راجیہ سبھا نشست کو قبول کرتے ہوئے جسٹس گوگوئی نے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری سے سمجھوتہ کیا ہے: جسٹس کورین جوزف

نئی دہلی، مارچ 18- سابق چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس رنجن گوگوئی نے وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی زیرقیادت مرکزی حکومت کی پیش کردہ راجیہ سبھا نشست کو قبول کرتے ہوئے سخت تنقید کی دعوت دی ہے۔

جسٹس گوگوئی گذشتہ سال نومبر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے- ایودھیا، سبریمالا اور رافیل جیسے کئی فیصلے انھوں نے یادگار چھوڑے، جن کے لیے انھیں حزب اختلاف اور سول سوسائٹی کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس ہفتے کے شروع میں ہندوستان کے صدر رام ناتھ کووند نے راجیہ سبھا کے نامزد ممبر کے طور پر گوگوئی کے نام کا اعلان کیا تھا۔

اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی گروپوں کے علاوہ جسٹس گوگوئی کے سابقہ ساتھی ججوں نے بھی ان کی اس پیش کش کو قبول کرنے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔

لائیو لا ڈاٹ اِن کے مطابق سپریم کورٹ کے سابق جج کورین جوزف نے کہا ’’جسٹس رنجن گوگوئی نے ہم تینوں افراد کے ساتھ 12 جنوری 2018 کو بیان دیا تھا کہ "ہم نے قوم سے اپنا قرض ختم کر دیا ہے۔” میں حیران ہوں کہ جسٹس رنجن گوگوئی، جنھوں نے ایک بار آزادی کی حمایت کے لیے اس طرح کی جرات کا مظاہرہ کیا، نے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری سے متعلق اعلیٰ اصولوں پر سمجھوتہ کیا ہے۔‘‘

جسٹس رنجن گوگوئی، جے چیلمیشور، کورین جوزف اور مدن لوکور نے جنوری 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مِشرا کے خلاف غیرمعمولی پریس کانفرنس کی تھی جس میں انھوں نے کچھ مخصوص بنچوں پر منمانے طور پر مختص کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

جسٹس جوزف نے مزید کہا ’’ہماری عظیم قوم بنیادی ڈھانچے اور آئینی اقدار پر مضبوطی سے قائم ہے، بنیادی طور پر آزاد عدلیہ کا شکریہ۔ جس لمحے لوگوں کا یہ اعتماد کانپ اٹھتا ہے، جس لمحے یہ خیال آجاتا ہے کہ ججوں کے درمیان ایک طبقہ متعصبانہ ہے یا آگے کی دیکھنے والا ہے، تو ٹھوس بنیادوں پر بنائی گئی قوم کی عمارت لرز جاتی ہے۔ صرف اسی صف بندی کو تقویت دینے کے لیے 1993 میں عدلیہ کو مکمل طور پر آزادانہ اور غیر منحصر کرنے کے لیے ، کالیجیم کا نظام سپریم کورٹ نے متعارف کرایا تھا۔‘‘

وہیں جسٹس لوکور نے پوچھا کہ ’’کیا آخری گڑھ گِر پڑا ہے؟‘‘

جسٹس مدن بی لوکور نے بھی گوگوئی کے راجیہ سبھا نشست کو قبول کرنے پر سوال اٹھایا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق انھوں نے کہا ’’ابھی کچھ عرصے سے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ جسٹس گوگوئی کو کیا اعزاز ملے گا۔ تو اس لحاظ سے نامزدگی حیرت کی بات نہیں ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اتنی جلدی آگئی ہے۔ اس سے عدلیہ کی آزادی، غیرجانبداری اور سالمیت کی نئی وضاحت ہوتی ہے۔ کیا آخری گڑھ گرِ پڑا ہے؟‘‘

دوسری طرف پیش کش پر اپنے پہلے ردعمل میں جسٹس گوگوئی نے کہا ہے کہ وہ حلف اٹھانے کے بعد ہی اس بارے میں تفصیل سے بات کریں گے کہ انھوں نے اس پیش کش کو کیوں قبول کیا۔