رد باطل کے مفسر مولانا ابو محمد عبدالحق حقانی
مطالعہ ادیان اور دعوتی کام میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے خاص تفسیر
ڈاکٹر سید وہاج الدین ہاشمی
مولانا عبد الحق حقانی بن محمد امیر حنفی ؒ صوبہ پنجاب کے شہر انبالہ کے قریب ’’کمتھلہ‘‘ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اردو جامع انسائیکلو پیڈیا میں آپ کی تاریخ پیدائش مئی ۱۸۴۹ء لکھی ہے۔ آپ کے بزرگ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں کابل سے ہندوستان آئے تھے۔ ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد کانپور منتقل ہوئے اور وہاں پر انہوں نے مولانا عبد الحق بن غلام رسول حسینی کانپوری اور مولانا لطف اللہ بن اسد اللہ کوئلی سے بعض درسی کتابوں کی تعلیم حاصل کی پھر مراد آباد جا کر مولانا عالم علی شاہ سے صحاح کی بعض کتابیں پڑھیں۔ مراد آباد کے بعد دہلی میں بالخصوص محدث سید نذیر حسین دہلوی سے بھر پور استفادہ کیا اور اس طرح تعلیمی سفر کی تکمیل کر کے مدرسہ فتح پوری دہلی سے بحیثیت مدرس وابستہ ہو گئے اور وہاں طویل عرصہ تک اپنے فیوض وبرکات سے امت کو مستفیض کرتے رہے۔ پھر تدریس کو ترک کرکے تصنیف وتالیف میں مشغول ہوگئے۔
مولانا عبدالحق حقانی کو نظام الملک آصف جاہ میر محبوب علی خاں بہادر کے عہد اقتدار میں حیدرآباد سے وظیفہ جاری کیا گیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کے مولانا عبدالحق حقانی کو یکسوئی کے ساتھ تصنیف وتالیف میں مصروف ہونے کا موقع مل گیا اور پھر آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کیں۔ آپ کی تصانیف یہ ہیں: (۱) التعلیق النامی علی الحسامی (۲) عقائد اسلام (اردو) (۳) البرہان فی علوم القرآن (اردو) (۴) فتح المنان فی تفسیر القرآن وغیرہ۔
آپ بڑے ہی خوش مزاج اور شیریں دہن تھے۔ مولانا کو صرف دینی علوم پر ہی نہیں بلکہ دوسرے علوم پر بھی غیر معمولی دسترس حاصل تھی۔ ساتھ ہی غلط نظریات کے حامل افراد سے بحث ومباحثہ میں مدلل اور مسکت جواب دینے میں مہارت رکھتے تھے۔ آپ کے علمی مقام ومرتبہ کی وجہ سے پورے ہند میں آپ کی شہرت پھیل گئی اور پھر حکومت برطانیہ کی جانب سے شمس العلماء کے لقب سے ملقب کئے گئے۔
مولانا حقانی نے اردو میں قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر فتح المنان فی تفسیر القرآن کے نام سے تالیف کی جو ’’تفسیر حقانی‘‘ کے نام سےمشہور ومعروف ہے جس کا شمار اردو کی مستند تفسیروں میں ہوتا ہے۔ یہ ترجمہ وتفسیر پہلی بار مطبع مجتبائی دہلی سے مکمل آٹھ جلدوں میں ۱۳۱۸ھ /۱۹۰۰ء میں منصئہ شہود پر آئی۔ تفسیر فتح المنان معروف بہ تفسیرِ حقانی کے ساتھ یہ ترجمہ ۸ جلدوں میں شائع ہوا۔ اس ترجمے کے اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ مولانا حقانی نے ۹۰۰ صفحات پر محیط یہ تفسیر ۶۰ سال کی عمر میں صرف ۴ مہینے کی قلیل مدت میں اردو کے تشکیلی عہد میں قلم بند کی تھی۔
مولانا کے دور میں الحاد ودہریت کے ہلاکت خیز طوفان نے اسلام کے متعلق بے شمار شکوک وشبہات پیدا کر دیے تھے اور اسلام سے عدم واقفیت کے نتیجے میں مسلمان اس سے متاثر ہوکر الحاد ودہریت کے فتنہ کا شکار ہو رہے تھے۔ مولانا نے ان پر آشوب حالات میں اپنی تصانیف کے ذریعہ اسلام کی حقانیت کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا۔
