سری لنکا پر بھی اسلاموفوبیا کا بھوت سوار

مسلمانوں پر منصوبہ بند حملے۔ درجنوں مدارس بند۔نقاب پرپابندی زیر غور

مسعود ابدالی

مرزا غالب کو اس چار گرہ کپڑے کی قسمت پر رشک آتا تھا جو عاشق کا گریبان بن کر تار تار ہو جائے اور اب مسلمان بچیوں کے سر پر پڑا یہ بے ضرر وبے جان کپڑا تہذیب حاضر کو جوہری بم سے زیادہ خطرناک نظر آرہا ہے۔ آیت اللہ خمینی فرماتے تھے ’دشمن ہمارے بموں اور میزائیلوں سے اتنا خوفزدہ نہیں لگتا جتنا خوفزدہ وہ ہماری بچیوں کے حجاب سے لگتا ہے‘
امام خمینی نے یہ بات چار دہائی قبل کہی تھی لیکن دورِ حاضر میں ان کی بات حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہی ہے۔ فرانس کے صدر نے حجاب کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
اسی قسم کی بات اب سری لنکا میں کہی جا رہی ہے جہاں بودھ، ہندو اور مسلمان کئی صدیوں سے شیروشکر ہیں۔ ربع صدی سے زیادہ عرصہ جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران بھی مسلمان، تامل علیحدگی پسندوں اور سنہالیوں کے حملوں سے محفوظ رہے۔ کچھ مقامات پر انتہا پسند سنہالیوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا لیکن اکا دکا واقعات کو منظم حملے نہیں کہا جاسکتا۔
سوا دو کروڑ آبادی والا سری لنکا 70فیصد سنہالی نژاد بودھ اور 24فیصد سری لنکن تاملوں پر مشتمل ہے جبکہ 6فیصد ہندوستانی نژاد تامل بھی کئی صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ سری لنکن تاملوں میں مسلمانوں کا تناسب 41.6فیصد ہے گویا سری لنکا کی کل آبادی کا دس فیصد حصہ مسلمان ہے جنہیں مُور Moors کہا جاتا ہے۔
سری لنکا اور برصغیر پاک وہند کے درمیان خلیج منار Mannar Gulf حائل ہے جس کے ایک طرف ہندوستان کی تمل ناڈو ریاست ہے تو دوسری جانب شمالی سری لنکا کا ضلع منار۔ شمال میں خلیج بنگال کو ایک تنگ سے بحری راہداری آبنائے پالک بحر ہند سے ملاتی ہے۔ بنگلہ دیش اور برما سے پاکستان اور مشرق وسطیٰ جانے والے جہاز آبنائے پالک (Palk Strait) سے گزر کر ہی بحر عرب کا رخ کرتے ہیں۔ ہندو عقیدے کے مطابق سری لنکا ایک پل کے ذریعے تمل ناڈو سے ملا ہوا تھا لیکن آندھیوں اور طوفانوں سے پل بہہ گیا اور اب اس کے آثار خلیج منار میں جگہ جگہ چونے کی پتھریلی چٹانوں (Limestone) کی صورت میں ملتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 600 سال پہلے تک تمل ناڈو کے ہندو جوگی پیروں پر چلتے ہوئے خلیج منار عبور کر کے سری لنکا جاتے تھے۔ تاہم اس ضمن میں بحریات اور سیاحت کا کوئی مستند حوالہ موجود نہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ 2019میں عیدِ ایسٹر پر ہونے والی دہشت گردی نے سری لنکن مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کیا۔ ایسٹر، ایامِ صوم یا Lent کے اختتام پر حضرت عیسیٰؑ کی دنیا میں مبینہ واپسی پر بطورِ عید منایا جاتا ہے۔ ظالموں نے مسرت و شادمانی کی مجلسوں اور دعائیہ تقریبات کو آنسووں اور آہوں میں تبدیل کر دیا۔کولمبو کے تین گرجا گھروں اور Shangri-la سمیت تین پرتعیش جدید ہوٹلوں میں ایک کے بعد ایک 6 بم دھماکوں سے 253بے گناہ مارے گئے جبکہ 500سے زیادہ افراد معذور ہو گئے۔ متاثرین میں مقامی لوگوں کے علاوہ امریکی، جاپانی، ولندیزی، برطانوی اور پرتگالی سیاح و مسیحی زائرین شامل ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق گرجا گھروں اور ہوٹلوں پر حملوں کے ایک گھنٹے بعد کولمبو کے مضافاتی علاقے میں دو گھر خود کش بم دھماکوں سے اڑا دیے گئے۔ پولیس کا خیال ہے کہ یہ گھر بم کی تیاری اور منصوبہ بندی کے لیے استعمال ہوئے تھے اور انہیں شواہد مٹانے کے لیے زمیں بوس کیا گیا۔ اس لرزہ خیز واردات کو ایشیا کا 9/11کہا جاتا ہے اور سری لنکن مسلمانوں کے لیے اس کی قیمت بھی اتنی ہی بھیانک ہے جیسے امریکی مسلمان 20 سال گزر جانے کے بعد آج تک ادا کر رہے ہیں۔
