رام مندر:ہوتا ہے کچھ کام نہ دھندا ، لاوچندہ لاو چندہ
رام مندر کی تعمیر کو ’ تاریخی غلطی کی اصلاح ‘قرار دینا جاوڈیکر کاتاریخی جھوٹ
ڈاکٹر سلیم خان
انسان اگر کذب گوئی پر اتر آئے تو کتنا جھوٹ بول سکتا ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماوں کی جانب ایک نگاہِ غلط ڈال لینا کافی ہے۔ ویسے تو کسی بھی معاملہ میں بی جے پی کے اندر کوئی اور رہنما وزیر اعظم کا ہمسر نہیں ہے اس لیے ان کی مانند ڈھٹائی سے جھوٹ بھی کوئی اور نہیں بول سکتا۔ مثلاً انہوں نے اعلان کر دیا کہ چینی ہماری سرحد میں داخل ہی نہیں ہوئے۔ ایسا کھلا جھوٹ بولنے کی تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن مودی ہے تو ممکن ہے۔ بی جے پی میں پردھان سیوک کے بعد دوسرے نمبر کی پوزیشن کے لیے رسہ کشی جاری رہتی ہے۔ عام طور پر امیت شاہ سب پر بازی لے جاتے ہیں لیکن کبھی کبھار پرکاش جاوڈیکر جیسے وزیر اطلاعات و نشریات بھی وزیر داخلہ کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر نے پچھلے دنوں بابری مسجد پر ایک نہایت متنازع بیان دے کر ایسی ہی گھناونی حرکت کر دی جب انہوں کہہ دیا کہ 6 دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسندوں کے ایک گروہ نے ایودھیا میں بابری مسجد پر حملہ کر کے اور اسے مسمار کر کے ایک ’’تاریخی غلطی‘‘ کو درست کیا۔
6 دسمبر 1992 کو تاریخی غلطی کی گئی یا غلطی کی اصلاح کی گئی اس کا فیصلہ تو اس عدالت نے بھی کر دیا جس نے حکومت کے اشارے پر بابری مسجد کی زمین رام مندر بنانے کے لیے دے دی۔ آگے چل کر یہ بات بھی ظاہر ہو گئی کہ ایوانِ بالا کی نشست کے بدلے یہ سودے بازی ہوئی تھی اور اس فیصلے کو کرانے کی خاطر چیف جسٹس کی نفسانی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر انہیں بلیک میل بھی کیا گیا تھا۔ گویا پہلے ہنٹر چلایا گیا اور پھر گاجر دکھا کر رام کرلیا گیا لیکن اس ہنٹر اور گاجر کے کھیل میں عدالت کے اندر انصاف کا رام نام ستیہ ہوگیا۔ منہ میں رام رام بغل میں چھری رکھنے والے جج صاحبان نے جو کیا سو کیا مگر اب بی جے پی کے رہنما اسی چُھری سے سماج میں نفرت پھیلا کر اس کی تکا بوٹی کر رہے ہیں۔ جاوڈیکر نے دعویٰ کیا کہ بابری مسجد مغل بادشاہ بابر کے عہدیداروں نے ایک ہندو مندر کو منہدم کرنے کے بعد تعمیر کروائی تھی۔ یہ بات نہ صرف حقیقت بلکہ اس فیصلے کے بھی خلاف ہے جس کا حوالہ وزیر موصوف دے رہے تھے لیکن اگر جھوٹ ہی بولنا ہے تو شرم و حیا کیسی؟ جتنا مرضی ہو جھوٹ بولو۔
ہٹلر کے دست راست گوبلز کی مانند وزیر اطلاعات و نشریات اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ایک جھوٹ کو ہزار بار دہرایا جائے تو وہ سچ لگنے لگتا ہے۔ اس کام کے لیے جانب دار میڈیا کو پال پوس کر تیار کیا گیا ہے۔ وہ تردید تو دور جھوٹ پر سوال بھی نہیں اٹھاتا۔ اپنے آقا کی آواز (ہز ماسٹرس وائس) کو سعادتمند پِلّے کی مانند ساری دنیا میں بھونک بھونک کر پہنچاتا رہتا ہے اور بار بار دہراتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ سچ لگنے لگتا ہے۔ جہاں تک عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا سوال ہے اس میں یہ بات تو تسلیم کی گئی ہے کہ محکمہ آثارِ قدیمہ کو کھدائی کے دوران مسجد کے نیچے سے کسی قدیم مندر کے آثار ملے لیکن وہ رام مندر تھا اس کی توثیق نہیں ہوئی۔ زیرِ زمین آثار کی عمر کا کاربن ڈیٹنگ سے پتہ لگایا گیا تووہ بابری مسجد کی تعمیر سے بہت پہلے کی عمارت تھی۔ نوادرات کا معائنہ کرنے والے ماہرین کے مطابق وہ بودھ وہار کے نقوش ہیں۔ اس لیے یا تو اسے زمانۂ قدیم میں ہندو انتہا پسندوں نے اسی طرح منہدم کر دیا ہوگا جس طرح کہ عصرِ جدید میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا کیونکہ ان لوگوں کی یہی پرمپرا ہے یا وہ از خود کھنڈر بن کر زمین میں دھنس گئی ہوگی۔
