زرعی قوانین: سپریم کورٹ کے ذریعے تشکیل دی گئی کمیٹی کے تمام ممبران ترمیم کے ساتھ قوانین کے حق میں ہیں، کسان یونینوں کا کہنا ہے کہ وہ احتجاج جاری رکھیں گے

نئی دہلی، 12 جنوری: متنازعہ زرعی قوانین پر تعطل کو حل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے ذریعہ ایک کمیٹی تشکیل دینے کے تھوڑی دیر بعد ہی کسان یونینوں نے کہا ہے کہ وہ اس پینل کا حصہ نہیں بنیں گے جس میں ’’صرف سرکاری لوگ‘‘ شامل ہیں۔

بھارتیہ کسان یونین لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا کہ کمیٹی میں ایسے افراد نہیں ہیں جو احتجاج کرنے والے کسانوں کے نقطہ نظر کی نمائندگی کرسکیں۔ کسان یونینیں اپنا احتجاج جاری رکھیں گی۔

ٹکیت نے کہا کہ 41 کسان یونین اس وقت سپریم کورٹ کے حکم پر تبادلہ خیال کررہی ہیں اور مناسب جواب کے ساتھ سامنے آئیں گی۔

اطلاعات کے مطابق تشکیل دی گئی کمیٹی کے چاروں ممبروں پر ایک نظر ڈالنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ سب، کچھ ترامیم کے ساتھ زرعی قانون کے نفاذ کے حق میں ہیں۔

زرعی ماہر معاشیات اشوک گلاٹی زرعی منڈیوں کی بے ضابطگی کے سب سے زیادہ حامی ہیں اور انھوں نے استدلال کیا ہے کہ برسوں سے اس معاملے پر بحث ہورہی ہے۔

پی کے جوشی نے گزشتہ دنوں مضامین لکھے تھے جن میں کسانوں کے طویل احتجاج پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ مرکزی حکومت نے مظاہرین کے خدشات کو ختم کرنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں کی ہیں۔

پینل میں موجود دو کسان لیڈر، بھوپیندر سنگھ مان اور مہاراشٹر میں مقیم شیتکری سنگٹھن کے انیل گھاونت نے دسمبر کے وسط میں وزیر زراعت این ایس تومر سے ملاقات کی تھی اور مظاہرین کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ ترامیم کے ساتھ ان قوانین پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا تھا۔

احتجاج کرنے والی کسان یونیوں کا کہنا ہے کہ نئے زرعی قوانین کی منسوخی کے ان کے بنیادی مطالبہ کو کوئی ایسی کمیٹی نہیں حل کرسکتی جس کے ممبران قوانین کے حامی ہوں اور ان کی منسوخی کے خلاف ہوں۔