار بنے ہوئے ہیں اور اگر ان میں ہمت ہے تو ببانگِ دہل یہ اعلان کردیں کہ ملک میں فی الحال ایمرجنسی نافذ ہے اور عدالت اپنی ماضی کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اس کی تائید کرے لیکن پھر اس جبر و استبداد کے خلاف جن سنگھ کی تحریک مخالفت اور اقتدار میں آنے کو کیا کریں گے؟ اپنی بد اعمالیوں کو اس کے ذریعہ جواز فراہم کرنے کے لیے کانگریس اور عدلیہ کو ایمرجنسی کی آڑ میں ہدفِ تنقید بنانا بدترین منافقت ہے اور سنگھ پریوار کا یہی طرۂ امتیاز ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025