اس طرح عدالت عظمیٰ نے یہ تسلیم کیا کہ کسی مندر کو توڑ کر بابری مسجد کی تعمیر نہیں کی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ دین اسلام کسی کی عبادت گاہ کو پامال کرکے اس پر اپنی مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ویسے بابر کے سپہ سالار میر باقی کو اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اس کو اس طرح کا تنازع کھڑا کر کے انتخاب تو جیتنا نہیں تھا۔ آس پاس کی خالی زمین پر بابری مسجد کی تعمیر سے کوئی روکنے والا بھی نہیں تھا۔ بابر کس قدر صلح پسند بادشاہ تھا اس کے حوالے ان کی سوانح بابر نامہ میں موجود ہیں۔ ایسے میں مرکزی وزیر کے اس دعویٰ سے نامعقول کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی کہ ’’جب بابر ہندوستان آیا تو اس نے ایودھیا میں رام مندر کو منہدم کرنے کا انتخاب کیا کیوں کہ وہ سمجھ گیا تھا کہ ملک کی زندہ طاقت وہاں آرام کر رہی ہے‘‘
بابر تو دور رام چرت مانس کے مصنف اور عظیم رام بھکت تلسی داس نے اسی زمانے میں یہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف میں بھی رام مندر کے انہدام کا ذکر نہیں کیا۔ انگریزوں کے زمانے میں بابری مسجد کے برآمدے میں واقع ہنومان گڑھی اور سیتا کی رسوئی پر تنازع کھڑا کیا گیا تھا جسے انگریزوں نے خاردار تار لگا کر مسجد سے الگ کر دیا۔ سنگھ پریوار نے ایک جھوٹ کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنے کی خاطر رام مندرکی بدنامِ زمانہ تحریک چلائی اور اپنے گھناونے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ سنگھ کے لیے کسی مثبت بنیاد پر ہندووں کو متحد نہیں کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے اس نے مسلمانوں کی دشمنی پر ایک مصنوعی اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی جس میں اسے عارضی کامیابی مل گئی۔ مرکزی وزیر جاوڈیکر نے یہ احمقانہ دعویٰ بھی کر دیا کہ مبینہ طور پر مندر کو تباہ کرنے کے بعد تعمیر شدہ متنازعہ ڈھانچہ ’’مسجد نہیں تھا کیوں کہ وہاں عبادت نہیں ہوئی تھی‘‘ اس مختصر سے جملے میں انہوں نے تین جھوٹ جمع کر دیے۔ پہلی بات تو وہ متنازعہ ڈھانچہ نہیں تھا بلکہ مسجد کی شہادت کے بعد وہاں ہونے والی ہر سرگرمی متنازعہ ہے۔ دوسرا جھوٹ یہ ہے کہ وہ مسجد نہیں تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ مسجد نہیں تھی تو کیا تھی؟ جاوڈیکر کے پاس اس کے مسجد نہیں ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہاں عبادت نہیں ہوتی ہے۔ یہ بات کسی مندر کے بارے میں تو کہی جا سکتی ہے کہ اگر مندر میں موجود مورتی کو بھوگ نہ چڑھایا جائے تو وہ زندہ نہیں رہتی حالانکہ وہ معاملہ مورتی کا نہیں اس کے پجاری کا ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر بابری مسجد کا قفل کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی لیکن مسجد پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مسجد میں کوئی بھوگ نہیں چڑھایا جاتا بلکہ خدائے واحد کی پرستش ہوتی ہے۔ اس لیے عبادت کا سلسلہ منقطع ہو جانے پر بھی اس کی وہی حیثیت برقرار رہتی ہے۔
