سکم کی حکومت کو طلباء سے خوف؟

جائز مطالبات ماننے کے بجائے طلباء کو ملک مخالف قرار دیا گیا

 

کالج کے حق کی لڑائی میں جیل اور کالج سے نکالے گئے طلباء
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت میں اب اپنے جائز مطالبات رکھنے میں کس قدر مشکلیں پیش آتی ہیں اس کی جیتی جاگتی مثال ہمالیہ کے پہاڑوں میں واقع ریاست سکم (Sikkim) میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سِکم کے لفظی معنیٰ ہی خوبصورت علاقے کے ہیں۔ لیکن ان دنوں جو ہوا اسے کسی بھی طور پر ایک خوبصورت منظر نامہ نہیں کہا جا سکتا۔ در اصل مغربی سکم میں واقع سرکاری کالج گیزنگ (Sikkim Government College, Gyalshing) ہے۔ اس کالج کے کچھ طلباء نے سکم کی حکومت سے مطالبہ تھا کیا کہ کالج کی زیرِ تعمیر عمارت کو جلد سے جلد مکمل کیا جائے۔ طلباء نے اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے وزیرِ تعلیم اور متعلقہ افسروں سے ملنے کی کوشش کی اور 120 کلو میٹر کا سفر طے کر کے 2 فبروری کو شہر گینگٹوک (Gangtok) پہنچے لیکن ملاقات وزیرِ تعلیم کُنگا نیما لیپچا (Kunga Nima Lepchaa) کے بجائے چیف سکریٹری داخلہ برائے تعلیم جی پی اپادھیائے سے ہو پائی۔ ایک رپورٹ کے مطابق جی پی اپادھیائے نے پولیس کو طلب کر کے تمام طلباء کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ طلباء کے دعووں کے مطابق اس دوران خاتون طلباء کو جنسی طور پر ہراساں بھی کیا گیا اور گرفتاری کے بعد طلباء پر مقدمات کی جھڑی لگا دی گئی۔ پروین اپریتی اور پروین بِشنیٹ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی اور مندرجہ ذیل دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گیے۔
341 غلط طریقے سے بچاؤ کرنا
448 غلط طریقے سے عمارت میں داخل ہونا
452 حملے کی تیاری سے عمات میں داخل ہونا
353 سرکاری ملازمین کے کام میں دخل اندزای کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا
186 ریاست کے کاموں میں رکاوٹ بننا
34 کسی ارادہ سے کچھ لوگوں کے ذریعے کام کیا جانا
مذکورہ بالا مقدمات صرف اس لیے طلباء کے خلاف درج کیے گئے کیوں کہ وہ کالج کی عمارت کے تعمیری کام کو سرعت کے ساتھ انجام دینے کا مطالبہ کر رہے تھے کیوں کہ طلباء کو موجودہ عمارت میں تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات پیش آرہی تھیں۔ ہاسٹل میں سردیوں کے موسم میں کئی مسائل درپیش تھے۔ اگرچہ پولیس طلباء کو عدالت میں بغیر پیش کیے بغیر ہی ضمانت پر رہا کر دیا اور سارے طلباء کالج لوٹ گئے۔ 19 فروری کو کالج کی جانب سے احتجاجی طلباء کے والدین کو طلب کیا گیا اور ان کے سامنے ہی چار طلباء پروین اپریتی، پرویشن بِشنیٹ، لوک ناتھ چھیتری اور نکُل شرما کو ان کا موقف سنے بغیر ہی کالج سے نکال دیا گیا۔ ریاستی حکومت کی جانب سے ان طلباء پر نہ صرف کسان آندولن میں شامل ہونے کی وجہ سے ملک مخالف سرگرمیوں میں حصہ لینے کا الزام عائد کیا بلکہ یوم جمہوریہ کے موقع پر دلی میں ہوئے تشدد میں شامل ہونے کا الزام بھی ان کے سر منڈھ دیا۔ جبکہ نکالے گئے طلباء کا کہنا ہے کہ وہ کسانون کے آندولن میں شامل ضرور ہوئے تھے لیکن چھبیس جنوری کو وہ سکم میں ہی موجود تھے۔ ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ اگر طلباء معافی مانگ لیتے ہیں تو انہیں کالج میں داخلہ دے دیا جائے جبکہ نکالے گئے طلباء کا کہنا ہے کہ ان کی کوئی غلطی نہیں ہے اس کے برعکس طلباء نے اپنے تین مطالبات مزید رکھ دیے ہیں۔ پہلا یہ کہ طلباء کی کالج سے برخاستگی کا حکم واپس لیا جائے۔ دوسرا، طلباء کے خلاف درج مقدمے واپس لیے جائیں اور تیسرا کالج کا تعمیری کام جلد از جلد مکمل کیا جائے۔
ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ کالج کو پینتیس کروڑ روپوں کا فنڈ مہیا کر دیا گیا ہے جبکہ کالج کی عمارت کو مکمل کرنے کے لیے 54 کروڑ روپے درکار ہیں۔ باقی کی رقم کورونا میں مزدوروں کی کمی اور خام مال کے نہ ہونے کی وجہ سے ادا نہیں کی گئی۔ وہیں کالج کے پرنسپل کشور کمار رائے کا موقف یہ ہے کہ ان چاروں طلباء نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے جس کی وجہ سے انہیں کالج سے نکالا گیا ہے۔ واضح ہو کہ گیزنگ کالج کا تعمیری کام پچھلے گیارہ سال سے چل رہا ہے لیکن اب تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پایا ہے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021