تاہم سری لنکا میں مسلمانوں کے خلاف مہم 2017 سے جاری ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نفرت کا بیانیہ بلکہ حکمت عملی بھی برما کا تسلسل ہے۔ برمی نسل پرست رہنما سیتاگو سیاگو Sitagu Sayadaw کے نفرت انگیز اقتباسات چار سال سے سری لنکا میں تقسیم کیے جا رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’غیر بودھ کا قتل برا کرما (غلط کام) نہیں ہے‘۔ جیسے برما میں مسلمانوں کو بنگالی کہہ کر ان کے آبائی گھروں سے نکال دیا گیا ویسے ہی سری لنکا میں مُوروں کو ہندوستانی تامل قرار دیا جا رہا ہے جن کے آبا واجداد نے یہاں آ کر سنہالیوں کی زمینوں اور جائیداد پر قبضہ کرلیا ہے اور اب یہ ’گھس پیٹھیے‘ دعوت و تبلیغ اور ’جہاد‘ کے زور سے بودھوں کو اقلیت میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں۔ معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ مسیحی آبادی کو بھی انتہا پسند بودھوں کی طرف سے برابر دھمکیاں مل رہی ہیں۔ National Christian Evangelical Alliance of Sri Lanka کے مطابق صرف 2019میں یہاں مسیحیوں کو ہراساں کرنے، قتل کی دھمکیوں، تشدد اور بد سلوکی کے 45واقعات ریکارڈ کیے گئے اور ان تمام وارداتوں میں انتہا پسند سنہالی بودھ ملوث ہیں۔
سوشل میڈیا پر زہریلی مہم کے بعد تشدد کی مہم کا آغاز 4 مارچ 2017 کو اس وقت ہوا جب مبینہ طور پر ملی گاما Mullegama نامی گاوں میں ایک بدھسٹ اچانک پھوٹ پڑنے والے ہنگامے میں ہلاک ہو گیا۔ بدھوں نے الزام لگایا کہ اس کو مسلمانوں نے قتل کیا ہے چنانچہ چند ہی گھنٹوں میں ہزاروں مسلح غنڈوں کا دستہ بازار پر ٹوٹ پڑا اور چن چن کر مسلمانوں کی دکانوں کو آگ کے حوالے کیا۔ مُوروں کو ان کے گھروں سے نکال کر مساجد میں ٹھونس دیا گیا اور مسلح دہشت گرد راکھ بنے بازار اور مکانات کے ملبے پر پہرا دیتے رہے تاکہ مسلمان واپس نہ آ سکیں۔ برما میں بھی روہنگیا برادری کو گھر سے نکال کر کیمپوں تک محدود کردیا گیا تھا جس کے بعد انہیں بنگلہ دیش کی طرف دھکیل دیا گیا۔
ملی گاما گاوں میں بدھسٹ کی ہلاکت کی جب تحقیقات کی گئی تو سینئر وزیر مسٹر سارتھ امونوگاما نے کمیشن کو بتایا کہ یہ قتل باہر سے آئے ہوئے لوگوں نے کیا ہے جس میں مسلمانوں کا کوئی ہاتھ نہ تھا بلکہ یہ ایک منظم سازش ہے۔ (حوالہ رائٹر)
فسادات کے بعد سری لنکن صدر نے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کر دی لیکن موبائل فون پر ایس ایم ایس کے ذریعے زہریلی مہم جاری رہی اور دودن بعد غنڈوں کا جتھہ متصل گاوں مداوالا پر چڑھ دوڑا جو مسلمانوں کا تعلیمی و تجارتی مرکز ہے۔ یہاں کے بازار میں زرعی اجناس اور پارچہ جات کے علاوہ جدید ترین الیکٹرونکس اور آٹو پارٹس کی دکانیں بھی ہیں جو سب کی سب جلا کر خاک کر دی گئیں۔ بازار کے بعد ہجوم نے رہائشی علاقے کا رخ کیا جسے پولیس پہلے ہی خالی کراچکی تھی۔ یہ فسادات ایک ہفتہ جاری رہے اور بازاروں کے ساتھ چار مساجد اور درجنوں اسکول و مدارس نذر آتش کر دیے گئے۔ ان ہنگاموں کے پیچھے نفرت کا رنگ اتنا گہرا تھا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں سری لنکا کی حکومت پر زور دیا گیا کہ لوٹ مار کرنے والے بلوائیوں کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جو سری لنکن مُوروں کے خلاف نفرت کی مہم چلا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے دباو پر دہشت گردی کے سرغنہ جیون ویراسنگھے اور ان کے نائب سمیدھا سوارا ویرا سمیت 100دوسرے افراد گرفتار کر لیے گئے۔ پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان سے بہت سارا شر پسندانہ مواد اور مستقبل کے منصوبے برآمد ہوئے لیکن ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی نہ مسلمانوں کے تقصانات کا کوئی ازالہ ہوا جسکا حجم اربوں میں ہے۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں کمار سنگاکارا اور مہیلا جیا وردنا نے مسلمانوں سے یکجہتی کے لیے سوشل میڈیا پر پر مہم چلانے کا اعلان کیا لیکن بات ایک دو ٹویٹ سے آگے نہ بڑھ سکی۔
عیدِ ایسٹر 2019 کی دہشت گردی سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم عروج کو پہنچی۔ دھماکوں کے دوسرے دن ابتدائی تحقیقات سے بھی پہلے سری لنکا کے وزیر صحت رجیتا سینارتنے نے ایک غیر معروف مقامی تنظیم اسلامی توحید جماعت پر ان دھماکوں کا الزام لگایا اور ’وہابی دہشت گردی‘ کی بیخ کنی کے لیے انتظامیہ یکسو ہو گئی۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں نے مُوروں کو نشانے پر رکھ لیا۔ ہزاروں نوجوان غائب کر دیے گئے۔ برقعے پر پابندی لگا دی گئی، کہا تو جا رہا تھا کہ پابندی صرف چہرہ چھپانے پر ہے لیکن اسکارف حتیٰ کہ ڈوپٹے لینے والی بچیوں کی بھی شامت آگئی۔ پولیس ناکوں پر بد سلوکی کے علاوہ سنہالی اوباشوں کی جانب سے اسکارف نوچنے کی واردات عام ہیں۔ سارے ملک میں مساجد کی نگرانی ہو رہی ہے اور نوجوان نمازیوں کو تحقیقاتی خور دبین کے نیچے رکھ لیا گیا ہے۔ ہندوستان سے آنے والے تامل مسلمانوں کو ویزے کا اجرا بند کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے چائے کی تجارت متاثر ہو رہی ہے۔ ہندوستان کے تامل تاجر سری لنکا کی چائے کے بڑے خریدار ہیں جن کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں سری لنکا کے ساتھ ہندوستان کے تامل علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ مُوروں کو سیاسی حمایت سے محروم کرنے کے لیے کابینہ کے مسلم وزرا کو استعفوں پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ سری لنکن مسلمان سیاست اور حکومتی امور میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ تعلیم یافتہ ہونے کی بنا پر امور مملکت میں ان کا اثرو رسوخ بھی ہے۔ بلدیات، شہری منصوبہ بندی، صنعت، اعلیٰ تعلیم، ڈاک اور اوقاف کے قلمدان مسلمانوں کے پاس تھے۔
گزشتہ برس مارچ کے آغاز پر ساری دنیا کی طرح سری لنکا بھی کرونا وائرس کا شکار ہوا اور وزارت صحت نے کرونا سے مرنے والوں کی لاشوں کو جلانے کا حکم جاری کر دیا۔ مُوروں کی درخواست پر عالمی ادارہ صحت نے بہت صراحت کے ساتھ کہا کہ ان میتوں کی مسلم طریقے پر تجہیز و تکفین کی جائے۔ میتوں کے ذریعے وائرس پھیلنے کا کوئی خطرہ نہیں۔ یورپ اور امریکہ میں ہزاروں مسلمان اس وبا کا شکار ہوئے جنہیں روایتی مسلم طریقے پر سپردِ خاک کیا گیا ہے اور اب تک مسلم قبرستانوں سے وائرس کے پھیلاو کی کوئی اطلاع نہیں ملی، لیکن سری لنکا کی حکومت نے مُوروں کے مطالبے کو وہابی انتہا پسندوں کی جانب سے ملک کو
