سرزمین پنجاب میں انقلاب کی ایک نئی تاریخ رقم

مالیرکوٹلہ میں شہریتی ترمیمی قانون کے خلاف ایک لاکھ سے زیادہ سکھوں، ہندوؤں، دلتوں اور مسلمانوں نے عظیم الشان ریلی نکالی ہماری لڑائی آئین کو بچانے کی لڑائی ہے: ہرش مندر | انگریزوں کے وفا دار آج ہم سے وفا داری کا ثبوت مانگ رہے ہیں: جوگندر سنگھ

ساجد اسحاق

مالیرکوٹلہ (16 فروری)— آج پنجاب کے مالیرکوٹلہ شہر میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ایک مہا ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔ سی اے اے کے خلاف اس پزور احتجاج نے تحریک آزادی کی یادیں تازہ کردیں۔ یہ ریلی جماعت اسلامی ہند حلقہ پنجاب نیز 12 کسان تنظیموں اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی پنجاب کی مشترکہ کوششوں سے منعقد کی گئی تھی، جس میں ایک لاکھ سے زیادہ مرد و خواتین نے حصہ لیا۔ اطلاعات کے مطابق ریلی میں مسلمانوں سے زیادہ سکھ، ہندو، اور دلت برادران نے شرکت کی جو پورے پنجاب سے آئے تھے۔ ’انقلاب زندہ باد‘، ’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘،’ہندو مسلم کو لڑنے نہیں دیں گے، سن 47 بننے نہیں دیں گے‘ جیسے نعروں سے مقامی اناج منڈی کا وسیع و عریض میدان گونج رہا تھا۔
اس موقع پر ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سابق آئی اے ایس افسر اور مشہور مصنف اور سماجی کارکن ہرش مندر نے کہا: ’’میں نے انسانیت کا ایسا پر خلوص منظر پہلی بار دیکھا ہے جس میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ آج مالیرکوٹلہ سے تحریک انسانیت کا آغاز ہو چکا ہے جس میں سچ کی آواز بلند کرنے اور کالے قانون کے خلاف لڑائی لڑنے کی پوری طاقت ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا جمع ہونا عوامی بیداری کی علامت ہے۔‘‘
ہرش مندر نے مزید کہا :’’دلی کے شاہین باغ میں سکھ وفود کا جانا محبت کے پیغام کی علامت ہے۔ ہماری جو بہنیں شاہین باغ میں احتجاج پر بیٹھی ہیں وہ ظلم کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ گاندھی جی نے ہمیں یہی راستہ دکھایا ہے۔ اس لڑائی میں ہمیں مایوس نہیں ہوناہے، انگریزوں نے ایک بھگت سنگھ کو پھانسی دی تھی، آج ہزاروں بھگت سنگھ سڑکوں پر ہیں اور آئین کی حفاظت کے لیے سڑکوں پر ڈٹے رہیں گے۔‘‘

کسان یونین کے ریاستی صدر جوگندر سنگھ اُگراہاں نے کہا کہ برسر اقتدار پارٹی کے لیڈر شہریوں کے خلاف جس زبان کا استعمال کرتے ہیں، وہ غیر مہذب ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’بھگت سنگھ والی آزادی کے سبھی متوالے ہیں، آزادی کے نعرے لگانے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لوگ غدار ہیں۔  آزادی کی لڑائی میں بھگت سنگھ اور اشفاق اللہ خان سمیت ہزاروں سکھوں اور مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذارانے پیش کیے۔ جبکہ ساورکر جیسے لوگ انگریزوں سے معافی مانگ رہے تھے۔ افسوس کہ آج انگریزوں کے وفادار ہم سے وفاداری کا ثبوت مانگتے ہیں۔‘‘
مفتی ارتقاءالحسن کاندھلوی نے کہا کہ ملک اور اس کےآئین کی حفاظت کی خاطر تمام ہندوستانی ایک ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چپ رہنے سے ظلم کی حمایت ہوتی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے روک دیا جائے۔
ریلی کے شرکاء کا پرجوش استقبال کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے حلقہ پنجاب کے امیر جناب عبدالشکور نے ایسے مستقبل کی امید ظاہر کی جہاں تمام لوگ محبت اور بھائی چارے کے ساتھ رہیں، جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور انسانیت کا بول بالا ہو۔ انھوں نے ہندو راشٹر کو ملک کے عوام کے لیے خطرہ قرار دیا۔

اس موقعے پر شہید اعظم بھگت سنگھ کے بھانجے پروفیسر جگمہوہن سنگھ بھی موجود تھے۔ انھوں نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے آزادی، مساوات اور بھائی چارے کو آئین کی اساس قرار دیا۔ ’’مالیرکوٹلہ اس بھائی چارے کی بہترین مثال پیش کرتا ہے جہاں مشترکہ تہذیب و تمدن فروغ پار ہا ہے اور تمام مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ یہ لڑائی صرف مسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ آئین کو بچانے کے لیے ملک کے ہر طبقے کی لڑائی ہے۔‘‘
کسان تنظیموں کے رہنماؤں نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام اقلیتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوچکی ہیں اور اپنے حقوق کے حوالے سے بیدار ہیں۔ انھوں نے قرار داد منظور کی کہ وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اس وقت تک اپنی جد جہد جاری رکھیں گے جب تک کہ مرکزی حکومت اسے واپس نہیں لے لیتی۔
ریلی کے منتظمین نے اعلان کیا کہ کالے قانون کے خلاف آئندہ ہفتہ یعنی 24 فروری تا 29 فروری ’احتجاجی ہفتہ‘ کے طور پر منایا جائے گا۔
مذکورہ احتجاجی ریلی میں بھارتیہ کسان یونین ایکتا کے صدر بوٹا سنگھ برج، ٹیکسٹائل ہوزری کے صد راجوندر سنگھ، نیز کسان سنگھرش کمیٹی پنجاب، کھیت مزدوریونین، پنجاب اسٹوڈنٹس یونین، پنجاب اسٹوڈنٹس للکار گروپ، انقلابی مزدور کیندر، نوجوان بھارت سبھا کے رہنما بھی شریک تھے۔