آپ کی یہ تفسیر آپ کے علمی کمال کی ایک شاہکار ہے۔ وجہ تصنیف بیان کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں: ’’علوم قرآنی کی نشر واشاوعت کا اثر یہ ہوا کہ ہر طرف اسلام کا نور پھیل گیا۔ ہندوستان میں بھی صدیوں تک دین اور علوم دین کا چرچا رہا۔ یہاں تک کہ سات سمندر پار سے فرنگی اس سرزمین میں وارد ہوئے تو وہ اپنے ساتھ الحاد اور گمراہی کے سامان بھی لائے۔ مسلمانوں کے باہمی تفرقہ سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے ان میں بھی بگاڑ پیدا کر دیا اور ایک ایسا گروہ ان میں پیدا ہوا جو برائے نام مسلمان ہے اور اسلام کے بنیادی اصولوں سے روگردانی اختیار کئے ہوئے ہے۔ یہ گروہ دوسروں پر بھی اپنا اثر ڈال کر ان کو بھی خراب کر رہا ہے۔ اس لیے مفسر نے ضروری سمجھا کہ قرآن کریم کی اردو میں تفصیلی تفسیر لکھیں تاکہ مسلمان قوم دین کے اصولوں کو سمجھے اور اپنے دین کی طرف مائل ہو۔‘‘(۱) اس تفسیر کے شروع میں مصنف نے تقریبا (۲۱۲) صفحات پر مشتمل تفصیلی مقدمہ تحریر کیا ہے جس کو تین ابواب اور ایک خاتمہ پر تقسیم کیا ہے۔ ہر باب کئی فصلوں پر مشتمل ہے۔ اس میں مصنف نے الوہیت و وحدانیت، نبوت کی ضرورت، وحی اور الہام کی حقیقت وضرورت، معجزات کی حقیقت وضرورت، کرامت وغیرہ کی تحقیق، عالم ملکوت، عالم جن کے وجود کے دلائل اور اس کی تفصیل، ملائکہ وجن وشیاطین کی حقیقت نیز عالم ملکوت اور عالم جن کے سلسلہ میں فلاسفہ، پادریوں اور بالخصوص سر سید کے غلط نظریات کی تردید کو مفصل ومدلل تحریر کیا ہے۔ اسی ضمن میں الوہیت مسیح، تثلیث اور یہود ونصاری کے دیگر باطل عقائد پر بھی کاری ضرب لگائی ہے۔ مقدمہ میں نزول قرآن اور جمع قرآن کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ باب دوم میں آٹھ فصلیں ہیں اور باب سوم میں پانچ فصلیں ہیں۔ باب سوم میں کتب سابقہ کی تحقیق و تفصیل اور ان کے حوالے سے شکوک وشبہات کے مدلل جوابات مذکور ہیں۔ خاتمہ پر معتبر تفاسیر کا تعارف اختصار کے ساتھ لکھا ہے اور کسی تفسیر کے معتبر ہونے کا قاعدہ کلیہ بھی ذکر کیا ہے۔
اس تفسیر میں مولانا حقانی نے قرآن وحدیث اور فقہ کے علاوہ مختلف علوم جیسے تاریخ، جغرافیہ، سائنس وغیرہ پر مدلل بحث بھی کی ہے۔ کلامِ ربانی کو لوگوں تک پہنچانا ترجمے اور تفسیر کے اس بنیادی مقصد کو انہوں نے ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھا ہے۔ وہ اپنے اس ترجمہ وتفسیر کے بارے میں لکھتے ہیں:
چونکہ کلام ربانی کا مقصد لوگوں کو سمجھانا تھا اس لیے اس میں چند امور کی رعایت کی گئی ہے:
۱۔ آیات میں ربط پر خاص توجہ
۲۔ شان نزول میں روایات صحیحہ نقل کی گئی ہیں۔
۳۔ کوئی حدیث بغیر سند کتب صحاح ستہ وغیرہ کے نہیں لی گئی۔
۴۔ اس تفسیر میں روایت کو کتاب وحدیث سے اور درایت کو اس فن کے علما ومحققین سے جمع کیا گیا ہے۔
۵۔ آیات احکام میں اول مسئلہ منصوصہ کو ذکر کر کے پھر اختلاف مجتہدین اور ان کے دلائل کی وضاحت کی ہے۔
۶۔ اعراب کی مختلف وجوہ میں سے جو مصنف کی نگاہ میں قوی تھی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔
۷۔ علم معانی وبلاغت وغیرہ کی اصطلاحات اور رموز نکات اور معانی وبلاغت کے متعلق نکات قرآنیہ پر بھی گفتگو ہے۔
۸۔ قصص میں جو کچھ روایت صحیحہ یا کتب سابقہ سے ثابت ہے یا خود قرآن میں جو کچھ وارد ہے اس کو بیان کر دیا ہے۔
۹۔ ہر ایک آیت کے مشکل الفاظ کے معنی اور اردو میں پوری تشریح لکھنے کے بعد عام فہم تفسیر۔
۱۰۔ مخالفین کے شکوک وشبہات جس قدر تاریخی واقعاتی مبدا ومعاد کی بابت کئے جاتے ہیں سب کا الزامی اور تحقیقی جواب دیا گیا ہے۔
۱۱۔ تکرار، رطب ویابس اور کسی خاص مذہب کی تائید میں غلو سے اجتناب اور مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد قرآن مجید کی حقانیت کو واضح کیا گیا ہے۔
۱۲۔ بائبل اور دوسری مذہبی کتابوں سے تقابلی مطالعہ اور سرسید احمدخان کی فکری لغزشوں پر تنبیہ اس تفسیر کا خاص موضوع ہے۔
۱۳۔ منطق وفلسفہ سے استدلال فن مناظرہ کے مباحث
۱۴۔ علماء کرام اور عربی داں حضرات کے لیے آیات کی تفسیر سے پہلے ترکیب نیز، صرفی نحوی لغوی تشریح وتحقیق۔
۱۵۔ صوفیائے کرام کے فیوض وملفوظات اور تصوف کے اسرار ونکات کی باریکیاں۔
پیشِ نظر ترجمہ و تفسیر میں، مفسر نے آیات کا بامحاورہ ترجمہ کیا ہے لیکن ترجمہ الفاظ کے تابع محسوس ہوتا ہے۔ مفسر کا طریقہ یہ ہے کہ انہوں نے پہلے ایک یا ایک سے زائد آیات لکھنے کے بعد اس کا ترجمہ کیا ہے۔ ترجمے میں روانی اور تسلسل برقرار رکھنے کے لیے زائد الفاظ کا سہارا لیا گیا ہے جنہیں قوسین میں درج کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر صالحہ تفسیر حقانی کے ترجمہ اور زبان دانی پر اس طرح رقمطراز ہیں:
’’درحقیقت مولانا نے بڑے تواضع سے کام لیا ہے ورنہ ان مذکورہ نکات کے علاوہ تفسیر میں بے شمار بیش بہا باتیں شامل ہیں۔ ترجمہ میں مولانا نے مطلب واضح کرنے کے لیے بین قوسین عبارت بڑھا کر خوب ربط، تسلسل اور وضوح پیدا کیا ہے۔ طریقہ استدلال بھی خوب ہے اور بلحاظِ زبان دانی شستہ اور صاف اردو ہے۔ اسلوب عالمانہ ہوتے ہوئے بھی واضح اور آسان فہم ہے۔ دقیق علمی باتیں کرتے ہوئے بھی ان کی تشریح کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں تاکہ عوام بھی سمجھ سکیں لیکن نہایت دقیق اوثقیل علمی نکات کو لکھنے سے بھی نہیں چوکتے تاکہ علماء اور خواص بھی ان کے علم متبحر سے مستفید ہوسکیں۔ ترجمہ ایک با ربط عبارت معلوم ہوتا ہے جس سے اس میں جاذبیت پیدا ہوگئی ہے‘‘۔(۳)
سرسید کا ادیبانہ مقام و مرتبہ ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن مولانا حقانی نے اپنی اس عظیم الشان تفسیر میں زبان و بیان کے میدان میں انہیں بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر حمید شطاری لکھتے ہیں:
’’مولوی عبدالحق نے ترجمہ و تفسیر دونوں میں بڑی دقت نظر کا ثبوت دیا ہے ان کی زبان بہت شستہ ہے اور بہت بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں۔۔اسلوب کی فنی کوتاہی کے باوجود مفسر کی قدرت بیان قابلِ تعریف ہے۔ اس علمی کارنامے کا تعلق اس زمانے سے ہے جبکہ سر سید کے ہاتھوں جدید اردو نثر کا آغاز ہوا تھا۔ خود سر سید نے بھی تفسیر قلمبند کی ہے۔ لیکن ان دونوں تفاسیر کے تقابلی مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولوی عبدالحق نے بلحاظ انداز واسلوب سر سید کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ سر سید خود صاحبِ طرز نثر نگار تھے اور جدید نثر کا آغاز ان ہی کی مرہونِ منت ہے‘‘ ۔(۴)
