خالدپرواز، بھالکی
نصاب میں کمی کافی نہیں، پرچہ سوالات کو آسان بنائیں
گزشتہ سال کی بات ہے، موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا تھا۔دوسری جانب تعلیمی اداروں میں بھی امتحانات کی تپش محسوس کی جا رہی تھی۔ اس کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ اچانک کورونا وبا کے پھوٹ پڑنے سے تعلیمی سرگرمیوں پر جو بریک لگا ہے اس کے اثرات پورے تعلیمی سال 2020-21 پر چھائے رہے۔ ایک طویل مدت تک طلبہ اسکول نہیں جا سکے۔ کچھ وقت کے بعد بڑی جماعتوں کو مشروط اجازت ملی۔ طلبہ اپنی تعلیمی ضرورت آن لائن، ریڈیو اور ٹی وی کے مخصوص پروگراموں کے ذریعہ پوری کرتے رہے۔
اب پھر ایک مرتبہ تعلیمی سال کا اختتام ہو رہا ہے، امتحانات طلباء کے سر پر ہیں، ٹھیک اسی وقت ایک مرتبہ پھر کورونا وبا کی دوسری لہر شروع ہوتی ہے۔ پہلی لہر سے پوری طرح سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ دوسری لہر نے طلباء کو بے حال کر دیا ہے۔ ان میں بے انتہا خوف اور بے چینی پیدا ہوئی ہے۔جہاں تک خوف کی بات ہے وہ طلبا کو ہر امتحان کے وقت لاحق ہوتا ہے، وہ اس دوران شدید ذہنی دباو کا شکار رہتے ہیں اور اکثر طلبا ہر سال امتحانات کے قریب بیمار ہوتے ہیں۔ فیل ہونے یا کم نمبرات لانے کا ڈر اتنا ہوتا ہے کہ ہر سال تقریبا 3 لاکھ طلبہ خود کشی کرتے ہیں۔ امتحان مرکوز تعلیمی نظام میں نمبرات اور رینکس کی اس دوڑ میں کورونا وبا کی دوہری مار طلبا کے لیے نا قابل برداشت ہو گئی ہے۔
ان حالات میں طلبا کے مسائل کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ طلبا کے تعلق سے ہمارے رویوں اور امتحانات کی نوعیت میں تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ان حالات کے پیش نظر کچھ ریاستوں میں 30 فیصد نصاب کی کٹوتی کی گئی ہے۔ دوبدو کلاسس کی بجائے آن لائن کلاسس لی گئیں، کتنے بچوں کو فون اور انٹرنیٹ کی سہولت تھی اور جن کو یہ سہولت میسر تھی انہوں نے اس مواد کو کتنا سمجھا ہے یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن تعلیم صرف مواد کو سمجھنے کا نام نہیں ہے۔ ان کلاسس کے ذریعے اکتساب کس قدر ہوا اور بچوں میں کتنی صلاحتیں پروان چڑھی ہیں، ماہرین تعلیم کے لیے ایک غور طلب بات ہے۔
بہر حال تعلیمی سال چل رہا ہے رکتے رکتے ہی سہی مگر تعلیم دی جا رہی ہے۔ ان حالات میں بڑا مسئلہ صرف تعلیم کی ترسیل کا نہیں بلکہ جو تعلیمی عمل ہوا ہے اس کو امتحانات کے ذریعے چانچنے کا ہے اور اس کے مطابق طلبا کو کامیاب کرنے کا ہے۔ اطمینان بخش تعلیمی عمل ہوا ہی نہیں تو اس کی جانچ کس طرح کی جائے وہ بھی اس وقت جب کہ کورونا کی دوسری لہر چل رہی ہے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ بچوں کو بغیر امتحان کے پاس کیا جائے۔ یہ چھوٹی جماعتوں کے لیے تو ممکن ہے لیکن بڑی جماعتوں کے جن طلبا کو مستقبل میں کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لینا یا کسی سروس میں جانا ہے تو ان امتحانات سے گزرنا ہی ہوگا۔
امتحان کا ایک طریقہ تشکیلی جانچ کا ہے جس میں طلبہ کے کام، سرگرمی، پروجیکٹ اور ہوم ورک وغیرہ کی بنیاد پر نمبرات اور گریڈ دیے جاتے ہیں۔اس میں امتحان کا ماحول، خوف اور پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ یہ عمل تعلیم کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔ اس طرح کی جانچ کی بنیاد پر اول تا نہم جماعت کے طلبہ کو کامیاب بھی کیا جا سکتا ہے لیکن دہم، بارہویں یا دوسری اعلیٰ جماعتوں کو ضرور امتحانات سے گزرنا پڑے گا۔سب سے زیادہ دباو بھی ہمیشہ ان ہی طلبا پر ہوتا ہے۔ ان غیر معمولی حالات میں ان طلبہ کا خصوصی خیال رکھنا پڑےگا۔ والدین اور اساتذہ کو انہیں ڈر و خوف سے باہر نکالنا ہوگا۔ امتحانات کے بورڈس کو بھی کئی ایک فیصلے لینے ہوں گے۔
نصاب میں کمی کے ساتھ ساتھ پرچہ سوالات میں بھی کچھ آسانیاں پیدا کرنی ہوں گی۔ آسان سوالات کی سطح کو بڑھانا ہوگا، انٹرنل مارکس میں بھی کچھ فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
اساتذہ کا ان حالات میں بہت اہم رول ہے۔ طلبہ میں اعتماد کو باقی رکھنے، کورونا کے خوف اور امتحان کے ڈر کو دور رکھنے کے لیے کئی ایک اقدام کرنے ہوں گے۔ ان سے گفتگو کرنی ہوگی، ضرورت ہو تو ان کی کونسلنگ بھی کرنی ہوگی۔والدین کی غیر حکیمانہ گفتگو بھی بچوں میں ذہنی دباو کا باعث بنتی ہے۔ جیسے بچوں سے اول رینکس کا مطالبہ، کم نمبر لانے پر عزت جانے یا خاندان میں ناک کٹنے کے اندیشہ کا اظہار اور پاس پڑوس یا رشتہ داروں کے بچوں کی بار بار مثال دے کر ان سےاچھا نتیجہ لانے کی مانگ۔ اس طرح کے مطالبات و توقعات بچوں میں اندیشوں اور خوف کو جنم دیتے ہیں۔ والدین کا رول ان حالات میں بہت مثبت ہونا چاہیے۔ وہ بچوں سے کہیں آپ کا نتیجہ ہر حال میں ہم کو قبول ہے۔ آپ بے خوف ہو کر اپنی پڑھائی جاری رکھیں ہمت اور حوصلے کے ساتھ امتحان دیں۔ والدین کو بچوں کی تعلیمی ضروریات، اچھی غذا، بھر پور نیند، تفریح و ورزش اور ان کے صحت کا خیال رکھنا چاہیے۔
غرض جن حالات سے آج دنیا گزر رہی ہے ان حالات میں طلبہ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے اساتذہ اور والدین کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021