سڑکوں پر جاری عوامی تحریک ملک کی رہنمائی کر سکتی ہے: ملک معتصم خان
نئی دہلی، جنوری 09— ’’جب پارلیمنٹ کام کرنا بند کردیتی ہے، جب سپریم کورٹ اپنے فرض کو نظرانداز کردیتی ہے اور جب الیکشن کمیشن حکومت کے حکم پر منحصر ہوجاتا ہے تو پھر ہم کہاں جائیں؟ ہم کس کے سامنے اپنی شکایات رکھیں؟ براہ کرم یاد رکھیں اس صورت حال میں سڑکوں پر جدوجہد ہی حکومت اور اس کے ارادوں کو درست کرسکتی ہیں”ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی ہند کے کمیونٹی امور کے سکریٹری ملک معتصم خان نے بدھ کے روز جامعہ ملیہ اسلامیہ پر طلبا اور نوجوانوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
گذشتہ 27 دنوں سے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے جامعہ کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنما نے کہا ’’آپ نے اپنا قدم اس وقت آگے بڑھایا جب بڑے رہنما پیچھے ہٹ رہے تھے۔ آپ نے ایسے وقت میں بات کی جب بڑے سیاست دان بولنے سے کتراتے ہیں۔ آپ کی ہمت نے اس جمہوریت کی حوصلہ افزائی کی ہے اور اسے مضبوط کیا ہے۔‘‘
بدھ کے روز شدید بارش کے باوجود جامعہ نگر کے سیکڑوں طلبا اور مقامی رہائشی ہاتھوں میں اینٹی سی اے اے پلے کارڈز لے کر سڑکوں پر بیٹھے تھے۔
جامعہ کے طلبا کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے، جنھوں نے گذشتہ ماہ سی اے اے کے خلاف مظاہرے کا آغاز کیا، جناب خان نے کہا ’’پارلیمنٹ کی طرف سے سی اے اے کے نافذ ہونے کے فورا بعد ہی سے یہ مظاہرے جاری ہیں اور اس کے لیے میں جامعہ ملیہ کے طلبا اور ان کے جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ملک میں جب بڑے رہنما اور سیاست دان کالے قانون کے خلاف بولنے میں ہچکچا رہے تھے تو آپ طلبا نے انھیں بولنے اور لڑنے کا ایک نیا طریقہ دکھایا۔‘‘
ملک معتصم خان نے کہا ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، بنارس ہندو یونی ورسٹی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، حیدرآباد سنٹرل یونی ورسٹی اور IITs کے طلبا نے اس جدوجہد کو کیمپس سے سڑک تک زندہ رکھا ہے۔ ہمیں اور آپ کو امن، ہم آہنگی اور عدم تشدد کے ساتھ اس تحریک کو اپنی منزل مقصود تک لے جانا ہوگا۔‘‘
انھوں نے واضح کیا کہ سی اے اے کے خلاف احتجاج کا ایک ہی مقصد ہے۔ ملک کے آئین کا تحفظ ۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں بہت واضح اور ثابت قدم رہنا چاہیے کہ سی اے اے کے خلاف احتجاج کا آئین کے تحفظ، اس میں شامل حقوق، اس کی روح اور بنیادی اصولوں کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے۔ سی اے اے نے ان حقوق کو نقصان پہنچایا جن کے تحفظ کے لیے ہم سب اور ہماری مائیں اور بہنیں پچھلے 27 دنوں سے مسلسل سڑک پر احتجاج کر رہی ہیں۔
جامعہ کے طلبا روزانہ احتجاج کے مقام پر مہمان مقررین کو مدعو کرتے رہے ہیں۔ بدھ کے روز جماعت کے رہنما کے علاوہ اس دن کے دیگر مہمان مقررین میں سماجی کارکن کویتا کرشنن، دہلی یونی ورسٹی کے پروفیسر رتن لال اور معروف اسلامی اسکالر مولانا سجاد نعمانی شامل تھے۔