ہندوستان کے کئی مندر ایسے ہیں جو سال بھر میں کسی خاص دورانیہ میں عوام کے لیے کھولے جاتے ہیں اور پھر ان کو بند کر دیا جاتا ہے۔ مسجد کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ سال بھر عوام کے لیے کھلی رہتی ہے اور اس کے اندر دن میں پانچ بار نماز ادا کی جاتی ہے۔ عدالت نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ رام مندر کے اندر سے رام للا کی مورتیوں کے نمودار (پرکٹ) ہونے کا دعویٰ غلط ہے۔ وہاں رات کی تاریکی میں چوری سے مورتیاں رکھ دی گئی تھیں۔ جس شب یہ گھناونی حرکت کی گئی اس کی صبح بھی وہاں نمازِ فجر ادا کی گئی۔ نماز کو آنے والے لوگوں نے ہی ان مورتیوں کو دیکھا۔ وہاں پر موجود ہندو چوکیدار نے مورتی رکھے جانے کی شکایت درج کرائی۔ اس لیے یہ کہنا کہ وہاں عبادت نہیں ہوتی تھی سراسر بہتان طرازی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ لکھا ہے کہ وہاں پر مورتیاں رکھ کر مسلمانوں کو عبادت کرنے سے روکنا غیر آئینی اور شہریوں کی حق تلفی تھا۔ اس طرح گویا عدالت نے اس نا انصافی کو تسلیم تو کیا لیکن کسی کو اس کا سزاوار نہیں ٹھہرایا اس لیے کہ اس کی خاطر ضروری جرأت کا فقدان تھا۔
بی جے پی رہنما کا یہ بیان گمراہ کن ہے کہ رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دنیا بھر کے انصاف پسندوں نے اس نہایت غیر منطقی فیصلہ کی کھل کر تنقید کی۔ اس لیے کہ وہ عقیدے کی بنیاد پر کیا گیا تھا جبکہ عدالت اس سے پہلے کئی بار کہہ چکی تھی کہ قطعہ اراضی کی ملکیت کا مقدمہ ہے۔ سابق جج دیپک مشرا نے بھی جاتے جاتے یہی کہا تھا کہ اس مقدمہ کا آستھا یا عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن جسٹس رنجن گگوئی نے اپنے پیش رو سے انحراف کر کے تمام شواہد کے خلاف فیصلہ سنا کر، ایوان بالا کی رکنیت کے عوض ہندو فرقہ پرستوں کو خوش کر دیا۔ پرکاش جاوڈیکر کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا میں ان جیسے چند اندھے بھکتوں کے علاوہ بہت سارے انصاف پسند لوگ بھی رہتے بستے ہیں اور وہ سب اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں۔
پرکاش جاوڈیکر کے بدبختانہ بیان پر کہ 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں ایک تاریخی بھول سدھاری گئی رکن پارلیمان اسدالدین اویسی کا سوال جائز ہے کہ اس بات کو عدالت میں کیوں قبول نہیں کیا گیا؟ سی بی آئی عدالت کے اندر سزا کے خوف سے کوئی رہنما اس جرم کی ذمہ داری لینے کی ہمت نہیں کرسکا۔ اویسی نے پوچھا کہ ’آپ نے اتنے فخر سے اس بات کو عدالت میں کیوں نہیں قبول کیا‘۔ انہوں نے یاد دلایا کہ سپریم کورٹ یہ کہہ چکا ہے کہ مندر توڑ کر مسجد بنائے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور مسجد کو گرانا گویا قانون توڑنا تھا۔ عدالت نے 6 دسمبر 1992 کو ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن بھی قرار دیا۔ سی بی آئی عدالت کو کہنا پڑا کہ بابری مسجد شہادت میں کسی سازش کا ثبوت نہیں ہے کیونکہ ایک سازش کے تحت سارے شواہد چھپا دیے گئے تھے لیکن عدم ثبوت کی بنا پر چھوٹ جانے سے کوئی بے قصور نہیں ہو جاتا۔
