سپریم کورٹ نے کورونا وائرس سے متعلق ’’فرقہ وارانہ رپورٹنگ‘‘ کے لیے میڈیا ہاؤسز کے خلاف کی جانے والی کارروائی کی بابت حکومت سے سوال کیا
نئی دہلی، مئی 28: ایک اہم کاروائی میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت، پریس کونسل آف انڈیا (پی سی آئی) اور نیوز براڈکاسٹرس ایسوسی ایشن (این بی اے) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ ان پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے خلاف انھوں نے کیا کارروائی کی ہے جنھوں نے فرقہ وارنہ خبریں چلائیں اور گردش کیں۔ نوٹس کا جواب 15 جون تک طلب کیا گیا ہے۔
جمعیت علمائے ہند (ارشد مدنی) کے قانونی سکریٹری گلزار احمد اعظمی کی جانب سے ایڈووکیٹ اعجاز مقبول کے توسط سے دائر درخواست پر یہ نوٹسز جاری کیے گئے، خصوصی طور پر اس حوالے سے جعلی خبروں کو گردش کرنے والوں کے خلاف عدالت سے براہ راست کارروائی کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست میں نشان دہی کی گئی ہے کہ گجرات میں کچھ لوگوں نے پرچے اور ہینڈ بل تقسیم کیے تھے جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ مسلمان کورونا پھیلانے والے ہیں، جس نے نہ صرف اس وبائی بیماری کے خلاف متحدہ جنگ کو نہ صرف کمزور کیا بلکہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں پر جسمانی حملے اور ان کا تجارتی بائیکاٹ بھی ہوا۔
ارشد مدنی نے عدالت کے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ’’متعصب میڈیا کو روکنے کے لیے ہماری قانونی جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ہمیں کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہمیں امید ہے کہ ہمیں اس معاملے میں انصاف ملے گا کیوں کہ یہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا معاملہ نہیں، بلکہ ہندوستان کی سالمیت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا معاملہ ہے۔‘‘
انھوں نے مزید کہا ’’آج کی سماعت کو مثبت تصور کرتے ہوئے ہم امید کرتے ہیں کہ ہمیں سپریم کورٹ سے دوبارہ انصاف ملے گا۔ اگرچہ آج عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے لیکن یہ ایک مثبت علامت ہے کہ عدالت نے حکومت سے ایسے میڈیا ہاؤسز کے خلاف کارروائی کے بارے میں پوچھ گچھ کی ہے۔‘‘