انتشار میں مبتلا کرنے کی سازش قرار دے کر اقوام متحدہ کی ہدایت کو بھی نظر انداز کردیا۔
اس سال 12مارچ کو وزیرِ تحفظِ عامہ سارت ویرسکیرا نے ایک مسودہ قانون منظوری کے لیے کابینہ کو بھیجنے کا اعلان کیا جس میں قومی تحفظ کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے برقعے پر پابندی کی سفارش کی گئی ہے۔ وزیر باتدبیر کا کہنا تھا کہ پہلے مسلم خواتین برقعہ نہیں پہنتی تھیں اور یہ ’وہابی انتہا پسندی‘ کی علامت ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ملک کے 1000مدارس کو مقفل کرنے کا بھی اعلان کیا۔ فاضل وزیر کا کہنا تھا کہ یہ اسکول قومی نصاب کے بجائے خود ساختہ مواد پڑھا رہے ہیں جن میں انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مدارس سائنس کے بجائے ازمنہ قدیم کے رائج طریقوں پر اصرار کر رہے ہیں۔ اس سے موصوف کا اشارہ میتوں کو نذر اتش کرنے کی مخالفت کی طرف تھا۔ اعلان کے مطابق اس حکم کا اطلاق دینی مدارس پر ہونا تھا لیکن مسلمانوں کے عام اسکول بھی بند کیے جا رہے ہیں۔
اس اعلان پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مسلم کونسل آف سری لنکا کے نائب صدر حلمی احمد نے کہا کہ برقعے کو انفرادی حقوق کے نظریے سے دیکھا جانا چاہے نہ کہ مذہبی تناظر میں۔ حلمی صاحب کا کہنا تھا کہ اگر پہچان کا مسئلہ ہو تو حکام شناخت کے لیے نقاب ہٹانے کو کہہ سکتے ہیں جس پر مسلم خواتین کو کوئی اعتراض نہیں۔ تاہم چہرہ کھلا رکھنا یا ڈھانپنا ہر فرد کا انفرادی حق ہے۔ مدارس کے بارے میں حلمی صاحب نے وضاحت کی کہ بیشتر حکومت کے پاس اندراج شدہ ہیں اور شاید پانچ فیصد سے بھی کم مدارس ایسے ہیں جن کا اندراج نہ ہو۔ غیر رجسٹڑد مدارس کے خلاف کارروائی پر مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔
برقعے کے خلاف مجوزہ قانون پر سری لنکا میں پاکستان کے سفیر سعد خٹک نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’پابندی سے سری لنکن اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو دکھ پہنچے گا‘۔ پاکستانی سفیر کی درخواست پر اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے مذہبی آزادی جناب احمد شہید نے سری لنکا کے صدر سے فون پر بات کی اور برقعے پر پابندی کو مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ کے کمیشن برائے مذہبی آزادی USCIRF نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا۔
اس عالمی دباو کے نتیجے میں گزشتہ ہفتے کچھ معقولیت دیکھنے میں آئی جب 16 مارچ کو سرکاری ترجمان کیہلیا رامبوک ویلا نے مجوزہ مسودہ قانون پر فیصلہ موخر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ برقعے پر پابندی کے حوالے سے حکومت کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہے اور جلد بازی کے بجائے تمام طبقات سے مشورے اور مذہبی اکائیوں کو اعتماد میں لینے کے بعد اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔
