’دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں ‘
وبا کے دور میں ناقابل بیان فضائی آلودگی کا سائنسی جائزہ
شہلا کلیم، مرادآباد
دفن نہ کر نےسے ماحولیات پر بھیانک اثرات
(5؍جون کو عالمی یوم ماحولیات کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن خصوصیت کے ساتھ ماحولیات کے تحفظ کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں۔اسی مناسبت سے عوامی بیداری کے لئے اس موضوع پر خاص تحریریں پیش خدمت ہے۔)
روئے زمین پر بسنے والا کوئی انسان خواہ وہ کسی بھی مذہب یا عقائد و نظریات کا حامل ہو کل’’نفس ذائقة الموت‘‘ کا انکار نہیں کر سکتا۔ جیون مَرَن کا یہ تعلق دنیا کی وہ بڑی حقیقت ہے جس پر بلا چوں وچرا ہر ذی روح کا اتفاق ہے۔اور بس یہی وہ کائناتی اتحاد کا مرکز ہے جہاں ٹھہر کر واقعتاً زمین ایک ہی محور پر گردش کرتی محسوس ہوتی ہے۔ تاہم اتحاد واتفاق کا یہ وقفہ محض لمحے بھر پہ محیط ہے۔ اس کے بعد مذہبی ونظریاتی اختلاف وانتشار کا سلسلہ ایسا دراز ہوتا ہے کہ الامان والحفیظ۔ موت وحیات کا قدرتی عمل تو ایک ہی ہے البتہ نام اور کام دین دھرم، تہذیب وثقافت اور علاقوں، خطوں کے اعتبار سے گھڑ لیے گئے۔ اس عمل کی طریقہ ادائیگی کہیں ’’آخری رسومات‘‘ کہلائی تو کہیں اسے ’’انتم سنسکار‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ کسی نے ’’اگنی‘‘ دی تو کسی نے ’’تدفین‘‘ کی۔ لیکن اس اختلاف وانتشار سے قدرتی نظام پہ رتی بھر فرق نہ پڑ سکا اور حیات ووفات کا یہ سرکل تاحال جاری ہے۔ اور جب تک خالق کائنات کا حکم ’’کن فیکون‘‘جاری رہے گا یہ سلسلہ بھی یونہی چلتا رہے گا۔ البتہ سوال یہ ہے کہ انسانی عمل دخل سے خدائی نظام میں تو کوئی فرق نہ پڑ سکا لیکن اس دخل اندازی نے کرہ ارض کے ماحولیاتی نظام کو کس حد تک متاثر کیا؟
عام حالات میں کسی عام موضوع پر گفتگو کرنا اس قدر اہمیت کا حامل نہیں ہوا کرتا جتنا کہ خاص حالات میں، جن کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور اس پر بحث بھی لازم ہو جاتی ہے۔ موت زندگی کا خاتمہ نہیں تکمیل ہے۔ موت وحیات کا رشتہ اٹوٹ ہے لیکن ان دنوں جس انداز سے لفظ ’’موت‘‘ سارے عالم پر قہر بن کر چھا گیا ہے انسان تو کُجا خود موت بھی اپنے وجود سے خوفزدہ ہو گی۔
وجہ جگ ظاہر ہے۔ ۲۰۱۹ میں چین کے شہر ووہان سے نکلنے والا کورونا وائرس covid-19 بن کر دیکھتے ہی دیکھتے سارے عالم میں پھیل گیا اور اس نے ایسی بھیانک شکل اخیتار کی کہ ابتداً جو Epidemic تھا بہت جلد اسے WHO نے pandemic قرار دے دیا۔ Epidemic اور pandemic کا بنیادی فرق یہ ہے کہ epidemic کسی ملک، علاقے یا خطے تک محدود ہوتا ہے جبکہ pandemic سے ہونے والی ہلاکت وتباہی کی گونج سارے عالم میں سنائی دیتی ہے۔ یہاں قابل ذکر اور لائق توجہ بات یہ ہے کہ یہ گونج ایک ملک سے اٹھی جسے سارے عالم نے نہ صرف سنا بلکہ محسوس کی اور پھر جلد یا بدیر اس پر قابو بھی پا لیا۔ خود چین حیران کن طریقے سے نہ صرف نئے سرے سے اٹھ کھڑا ہوا بلکہ economy growth میں ناقابل یقین حد تک آگے نکل گیا۔ لیکن ہندوستان تاحال اس دردناک عذاب کو جھیل رہا ہے اور نہ صرف ترقی یافتہ بلکہ ترقی پذیر ممالک سے بھی تمام تر world indexes میں شکست کھا چکا ہے۔ حال یہ ہے کہ خود اس ملک کا پڑوسی پاکستان (جو کہ رقبے، آبادی اور development ہر اعتبار سے ہندوستان سے کمتر ہے) نیز جسے وطن عزیز کی متشدد آوازیں ایسے پر آشوب وقت میں بھی ’’کرونا کی موت‘‘ مرنے کی وعید سناتی رہی ہیں وہی ملک اس بھیانک کرونا کال سے لڑ کر "world happiness index” میں ہندوستان سے بازی مار لے گیا۔ اور اب جبکہ covid-19 کا قہر کرہ ارض پہ مدھم پڑنے لگا تھا ہندوستان کو اس کی دوسری لہر نے اپنی چپیٹ میں لے کر عوام الناس کو جوق در جوق موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بہر کیف ہندوستانی حکومت کی نا اہلی کی ایک الگ روداد ہے۔ ِ یہ اپنے آپ میں ایک الگ اور توجہ طلب موضوع ہے۔ فی الوقت زیر بحث وہ متعصب آوازیں ہیں جِو گزشتہ برس کورونا کی پہلی لہر کے دوران بلند ہوئی تھیں کہ مسلمانوں کو مردے دفنانے کی بجائے نذر آتش کرنے چاہئیں۔ چنانچہ نذر آتش اور سپرد خاک کیے جانے کے عمل کا تقابلی جائزہ مذہب کی بجائے سائنس کی روشنی میں لینے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ مذہبی دلائل میں طرفہ تماشے کا راہ پا جانا ممکن ہے۔ نیز یہ بھی بعید از قیاس ہے کہ دیگر مذاہب بھی کسی ایک مذہب کے نظر ر متفق ہوں جائیں۔ لہٰذا انسانی زندگی کے خاتمے پر مذہبی رسومات کے ذریعے environment پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ ecology اور ecosystem کی روشنی میں لینا زیادہ معنی رکھتا ہے۔
ہندوتوا کے بعد سر زمین ہند کی دوسری بڑی population مسلمان ہیں اور تقریباً پوری دنیا میں ہی میت کی آخری رسومات کے دو طریقے زیادہ رائج ہیں۔ نذر آتش یا سپرد خاک۔
اگر environment impact کی رو سے اول الذکر کی بات کریں تو عام طور پر ایک مردے کے انتم سسنکار میں تقریبا تین کونٹل (اس سے کم کی بھی گنجائش ہے) لکڑیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ لکڑی (درخت) کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اسی لکڑی کو اگر جلایا جائے تو یہ خاصیت الٹ جاتی ہے اور ۱۰۰۰ گرام لکڑی جلانے پر (ایک وقت پر ایک چولہے میں جلنے والی لکڑی کے وزن سے بھی کم) تقریباً ۱۹۰۰ گرام کاربن خارج ہوتی ہے۔ یعنی دوہرا نقصان۔ پہلا اندازہ لگائیے کہ صرف ایک مردے کے انتم سسنکار پر خرچ ہونے والی لکڑیوں سے کتنی بڑی تعداد میں کاربن خارج ہو کر فضا کو آلودہ نیز ماحولیات پہ کتنے گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اور یہ بھی قابل غور بات ہے کہ کسی انسانی وجود کے جلنے پر اسکی چمڑی سے نکل کر فضا میں پھیلنے والے زہریلے مادے ماحولیات پر کس حد تک اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ لکڑی جلنے پر صرف کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج نہیں ہوتا بلکہ لکڑی جلانے پر نکلنے والے دھوئیں میں موجود particulate matter (pm 2.5 and pm 10) اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں جو سانس لینے کے عمل کے ساتھ ہی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں اور بہت سی بیماریوں کے ساتھ ساتھ کینسر جیسی بڑی بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ نیز لکڑی جلنے پر carbon monoxide, sulfur oxide, nitrogen oxide, volatile organic compounds (VOCs), water vapers جیسی بہت سی زہریلی گیسیں فضا میں پھیل جاتی ہیں۔
دوسری توجہ طلب بات ایک بڑی تعداد میں درختوں کا صفایا ہے۔ واضح ہو کہ سائنس نے کرہ ارض پہ سمندروں کے بعد سب سے بڑا carbon sink درختوں کو قرار دیا۔ اب دوسرا اندازہ لگائیں کہ فی مردہ تین کونٹل لکڑیوں کے خرچ کے حساب سے دنیا بھر میں یومیہ جلائے جانے والے مردوں پر خرچ ہونے والی لکڑیوں کی تعداد اور ان سے نکلنے والی زہریلی گیسوں کی مقدار کتنی ہو گی۔ لہٰذا یہ تصور بھی ایک عام فہم ذہن کو ماؤف کر دینے کے لیے کافی ہے کہ کورونا عہد میں جبکہ یومیہ اموات کا سلسلہ ہزاروں کے اعداد وشمار پار کر رہا ہو ان حالات میں ماحولیات پہ کیا کچھ گزری ہو گی؟ اسی کے پیش نظر سائنٹسٹ نے داہ سنسکار کے لیے الیکٹرک بھٹیوں کا رواج نکالا۔لیکن ہوا یوں کہ درختوں نے محض نام کی حد تک خیر منائی اور non renewable energy سولی چڑھ گئی۔ مزید یہ کہ ان بھٹیوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں اور زیرہلی گیسوں کے اثرات کسی بھی ذی شعور کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں۔
