ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اتراکھنڈ جوڈیشیل سرویس امتحان میںکامیاب 3مسلم لڑکیاں

 

جب قرآن پاک کے پہلے الفاظ پڑھنے یعنی علم حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں اور نبی کریم ﷺ گود سے گور تک علم حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں تو اللہ تبارک تعالیٰ نے بھی دوڑ دھوپ میں برکت رکھی ہے تب ہی تو اتر اکھنڈ کی ان تین لڑکیوں نے اس شعبے میں کامیابی حاصل کی جس کو عام طور پر خواتین کا شعبہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔
اس سال اتر اکھنڈ جیوڈیشیل سروس کے نتائج میں ریاست کے 17 طالب علموں نے کامیابی حاصل کی۔ ان میں سے 4 مسلم ججس ہیں جن میں تین لڑکیاں ہیں۔ اس سے قبل اتر پردیش جیوڈیشیل سروس کے ریزلٹ میں 18 اور راجستھان جیوڈیشیل سروس میں 5 مسلم لڑکیاں جج بنی تھیں۔ اتر اکھنڈ جیوڈیشیل سروس کے نتائج میں بھی جو تین مسلم لڑکیاں جج بن گئی ہیں ان کی خاص بات یہ ہے کہ یہ تینوں ہی لڑکیاں دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں سے دو لڑکیاں رُڑکی کے پاس شاہ پور اور بڈھی گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں جب کہ تیسری لڑکی ہریدوار کے سرائے گاؤں کی ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ تینوں ہی کے گاوؤں میں ہائی اسکول سطح کا کوئی بھی اسکول نہیں ہے۔ ان میں سے ایک لڑکی کا نام عائشہ فرحین ہے، دوسری کا نام گلستاں انجم اور تیسری لڑکی کا نام جہاں آرا انصاری ہے۔
رُڑکی سے پانچ کلو میٹر کی دوری پر شاہ پور نام کے اس گاؤں میں عائشہ کا گھر ہے۔ والد صرف پانچویں تک پڑھے ہیں اور ماں کبھی اسکول ہی نہیں گئیں۔ چار ایکڑ زمین ہے اور چار بچے ہیں۔ گاؤں میں پانچویں درجہ سے آگے کا اسکول نہیں ہے۔ خاندان میں 8 وکیل ہیں، لیکن وکالت پڑھنے والی عائشہ پہلی لڑکی ہے۔ 9ویں رینک پانے والی عائشہ فرحین کی کامیابی اس لیے بھی خاص ہے کیونکہ انہوں نے صرف 6 مہینے کی تیاری میں یہ مقام حاصل کیا ہے۔ یہ ان کی پہلی کوشش تھی۔ وہ گاؤں کی ایک ایسی لڑکی ہے جس نے اپنی ماں کا گھر کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہوئے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ عائشہ فرحین کے والد شرافت علی اپنی بیٹی کی کامیابی پر کہتے ہیں کہ “میری بیٹی نے کمال کر دیا، میں نے اس کو پانچویں تک ہی پڑھایا تھا گاؤں میں کوئی انگریزی اسکول بھی نہیں ہے لیکن آگے پڑھنے کے لیے جہاں بھی ممکن ہوا وہاں اس کو بھیجا ”۔
ریاست اتر اکھنڈ میں ضلع رُڑکی کے سب سے پسماندہ گاوؤں میں سے ایک شاہ پور ہے۔ گاؤں میں سب سے زیادہ پڑھی لکھی لڑکی بھی عائشہ فرحین ہی ہے۔ اس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عائشہ نے صرف 6 مہینے کی تیاری میں اتر اکھنڈ کی جیوڈیشیل سروس میں سول جج کا امتحان پاس کیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے سبب وہ یہ تیاری بھی مستقل طور پر نہیں کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گھر کی بڑی بیٹی ہونے کی تمام ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں۔ کبھی پڑھائی کا بہانہ کر کے گھر کے کام سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ گھر کے تمام کام نمٹاتے ہوئے عائشہ نے یہ مقام حاصل کیا ہے۔
بڈھی گاؤں کے سماجی کارکن حسین احمد کی سب سے چھوٹی بیٹی گلستاں انجم نے بھی جب اتر اکھنڈ جیوڈیشیل سروس سول جج (جونیئر ڈویژن) کا امتحان پاس کر لیا تو سارے گاؤں میں خوشی کا ماحول بن گیا۔ گلستاں نے ڈی اے وی سے 2016 میں گولڈ میڈل کے ساتھ ایل ایل بی کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کلیمنٹ ٹاؤن میں ریٹائرڈ جج وی کے مہیشوری کے یہاں کوچنگ لی۔ 2017 میں پہلی کوشش میں انہوں نے انٹرویو تک کا سفر طے کیا لیکن کامیابی نہ ملنے پر ہمت نہیں ہاریں۔ اب جیوڈیشیل سروس میں سلیکٹ ہونے پر اپنی کامیابی کا سہرا اپنے اہل خانہ اور اساتذہ کو دیتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ ان کی عدالت میں جو بھی انصاف کے لیے آئے گا اسے انصاف ملے گا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ بیٹیوں کو تعلیم دلانا بے حد ضروری ہے۔ اگر بیٹیاں خواندہ ہوں گی تو سماج محفوظ ہوگا۔ کامیاب ہونے کے لیے لگاتار محنت بھی بے حد ضروری ہے، ناکامیوں کا ڈٹ کر سامنا کرنے سے کامیابی ضرور ملتی ہے۔
اتر اکھنڈ سے جج بننے والی تیسری لڑکی جہاں آرا انصاری کے ایک بھائی ٹریول کا کام دیکھتے ہیں اور دوسرے ٹھیکیداری کرتے ہیں۔ جہاں آرا نے پہلے لکسر سے ہائی اسکول کیا پھر جوالا پور سے انٹرمیڈیٹ کی پڑھائی مکمل کی اور دہرہ دون سے ایل ایل بی کیا۔ اس کے بعد یہیں سے صحافت میں ڈپلوما کیا۔ پہلے وہ صحافت میں کرئیر بنانا چاہتی تھیں لیکن اتر پردیش، راجستھان اور اتر اکھنڈ میں خاص کر مسلم لڑکیوں کو جج بنتے دیکھا تو گھر پر رہ کر ہی تیاری کی اور اب وہ خود جج بن گئیں۔ جہاں آرا کے والد شہادت حسین زراعت کے شعبہ سے جڑے ہوئے ہیں۔ جہاں آرا انصاری ایک عام گاؤں کی لڑکی ہے۔ وہ سوشل میڈیا سے ہمیشہ دور رہی ہے اور بغیر کوچنگ کے جج بننے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں آرا کہتی ہیں کہ مجھے تو بس تعلیم مکمل کرنی تھی، مجھ پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔یہ اتفاق ہے کہ اس مرتبہ جج بننے والی اتر اکھنڈ کی تینوں لڑکیوں کے والدین زراعت پیشہ ہیں اور کسی کے بھی والدین زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 10 جنوری تا 16 جنوری 2021