لیکن تعلیمی اداروں پر پابندی کا سلسلہ جاری ہے اور کچھ عرصے سے جماعت اسلامی، سری لنکا حکومت کا خاص ہدف ہے۔ گزشتہ ہفتے ممتاز اسکالر اور سابق امیر جماعت اسلامی سری لنکا رشید حج الاکبر، وہابیت اور جہادی نظریات پھیلانے کے الزام میں گرفتار کر لیے گئے۔ رشيد حج الاکبر جنہیں احترام سے استاذ کہا جاتا ہے چوبيس سال تک امارت کی منصب پر رہنے کے بعد ستمبر 2019میں سبکدوش ہوئے اور آجکل موصوف نائب امير ہيں۔جماعت اسلامی، سری لنکا میں 1954سے سرگرم ہے اور ایک مذہبی و رفاہی ادارے کی حیثیت سے باقاعدہ رجسٹرڈ ہے۔ جماعت سیاست میں حصہ نہیں لیتی اور دعوت و خدمت خلق کے کاموں میں مصروف ہے۔ استاذ رشید پر وہابیت اور انتہا پسندی پھیلانے کا الزام اس اعتبار سے مضحکہ خیز ہے کہ جماعتی جریدے ماہنامہ الحسنات میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف استاذ کے مضامین مسلسل شائع ہو رہے ہیں۔ نو دس برس پہلے جب تفہیم القرآن کا سنہالی ترجمہ شائع ہوا تو استاذ نے سری لنکن وزیر اعظم کو تقریبِ رونمائی میں خصوصی طور پر مدعو کیا تھا اور اپنی تقریر میں وزیر اعظم کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ قرآن پر مسلمانوں کا اجارہ نہیں۔ یہ تو ہر شخص کے لیے اس کے رب کا خصوصی پیغام ہے اور ہم نے اسی لیے سنہالی ترجمہ شایع کیا ہے تاکہ ہمارے سری لنکن بھائی اللہ کی اس عظیم نعمت سے مستفید ہو سکیں۔ وزیر اعظم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کتاب کو کوئی اور پڑھے نہ پڑھے میں ضرور پڑھوں گا۔
افغانستان پر روس کے حملے کے بعد جب امریکی سی آئی اے کی جانب سے وہابی و سلفی تعلیمات کو پھیلایا جا رہا تھا اس وقت بھی استاذ حج الاکبر نے انتہا پسندی کے خلاف الحسنات کے علاوہ سری لنکا کے عام اخبارات میں مضمون لکھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام اعتدال کا دین ہے جو برداشت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا سبق سکھاتا ہے۔ انتہا پسندی اور فرقہ واریت کا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں۔ سری لنکا کے سنجیدہ حلقے خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ سراغ رساں اداروں کے متعصب حکام نے استاذ کے مضامین کا غلط ترجمہ کر کے وزارت دفاع اور داخلہ کو جماعت اسلامی کے خلاف بھڑکایا ہے۔ مدارس پر پابندی بھی اسی غلط فہمی کا شاخسانہ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد اسلام کو اس ’مہارت‘ کے ساتھ دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا ہے کہ خود بہت سے مسلمان بھی داڑھی، پردہ اور مدراس کو دہشت گردی کی علامت سمجھنے لگے ہیں۔
[email protected]
***

مُور
ہسپانیہ میں مسلمانوں کو مورMoor کہا جاتا تھا۔ اس خطاب کا بھی ایک تاریخی پس منظر ہے اور وہ کچھ اس طرح کہ جب 711ہجری میں مسلمان جبل الطارق کے راستے جزیرہ نمائے آئیبیریا Iberia میں داخل ہوئے تو لڑائی کے بعد نماز کےلیے صف بندی ہوئی۔ شکست خوردہ کیتھولک سپاہی بہت اشتیاق سے مسلمانوں کو باجماعت نماز پڑھتے دیکھ رہے تھے۔ نماز کے بعد کچھ سپاہیوں نے اپنے پادری سے اس ’انوکھے‘ انداز عبادت کا ذکر کیا پادری صاحب اپنی شکست پر پہلے ہی صدمے میں تھے، اس سوال پر جھلاگئے اور بولے یہ موروں (کافروں) کی عبادت ہے۔ قدیم سریانی اور لاطینی میں زندیق یا کافر کو مور کہتے تھے۔ جیسے ہمارے یہاں فروعی اختلاف پر لوگوں کو ’بدعتی‘ اور ’بد مذہب‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد سے ہسپانیہ میں مسلمانوں کا نام ہی مور پڑگیا۔ اس وقت کے مسلمان تھے بھی اہل ذوق چنانچہ انھوں نے ’کافر‘ خطاب کو اپنی تعریف جانا اور لفظ مور انکی شناخت بن گیا بلکہ انھوں اپنے ملکوں کا نام بھی اسی مناسبت سے مراکش اور موریطانیہ رکھ دیا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا  3 اپریل 2021