سرکار کے ذریعہ سارے معاملے کو رفع دفع کر دیے جانے کے بعد جاوڈیکر کہتے ہیں ’’ہم ایک رات پہلے وہاں سو رہے تھے۔ (بابری مسجد) کے تین گنبد نظر آرہے تھے۔ اگلے دن دنیا نے دیکھا کہ ایک تاریخی غلطی کو کس طرح دور کیا گیا۔‘‘ سچ تو یہ ہے کہ اس دن ایک عظیم تاریخی غلطی کی گئی ہے جسے آگے چل بابری مسجد کی ازسرِ نو تعمیر سے سدھارا جائے گا۔ جاوڈیکر اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ رام ملک کو یکجا کرتے ہیں اور ملک کے اتحاد کی علامت ہیں۔ ابھی حال میں کولکاتہ کے اندر نیتا جی سبھاش چندر بوس کی ۱۲۵ ویں سالگرہ کے موقع پر جئے شریرام کے نعرے لگائے گئے تو ممتا بنرجی غصے سے آگ بگولا ہوگئیں اور اس کو اپنی توہین قرار دیا اس طرح وہاں پر انتشار پھیل گیا۔ رام کی شخصیت اگر ملک میں اتحاد کی علامت ہوتی تو رام کے پرم بھکت نریندر مودی کی موجودگی میں وہ ہنگامہ کیوں برپا ہوتا؟ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی ریڈلس آف ہندوازم میں رام اور کرشن کے باب جن لوگوں نے پڑھے ہیں وہ تو جاوڈیکر سے کسی صورت اتفاق نہیں کر سکتے کہ رام کی شخصیت مریادا پرشوتم ہے لیکن اندھے بھکتوں کا پڑھنے لکھنے سے کیا لینا دینا؟ جاوڈیکر کا دعویٰ ہے کہ رام جنم بھومی تحریک ملک کی خود اعتمادی کی تحریک تھی جبکہ ابھی حال میں جئے شری رام کے سبب خود سنگھ پریوار میں انتشار پیدا ہو گیا اور بی جے پی کے کئی رہنماوں نے اسے باہری عناصر کی حرکت قرار دے کر دامن چھڑا لیا۔ آر ایس ایس کی بنگال اکائی کے سکریٹری نے اس پر دشمنوں کی سازش ہونے کے شک کا اظہار کیا اور تفتیش کا مشورہ دیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چند ماہ قبل اتر پردیش کے اندر وکاس دوبے کے انکاونٹر نے راجپوت ونش کے شری رام کے مقابلے میں برہمن جاتی کے پرشورام کو ہیرو بنادیا تھا ۔ یہ ہے ان کے اتحاد کا حال۔ پرکاش جاوڈیکر نے اپنی تقریر میں سوال کیا کہ ’جب غیر ملکی حملہ آور آئے تو انہوں نے رام مندر کیوں توڑا؟‘ اور خود ہی اپنے سوال کا جواب دیا کہ ’ملک میں لاکھوں مندر ہیں، لیکن انہیں سمجھ میں آیا کہ اس ملک کی جان مندر میں ہے‘۔ اس بیان کو پڑھتے ہوئے وہ بچوں کی کہانی یاد آتی ہے جس میں شہزادی جان طوطے میں بند ہو جاتی ہے۔ یہ ملک کوئی شہزادی نہیں ہے بلکہ سنگھ پریوار نے ایک وقت میں ایسا محسوس کیا کہ اقتدار کی جان اس سونے کا انڈے دینے والی مرغی میں قید ہے اور پھر وہ اس کے انڈوں کو بیچ بیچ کر عوام کو بیوقوف بنانے کے دھندے میں لگ گئی۔ یہ کھیل اب بھی جاری ہے۔
پچھلی نصف صدی سے ایک مندر کی تعمیر کے لیے کروڑوں روپے چندہ جمع کیا گیا اور وہ کہاں چلا گیا یہ کوئی نہیں جانتا؟ لیکن یہ شیطان کی یہ آنت ہنوز ختم نہیں ہوئی ہے۔ پرکاش جاوڈیکر مندر کی تعمیر کے لیے ’’خوشی خوشی عطیہ‘‘ دینے پر شہریوں کا شکریہ ادا کرنا بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ مودی جی نے اس ملک کو ڈیجیٹل بنا دیا ہے اس لیے خوشی خوشی چندہ جمع کرنے کے لیے جلوس نکال کر عوام کو ڈرانے دھمکانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اگر عوام کو مندر سے عقیدت ہوتی تو چند گھنٹوں میں یہ رقم آن لائن جمع ہوجانی چاہیے تھی لیکن پھر بھکتوں کا پیٹ کیسے بھرتا۔ اس لیے سارے ملک میں رام نام کی لوٹ مچی ہوئی ہے۔ اس پر اکبر الٰہ بادی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
