ضمنی انتخابات میں برسر اقتدار جماعتوں کا بول بالا۔پانچ ریاستوں میں بی جے پی کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا

یو پی میں بی جے پی اتحاد کی نو میں سے سات سیٹوں پر جیت ووٹ ڈالنے کے لیے پستول کا سامنا کرنے والی خواتین پر مقدمہ درج

0

محمد ارشد ادیب

گیان واپی اور متھرا کے بعد سنبھل کی جامع مسجد کے سروے پر وبال پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کی سرعام خلاف ورزیاں
مدھیہ پردیش میں اسلاموفوبیا عروج پر، ڈاکٹر کا مسلم مریض کے علاج سے انکار
راجستھان میں سر عام دلہن کا اغوا، لڑکی کے گھر والے لو میرج کے خلاف مشتعل تھے
مہاراشٹر اور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے نتائج کے ساتھ ہی شمالی بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آ چکے ہیں۔ عام طور پر ضمنی انتخابات میں حکم راں جماعت کی بالادستی برقرار رہتی ہے۔ یو پی میں بی جے پی اتحاد نے نو میں سے سات سیٹیں جیت لیں جبکہ راجستھان میں بی جے پی کو سات میں سے چھ پر کامیابی ملی ہے۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے چار میں سے تین سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ بہار کی چار سیٹوں پر این ڈی اے کا قبضہ ہو گیا ہے جبکہ مدھیہ پردیش میں مقابلہ ایک ایک کی برابری کا رہا۔ جن پانچ راستوں کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا ان میں مغربی بنگال،پنجاب،میگھالیہ،کیرالا اور کرناٹک ہیں۔ شمال کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں ووٹنگ کے دوران اور بعد میں جس طرح کے نظارے دیکھنے کو ملے انہیں جمہوری نظام میں قابل قبول نہیں مانا جا سکتا۔ جمہوریت میں سب کو رائے دہی کا حق حاصل ہے اور اس حق کو دلوانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے۔ کمیشن کو آئین کے تحت اس کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ یو پی کے مختلف حلقوں سے جو شکایتیں وصول ہوئی ہیں وہ چونکا دینے والی ہیں۔
ووٹروں کے سامنے تانی گئی پستول
ضلع مظفر نگر کی میراں پور اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں ووٹنگ کے دوران ککرولی گاؤں میں پولیس کے ایک داروغہ نے مسلم خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے ریوالور تان دی لیکن خواتین پھر بھی ڈٹی رہیں اور بغیر ڈرے اپنے حق رائے دہی کا مطالبہ کرتی رہیں جو وائرل شدہ ویڈیو میں واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ جس خاتون پر پستول تانی گئی تھی اس کا نام توحیدہ ہے۔ اس نے میڈیا کو بتایا کہ ہم ووٹ ڈالنے جا رہے تھے لیکن پولیس نے ہمیں ووٹ نہیں ڈالنے دیا۔ مجھ سے پہلے میرے محلے کے دیگر ووٹروں کو بھی لاٹھی چارج کر کے بھگا دیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کچھ شرپسندوں نے پہلے پتھراؤ کیا اور بعد میں پولیس سے بچنے کے لیے خواتین کو آگے کر دیا لیکن مقامی خواتین نے ان الزامات کو جھوٹا قرار دیا۔ صحافی پرویز احمد نے اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا ہے "ککرولی میں پستول تاننے والے پولیس انسپکٹر راجیو شرما کی اس تھانے میں ری پوسٹنگ ہے جو ضابطے کی خلاف ورزی ہے۔ اب ان کے تھانے میں توحیدہ اور سلطانہ سمیت کئی لوگوں کے خلاف غیر ضمانتی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا ہے۔ ان کو کس لیے ملزم بنایا گیا جو ایسی دفعات لگی ہیں کہ ان میں ہائی کورٹ سے نیچے ضمانت بھی نہیں ملے گی؟ انہوں نے لکھا کہ نامزد لوگوں کے گھروں میں کھانا بھی نہیں بنا ہوگا لیکن جن کے لیے ان کو مجرم بنایا گیا وہ چاندی کی پلیٹوں میں کھا رہے ہوں گے۔ واضح رہے ککرولی تھانے میں تقریبا اسی مرد و خواتین پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل
اتر پردیش کے ضمنی انتخابات میں انتخابی بے ضابطگیوں کے خلاف سماجی کارکن و ایڈووکیٹ سید کیف حسن اور ایم حذیفہ نے سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لیتے ہوئے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس آف انڈیا کے نام کھلا خط لکھا ہے۔ انہوں نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ انہوں نے ایک عرضی تیار کی ہے جس میں 20 نومبر کو یو پی کے نو اسمبلی حلقوں میں ضمنی انتخابات کے دوران ووٹروں کو روکنے اور ڈرانے دھمکانے اور پولیس کی مداخلت سمیت کئی بے ضابطگیوں کی تفصیلات درج کی گئی ہیں۔ خاص طور پر میراں پور، کندرکی اور سیسا مئو، جہاں مسلم آبادی والے علاقوں میں ووٹروں کو منظم طریقے سے رائے دہی کے حق سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی پولنگ سے ٹھیک ایک دن پہلے راستوں میں گڑھے کھودے گئے، پولنگ والے دن ووٹروں کو بوتھ تک پہنچنے سے روکنے کے لیے انہیں ڈرایا اور دھمکایا گیا۔ بھارت کے ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے ہم آپ کی توجہ اس طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ یو پی میں ڈرانے کے لیے فورس کا غیر قانونی استعمال کیا گیا، سیاسی کارکنوں کو ہراساں کیا گیا، انہیں غیر قانونی حراست میں رکھا گیا نیز،ل اور انتخابی قوانین اور دستوری حقوق کی پامالی کی گئی لیکن اس پر الیکشن کمیشن آف انڈیا نے بروقت کاروائی نہیں کی اس لیے سپریم کورٹ سے بے ضابطیوں کی جانچ کرانے اور متاثرہ حلقوں میں پھر سے الیکشن کرانے کی درخواست کی جاتی ہے۔
یو پی میں کندرکی سیٹ پر بی جے پی کی جیت کے معنی
یو پی میں اپوزیشن جماعتوں نے ضمنی انتخابات کے دوران سرکاری مشینری کے بے جا استعمال کا الزام لگایا ہے۔ کندرکی اسمبلی حلقے کے کچھ ووٹر اس کی شکایت کرنے لکھنو جا رہے تھے کہ پولیس نے انہیں سیتا پور کے پاس راستے میں ہی روک لیا جس کے بعد اکھلیش یادو نے اپنے پوسٹ پر اس کی جانکاری دی۔ ایودھیا کے رکن پارلیمنٹ اودھیش پرساد نے اسے لوک شاہی بنام تاناشاہی سے تعبیر کیا ہے۔ واضح رہے یو پی کے نو اسمبلی حلقوں میں سے صرف دو سیٹوں پر سماج وادی پارٹی جیت پائی ہے باقی سات سیٹوں پر بی جے پی اور اس کی حلیف آر ایل ڈی کو کامیابی ملی ہے۔ ان میں مسلم اکثریت والی مراد آباد کی کندرکی سیٹ کا سب سے زیادہ تذکرہ ہو رہا ہے۔ اس سیٹ پر بی جے پی کے امیدوار رام ویر سنگھ نے ساٹھ ہزار سے بھی زیادہ ووٹوں سے اپنے قریبی حریف سماج وادی پارٹی کے حاجی محمد رضوان کو شکست دی ہے۔بی جے پی کو 1993 کے بعد اس سیٹ پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو کریڈٹ دیا ہے۔ انہوں نے اپنا متنازعہ نعرہ ایک بار پھر دہراتے ہوئے کندرکی کی سیٹ کا خاص طور پر ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ کندرکی میں قوم پرستی کی جیت ہوئی ہے، یہ وراثت اور ترقی کی فتح ہے، ہر شخص کو اپنی جڑ اور اصل کی یاد آتی ہے، کندرکی کی جیت بتاتی ہے کہ آنے والے وقت میں سماج وادی پارٹی کہاں جانے والی ہے۔ ان کا اشارہ مسلم ووٹروں کی طرف تھا۔