دائرہ معارف اسلامیہ میں اس تفسیر کے متعلق لکھا ہے :
’’تفسیرِ حقانی نے بڑی شہرت پائی ہے۔ تفسیرِ حقانی ترجمہ آیات، بیان شانِ نزول، ترکیب نحوی، تفسیر، تفصیل و حواشی پر مشتمل ہے۔ مسائل تصوف، واعظانہ انداز اور مناظرانہ اسلوب کی وجہ سے کتاب نے بڑی مقبولیت حاصل کی ہے‘‘۔(۵)
تبلیغ دین اور اشاعت اسلام سے مولانا عبدالحق حقانی کو خاص شغف تھا یہی وجہ تھی کہ آپ نے ندوۃ العلماء لکھنئو میں ایک تبلیغی شعبہ قائم کرنے پر زور دیا تھا۔ اس کے علاوہ مولانا نے ملکانہ راجپتوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے ’انجمن ہدایت الاسلام‘ کے نام سے ایک انجمن قائم کی تھی جس کے ذریعہ ذی علم اور صاحب ایثار مبلغین کو تعلیم اور خاص خاص مواضع میں مکاتب قائم کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، تاکہ اپنی قوم کو ارتداد سے بچایا جاسکے۔ اسی انجمن کی سرپرستی میں مولانا حقانی نے ایک ہفتہ وار اخبار ’الہدایت‘ جاری کیا تھا جس میں مخالفین اسلام کے جوابات کے علاوہ انجمن ہدایت الاسلام کی خدمات، مبلغین کی رپورٹوں کا خلاصہ وغیر شائع کیا جاتا تھا۔ مولانا کو فن مناظرہ میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ مولانا نے رد آریہ اور رد عیسائیت میں بہت رسائل تصنیف کیے۔ اس تفسیر کی اہمیت کا اندازہ مولانا اشرف علی تھانوی کے اپنی تفسیر کے مقدمہ سے لگایا جا سکتا ہے ، مولانا لکھتے ہیں:
’’چونکہ احقر کو مباحث متعلقہ، کتب سماویہ سابقہ پر بالکل نظر نہیں ہے اس لیے اپنے مضامین کو تفسیر حقانی سے نقل کر دیا گیا ہے‘‘۔(۶) مولانا عبدالماجد دریابادی نے بھی اسے مذاہب غیر سے مناظرہ کرنے والوں کے لیے مفید بتایا ہے۔
غرض یہ کہ اسلام کے متعلق جن شکوک وشبہات کو مستشرقین اور نام نہاد روشن خیالیوں نے پیدا کیا ہے تفسیر حقانی کا مطالعہ آج بھی ان تمام کو مسکت جواب دینے میں مفید ثابت ہوتا ہے۔بالخصوص دعوتی کام انجام دینے والوں کو اس سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔
حوالے:
۱۔ تفسیر حقانی ۔ص۔۲/۲
۲۔ محمدعبد الحق حقانی ، مقدمہ،تفسیر حقانی ، میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی
۳۔ ڈاکٹر صالحہ اشرف ،قرآن حکیم کے اردو تراجم،ص۔ ۲۱۸
۴۔ ڈاکٹر حمید شطاری، قرآن مجید کے اردو تراجم و تفاسیر کا تنقیدی مطالعہ ۱۹۱۴ء تک،ص۔ ۴۶۱۔۴۶۲
۵۔ دائرہ معارف اسلامیہ ،جلد چہارم ۔ص۔ ۵۳۵
۶۔ مولانا اشرف علی تھانوی، مقدمہ ، ترجمہ وتفسیر بیان القرآن۔
***
ترجمہ میں مولانا نے مطلب واضح کرنے کے لیے بین قوسین عبارت بڑھا کر خوب ربط، تسلسل اور وضوح پیدا کیا ہے۔ طریقہ استدلال بھی خوب ہے اور بلحاظِ زبان دانی شستہ اور صاف اردو ہے۔ اسلوب عالمانہ ہوتے ہوئے بھی واضح اور آسان فہم ہے۔ دقیق علمی باتیں کرتے ہوئے بھی ان کی تشریح کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں تاکہ عوام بھی سمجھ سکیں لیکن نہایت دقیق اوثقیل علمی نکات کو لکھنے سے بھی نہیں چوکتے تاکہ علماء اور خواص بھی ان کے علم متبحر سے مستفید ہوسکیں
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021