سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے دہلی پولیس فسادات میں معصوم طلبا اور سماجی کارکنوں کو جعلی طور پر پھنسانے کے لیے دہلی پولیس کی مذمت کی
نئی دہلی، اپریل 22: سماجی کارکنان، ماہرین تعلیم اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے دہلی پولیس کے ذریعے دہلی فسادات میں بے گناہ طلبا کارکنوں کو جھوٹے طور پر پھنسانے اور ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔
انھوں نے کہا ’’شہری حقوق اور آزادیوں کو دبانا اور ہماری نوجوان جمہوری آوازوں کو نشانہ بنانا قابل مذمت ہے۔ ہمیں یہ بات انتہائی شرمناک لگتی ہے کہ دہلی پولیس لاک ڈاؤن کا استعمال کررہی ہے اور بھوک کے بہت بڑے انسانی بحران کو بےگناہ لوگوں کے جمہوری حقوق پامال کرنے کے موقع کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ یہ وقت ایک قوم کی حیثیت سے متحد ہونے کا ہے، طلبا کو نشانہ بنانے کا نہیں۔‘‘
کارکنوں کا کہنا ہے کہ ’’اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے دہلی پولیس نے جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد اور جامعہ کے طلبا میران حیدر اور صفورا زرگار کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں اور یہ دعوی کیا ہے کہ شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد ان کے ذریعہ منصوبہ بند سازش تھی۔‘‘
انھوں نے مزید کہا ’’یہ بیانیہ انتہائی مضحکہ خیز ہے اور اس ملک کے شہری ان جھوٹوں کی اصل دیکھ لیں گے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اصل مجرم، جنھوں نے واقعتاً اشتعال انگیزی کی یا تشدد میں حصہ لیا، سوشل میڈیا پر بھی ان کے خلاف کافی شواہد دستیاب ہونے کے باوجود بھی انھیں کیوں آزادی دی جا رہی ہے؟ ہم پوچھتے ہیں کہ کیا ہندوستان کا دارالحکومت دہلی، جس کی پولیس فورس براہ راست مرکزی وزارت داخلہ کے ماتحت آتی ہے، تیزی سے پولیس ریاست بن رہا ہے؟‘‘
ہم ملک کے تمام شہریوں، سیاسی جماعتوں، عدالتی نظام اور میڈیا سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس ناانصافی کے خلاف متحد رہیں۔ جمہوری آوازوں کو روکنے کے لیے ریاستی طاقت کے اس بے رحمانہ غلط استعمال کی مخالفت کریں۔ اور مطالبہ کریں کہ ان الزامات کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ کارکنوں نے اپیل کی کہ لاک ڈاؤن میں گرفتار افراد کو فوری رہا کیا جائے۔
بیان پر دستخط کرنے والوں میں پروفیسر رامپویانی (مصنف اور کارکن)، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان(چیئرمین، دہلی اقلیتی کمیشن)، روی نائر، (کنوینر، سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف اتحاد)، انجینئر سید سعادت اللہ حسینی (امیر جماعت اسلامی ہند)، پروفیسر اپوروانند (دہلی یونی ورسٹی)، محترمہ فرح نقوی (مصنف اور کارکن)، ہرش مندر (سابق آئی اے ایس، کارکن)، ڈاکٹر ایم منظور عالم (جنرل سکریٹری، اے آئی ایم سی)، ایس آر داراپوری (آئی پی ایس (ریٹائرڈ)، ترجمان، اے آئی پی ایف)، سیدہ حمید (سابق ممبر، پلاننگ کمیشن)، ڈاکٹر جان دیال (مصنف، کارکن)، لیبید شفی (صدر ایس آئی او)، تپن بوس (انسانی حقوق کارکن)، محترمہ کویتا شریواستو (انسانی حقوق کارکن)، پروفیسر غزالہ جمیل (جے این یو) محترمہ آئشی گھوش (صدر جے این یو ایس یو) مجتبیٰ فاروق (کنوینر، الائنس اگینسٹ سی اے اے، این آر سی، این پی آر)، محترمہ کویتا کرشنن (اے آئی پی ڈبیلو اے)، ڈاکٹر ایس کیو آر الیاس (صدر ڈبلیو پی آئی)، محترمہ منیشا سیٹھی (مصنف، کارکن)، ندیم خان (یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ)، راگھون سری نواسن (صدر لوک راج سنگٹھن)، اجیت یادو (سیاسی کارکن)، جاوید نقوی
(مصنف اور کارکن) اور محمد سلیمان (صدر INL) شامل ہیں۔