عمارہ رضوان، نئى دہلى
اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے اکثر ہميں منفى خبريں سننے کو ملتى رہتى ہيں، ایسے ميں مغرب سے تازہ ہوا کا ايسا جھونکا آيا جس نے پورى روح کو معطر کر دیا ۔ چاليس سالہ رافعہ ارشد جو لندن ميں وکالت کى پريکٹس کرتى تھيں اور ساتھ ميں پريکٹسنگ مسلم خاتون کى حيثيت سے جانى جاتى تھيں، گزشتہ ہفتے انھوں نے ضلعى عدالت ميں ڈپٹى جج کى حيثيت سے حلف ليا اور اس طرح يو کے کى تاريخ ميں پہلى باحجاب خاتون جج بننے کا شرف حاصل کيا۔ حلف بردارى کے بعد رافعہ ارشد نے بڑے پُر اعتماد لہجے ميں کہا کہ ميں يہاں کى تمام مسلم خواتين کو يہ پيغام دينا چاہتى ہوں کہ وہ اپنى اسلامى شناخت کو باقى رکھتے ہوئے ہر کام کر سکتى ہيں اور ہر منزل کو حاصل کرسکتى ہيں، شرط يہ ہے کہ وہ خوب ديانت دارى اور محنت سے کام کريں، پھر کوئى منزل ان کے لیے ناقابل تسخير نہيں۔
رافعہ بتاتى ہيں کہ وہ جب گيارہ سال کى تھيں، اسى وقت سے انھوں نے وکالت کے پيشے کو اپنا مطمح نظر بنا ليا تھا، ليکن جيسے جيسے وہ بڑى ہوئيں، ان کو اس بات کا خدشہ ستانے لگا کہ کيا وہ اپنى شناخت کو باقى رکھتے ہوئے اپنى منزل کو حاصل کر پائيں گیں؟ اور ايسے ميں جب کہ ان کا تعلق اقليتى فرقےسے ہے۔
اپنے دل ميں عزائم کو پالتے ہوئے رافعہ نے تقريبا ً تيس سال کا عرصہ گزارا اور جب وہ چاليس سال کى ہوئيں تو ان کا مڈلينڈس سرکٹ کى ضلعى عدالت ميں ڈپٹى جج کى حيثيت سے تقرر عمل ميں آيا۔
سرکارى اعداد وشمار کے مطابق انگلينڈ اور ويلس کى نچلى عدالتوں ميں کل 3120 جج ہيں۔ جس ميں اقليت سے تعلق رکھنے والوں کا تناسب صرف 6% ہے اور خواتين کى مجموعى نمائندگى 31% ہے۔
برطانوى پورٹل "ميٹرو” کو ايک انٹرويو ديتے ہوئے رافعہ نے کہا کہ وہ برطانيہ کى کثير الجہات ثقافت کى نقيب بننا چاہتى ہيں اور ان کى خواہش ہے کہ برطانوى معاشرے کے ساتھ ساتھ پورے مغرب ميں ان کى آواز سنى جائے۔
انھوں نے مزيد کہا کہ يہ معاملہ ميرى شناخت سے بھى بڑا ہے، يہ صرف مسلم خواتين کامعاملہ نہيں ہے، يہ معاملہ ہر ايک کى آزادیِ رائے اور ثقافتى کلچر کى آزادى سے جڑا ہوا ہے، مگر بہرحال مسلم خواتين کے لیے اس معاملہ کى يک گونہ اہميت ہے۔
رافعہ نے کہا کہ جب سے بحيثيت جج ميرا تقرر ہوا ہے، ہزاروں لوگوں کى طرف سے مجھے ای ميل موصول ہو رہے ہيں، جن ميں زيادہ ترخواتين ہيں اور وہ يہ کہتے ہوئے خوشى کا اظہار کررہى ہيں کہ ہم نے کبھى سوچا بھى نہ تھا کہ ايک باحجاب وکيل کبھى جج کى کرسى پر بھى بيٹھ سکتى ہے۔
رافعہ کا سترہ سالہ وکالت کا سفر بھى آسان نہيں رہا ہے، بقول رافعہ انھوں نے تقريباً روزانہ ہى تعصب و نسلى امتياز کا سامنا کيا ہے۔
رافعہ جو کہ يارکشائر ميں پلى بڑھيں اور وہيں سے انھوں نے لاء ميں گريجويشن کيا، اپنى اس شناخت کا کريڈٹ اپنى ماں کو ديتى ہيں اور يہ کہتے ہوئے ان کى آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہيں کہ 2000 ميں ميں نے ايک اسکالرشپ کے لیے اپلائى کيا، انٹرويو کے دن ميرى ماں نے کہا کہ تم اپنے اسى حجاب کے ساتھ انٹرويو پينل کے سامنے جاؤ، اگر اس بنياد پر تمھارا سليکشن نہيں ہوا تو ہميں کوئى افسوس نہ ہوگا، يہ ميرى زندگى کا سب اہم موڑ تھا، جس ميں مجھے ميرى ماں اور پورى فيملى کا سپورٹ حاصل رہا، الحمد للہ ميرے جوابات سے انٹرويو پينل متاثر ہوا اور ميں نے مطلوبہ اسکالرشپ حاصل بھى کى۔
لاء کرنے کے بعد رافعہ نے فيملى اور بچوں کے کيس ميں مہارت پيدا کى اور 2004 ميں سينٹ ميريز فيملى لاء چيمبرس کى باقاعدہ رکن بن گئيں۔ رافعہ نے اسلامى خاندانى نظام پر ايک کتاب بھى لکھى ہے، جس کے حوالے ججز مسلم مسائل کى سماعت ميں استعمال کرتے ہيں۔
(مضمون نگار جامعہ سينئر سيکنڈرى اسکول ميں بارہويں جماعت کى طالبہ ہيں)