دھمکا کے بوسے لوں گا رخ رشک ماہ کا
چندہ وصول ہوتا ہے صاحب دباؤ سے
فی الحال گلی گلی شہر شہر رام مندر کی تعمیر کے بڑے بڑے بینر لگے ہوئے ہیں جن پر بی جے پی والے اپنی تصویر لگا کر سیاسی دوکان چمکا رہے ہیں۔ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اس کام کے لیے ہر گھر سے چندہ جمع کرنے کی خاطر چار لاکھ رضاکار 12 کروڑ خاندانوں سے رابطہ کریں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ رضاکار کون ہیں؟ ان کی تقرری کس نے کی؟ مندر تعمیر کا خرچ تقریبا ۳۰۰ کروڑ روپے ہے۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کہہ چکے ہیں کہ رام مندر تعمیر کے خرچ کی فکر نہ کریں۔ رام مندر تعمیر میں کسی طرح کی رکاوٹ نہیں آئے گی اور فنڈ پوری طرح سے دستیاب کرایا جائے گا۔ یوگی اگر اپنے اعلان پر قائم ہیں تو رام مندر کے نام پر یہ لوٹ مار عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسے میں چندہ جمع کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ یوگی اپنی بات سے مکر گئے ہیں یا پھر یہ رقم کارسیوکوں کی جیبوں میں جا رہی ہے۔
شیوسینا کے اخبار سامنا نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ 4 لاکھ رضاکار اگر کسی مخصوص پارٹی کے سیاسی پرچارک کی حیثیت سے گھر گھر جانے والے ہوں تو یہ مندر کے لیے اپنا خون بہانے والوں کی روحانی توہین ہے۔ سامنا لکھتا ہے مندر کی لڑائی سیاسی نہیں بلکہ ہندو جذبات کا مظہر تھی مگر بی جے پی ہندوتوا کی اس آگ پر پکی روٹیاں کھا رہی ہے۔ تقریباً ایک صدی قبل راشٹر نرمان (قوم کی تعمیر) کے لیے آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ان لوگوں نے خدمت خلق کے ذریعہ اس کام کو کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے تو سوچا کہ اقتدار کی طاقت کے بل پر ایسا کریں گے۔ اقتدار کے حصول کی خاطر دنیا بھر کی تخریب اور نفرت کی آگ بھڑکا کر یہ لوگ اقتدار پر قابض تو ہو گئے لیکن اب ان کی سمجھ میں یہ بات آچکی ہے کہ قوم کی تعمیر ان کے بس کا روگ نہیں ہے اس لیے اب یہ لوگ نعرہ لگا رہے ہیں کہ مندر کی تعمیر ہی قوم کی تعمیر ہے تاکہ کل کو اگر کوئی پوچھے کہ تم نے قوم کی تعمیر کہاں کی تو کہا جائے گا مندر کا نرمان ہی راشٹر کا نرمان تھا سو ہم نے کر دیا۔ اس لیے اب ہمیں پھر سے ووٹ دو۔ یہ عجب کھیل ہے کہ عوامی چندے سے 300 کروڑ روپوں کا مندر تعمیر ہوگا اور سرکاری خزانے سے 2000 کروڑ روپے خرچ کر کے نیا ایوان اور وزیر اعظم کا گھر تعمیر کیاجائے گا جس میں رام بھکت عیش کریں گے۔
***
بی جے پی رہنما کا یہ بیان گمراہ کن ہے کہ رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دنیا بھر کے انصاف پسندوں نے اس نہایت غیر منطقی فیصلہ کی کھل کر تنقید کی۔ اس لیے کہ وہ عقیدے کی بنیاد پر کیا گیا تھا جبکہ عدالت اس سے پہلے کئی بار کہہ چکی تھی کہ قطعہ اراضی کی ملکیت کا مقدمہ ہے۔ سابق جج دیپک مشرا نے بھی جاتے جاتے یہی کہا تھا کہ اس مقدمہ کا آستھا یا عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن جسٹس رنجن گگوئی نے اپنے پیش رو سے انحراف کر کے تمام شواہد کے خلاف فیصلہ سنا کر، ایوان بالا کی رکنیت کے عوض ہندو فرقہ پرستوں کو خوش کر دیا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021