اپوزیشن لیڈر اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے انتخابی نتائج پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا الیکشن کو کرپشن کا مترادف بنانے والوں کے ہتھکنڈے تصویروں میں قید ہو کر دنیا کے سامنے اجاگر ہو چکے ہیں۔ اتر پردیش نے اس ضمنی الیکشن میں انتخابی سیاست کی سب سے مسخ شدہ تصویر دیکھی ہے۔ اب تو اصلی جدوجہد شروع ہوئی ہے۔ باندھو مٹھی، تانو مٹھی اور پی ڈی اے کا نعرہ لگاؤ جڑیں گے تو جیتیں گے۔
جھارکھنڈ میں کامیاب نہیں ہوا فرقہ پرستی کا ایجنڈا
مرکزی حکومت نے جھارکھنڈ اسمبلی الیکشن کی ووٹنگ سے عین قبل دلی کے سرائے کالے خاں بس اڈے کا نام بدل کر بھگوان برسا منڈا چوک کر دیا لیکن جھارکھنڈ میں یہ ٹوٹکا کام نہیں آیا اور ہیمنت سورین نے انڈیا گٹھ بندھن کی قیادت میں ایک بار پھر سے ریاست میں اکثریت حاصل کر لی ہے۔ صحافی ابھشیک اپادھیائے نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ جھارکھنڈ میں یوگی کا پرچار اور ان سیٹوں پر بی جے پی کی ہار۔ آخر جھارکھنڈ میں یوگی کی کیمپین راج محل، جام تاڑا، دیو گھر چھوٹا ناگ پور، حسین آباد اور بوکارو میں کیوں نہیں چل پائی۔ انہوں نے کہا کہ ہریانہ اور مہاراشٹر میں یوگی کی انتخابی مہم کو میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، شیوسینا لیڈر اور ادھو ٹھاکرے نے بھی مہاراشٹر کے انتخابات میں یوگی کے متنازعہ نعرے بٹو گے تو کٹو گے چلنے کی نفی کی ہے۔ بہرحال دونوں ریاستوں کے نتائج پر مختلف زاویوں سے سنجیدہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ کے بعد سنبھل کی جامع مسجد کے سروے پر تنازعہ
عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق پارلیمنٹ سے منظور شدہ پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 نافذ ہونے کے باوجود مسجدوں کو متنازعہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ وارانسی کی گیان واپی مسجد کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے۔ ہندو فریق نے ہائی کورٹ سے ناکامی کے بعد سپریم کورٹ سے حوض کے نشان زد مقام کے سروے کی عرضی دی ہے جبکہ مسلم فریق نے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ کی روشنی میں اس طرح کی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دینے کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔
اسی دوران سنبھل کی شاہی مسجد کا دوبارہ سروے کرنے پر وبال پھوٹ پڑا ہے۔ سروے ٹیم اتوار کی صبح ہی پہنچ گئی، مقامی لوگوں نے اس کی مخالفت کی تو پولیس نے لاٹھی چارج کر دیا، اس کے بعد پتھراو اور آگ زنی سے حالات ایک دم بگڑ گئے۔ اطلاعات کے مطابق دو افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اس مسجد کو متنازعہ بنانے کے لیے قانونی داؤ پیچ شروع ہو گئے ہیں۔ بابری مسجد اور گیان واپی مسجد کیس میں ہندو فریق کے وکیل ہری شنکر جین ایک بار پھر سے سر گرم ہو گئے ہیں۔ انہوں نے سنبھل کی شاہی جامع مسجد کو ایک قدیم ہندو مندر بتاتے ہوئے مسجد کے سروے کا مطالبہ کیا ہے۔ سنبھل کے سِول جج نے صرف تین گھنٹے میں عرضی قبول کرتے ہوئے ابتدائی سروے کا حکم بھی جاری کر دیا ہے۔ ایم آئی ایم کے لیڈر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ عرضی ایک ایسے شخص نے دی ہے جو سپریم کورٹ میں یو پی حکومت کا وکیل ہے۔ نتیجے میں ایک ہی دن میں سروے ہو گیا جبکہ عام کیسز میں یہ تیزی نہیں دکھائی دیتی ہے۔ اگر عدالتیں اسی طرح کے احکام جاری کرتی رہیں تو پلیسز آف ورشپ ایکٹ تو گویا ایک مردہ خط ہے۔ ایکٹ اس طرح کے کیسوں کو کورٹ پہنچنے سے روکنے کے لیے ہی بنایا گیا تھا۔ سنبھل کے رکن پارلیمنٹ ضیاءالرحمان برق نے بھی مقامی عدالت کی تیزی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ کورٹ کے حکم سے متفق نہیں ہیں۔ یہ جامع مسجد سیکڑوں سال پرانی ہے یہاں کسی بھی قسم کا ہندو مسلم تنازعہ نہیں ہے۔ کچھ شرپسند باہر سے آکر اس شہر کا امن وامان خراب کرنا چاہتے ہیں۔ کورٹ کو دوسرے فریق کو بھی موقع دینا چاہیے تھا۔ انہوں نے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔
اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے مسجد کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا۔ اتراکھنڈ کے اتر کاشی میں واقع مسجد کمیٹی کی عرضی پر سماعت کرنے کے بعد ہائی کورٹ نے پولیس اور ضلع انتظامیہ کو مسجد کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت عالیہ نے اس معاملے میں ریاست کے ڈی جی پی سے جواب بھی طلب کیا ہے۔ واضح رہے کہ دیو بھومی وچار منچ نامی تنظیم کی جانب سے یکم دسمبر کو مہا پنچایت بلانے کے اعلان پر مسلمانوں کی جانب سے ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے ان کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مسجد کو تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت دی ہے۔
مدھیہ پردیش میں نفرت کی آگ پہنچی دواخانوں تک
مدھیہ پردیش کے بھوپال سے ایک چونکا دینے والی خبر سامنے آئی ہے جہاں سونالی چوکسے نام کی ایک ڈاکٹر نے ایک ضعیف مریض کے علاج سے صرف اس بنا پر انکار کر دیا کہ وہ مسلمان ہے۔ دوسرے ہسپتال لے جاتے ہوئے اس مریض کی راستے میں ہی موت ہو گئی۔ جب مریض کے بیٹے نے ڈاکٹر سونالی سے پوچھا کہ میرے والد کا علاج کیوں نہیں کیا تو اس نے بڑی ڈھٹائی سے جواب دیا کہ تم مولانا ہو یہاں سے چلے جاؤ نہیں تو میں تمہیں تبدیلی مذہب کی کیس میں پھنسوا دوں گی۔ ایکس کے ایک صارف نے خبر پر تبصرہ کیا کہ انسانیت ختم ہوتی جا رہی ہے، ہر طرف نفرت ہی نفرت ہے۔ ڈاکٹر کو اپنے پیشے میں دلائے گئے حلف کو یاد رکھنا چاہیے۔ اسے مریض کے دھرم اور ذات برادری سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔
راجستھان میں لڑکی کا سر عام گاڑی سے اتار کر اغوا
راجستھان میں محبت کی شادی کر کے لوٹنے والی ایک دلہن کو اس کے گھر والے تھری وہیلر سے زبردستی اتار کرلے گئے۔ سرعام پیش آنے والے اس واقعے کا ویڈیو وائرل ہو گیا ہے۔ پولیس کی چانچ سے پتہ چلا کہ منجو اور کلدیپ نے لو میرج کی تھی اور کورٹ کے آرڈر پر ایس ایس پی سے سیکیوریٹی کی یقین دہانی لے کر گاؤں لوٹ رہے تھے۔ ایکس کے ایک صارف نے لکھا کہ کیا یہی قانون کی حکم رانی ہے جس کی دھجیاں سر عام اڑائی جا رہی ہیں؟
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 دسمبر تا 7 دسمبر 2024