غور کیجیے کہ ہندوستان میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران ہونے والی اموات کی وجہ بیماری سے زیادہ آکسیجن کی کمی ہے۔ اور یقیناً ایسے حالات میں جبکہ الیکٹرانک بھٹیاں چوبیس گھنٹے مصروف عمل ہوں، شمشان گھاٹ دن رات میں کسی لمحے سرد پڑنے کا نام نہ لیتے ہوں، ایک ایک چتا پر مردوں کے ڈھیر نذر آتش کیے جا رہے ہوں۔ اموات کا سلسلہ ایسا دراز ہو کہ فٹ پاتھ پہ لاشیں جل رہی ہوں تو ایسے حالات میں اعداد وشمار پیش کیے بغیر بھی فضائی آلودگی کا اندازہ اور آکیسجن کی کمی کی وجہ با آسانی سمجھی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ گنگا کے نواحی علاقے مکمل طور پر covid-19 اور آکیسجن کی کمی کے زیر اثر ہیں۔ وجہ بالکل واضح ہے کہ گنگا کنارے تینوں طرح کا pollution خطرناک حد تک جڑ پکڑ چکا ہے۔گنگا کنارے نذر آتش کی جانے والی لاشیں air pollution، گنگا میں تیرتی لاشیں water pollution اور گنگا کنارے پڑی لاوارث لاشیں soil pollution میں بڑا کردار ادا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اور کیا خبر کہ covid-19 کے زیر اثر مرنے والوں کی یہ لاورث لاشیں جو کہ اب جنگلی جانوروں اور کتوں کی خوراک ہیں ان جانوروں میں وائرس کا سبب نہ بن رہی ہوں لیکن کیا کیجیے کہ جس ملک میں انسان کتوں سے بد تر موت مر رہا ہو وہاں ان جانوروں پر توجہ کی کسے فرصت ہے۔
اب ذرا دیر کو ecology سے ہٹ کر economy کے رخ سے دیکھیے۔ جس ملک کا مقام ۲۰۲۰ کی رپورٹ کے مطابق Global Hunger Index (GHI) میں 107 ممالک میں 94 نمبر پر آتا ہو اس ملک کے افلاس زدہ طبقے کی حالت تین کونٹل لکڑیاں صرف انتم سسنکار پہ صرف کر دینے لائق ہوگی؟ نتیجتاً (باوجود اس کے کہ ہندو دھرم میں انتم سنسکار کی اہمیت جنم سنسکار سے بھی بڑھ کر ہے) مسلسل لاک ڈاؤن کی مار کھائی ہوئی بھوکی ننگی عوام اپنے سنسکاروں کی بلی چڑھا کر اپنے عزیزوں کو رات کے اندھیارے میں پانی کے حوالے کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن دن کا اجالا اس انسانیت سوز منظر سے پردہ اٹھاتا ہے۔ اس پہلو پر مزید گفتگو کیا کی جائے کہ خود پریم چند انتم سنسکار کے اس المیے پر گؤ دان جیسا شاہکار ناول رقم کر گئے۔
اب ’’سپرد خاک‘‘ کر دیے جانے والے نظریے کی طرف لوٹتے ہیں۔ ecosystem کا مطلب ہے وہ نظام جس کے تحت جانوروں، پودوں اور بیکٹریا سمیت تمام جانداروں کی زندگیوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے۔ اور اس ایکو سسٹم میں دو الفاظ بنیادی حیثیت رکھتے ہیں پہلا food chain اور دوسرا food web۔ فوڈ ویب فوڈ چین کا وسیع ترین روپ ہے۔ دونوں ہی ہماری گفتگو کا مرکز ہو سکتے ہیں لیکن فی الوقت مزید طوالت سے اجتناب کرتے ہوئے موخر الذکر ہماری بحث سے خارج ہے اور اول الذکر ہمارے موضوع کا حصہ ہے۔ food chain کی وضاحت ان الفاظ میں کی جا سکتی ہے ’’فوڈ چین حیاتیات اور نباتات کی ایک ترتیب ہے اور اسی ترتیب کی پیروی کرتے ہوئے ایک حیاتیات سے دوسرے میں غذائی توانائی کی منتقلی کا ایک سلسلہ food chain کہلاتا ہے‘‘
حیاتیات کی اس ترتیب میں سب سے پہلا مقام producers یعنی پیڑ پودوں کا ہے جو کہ اپنی خوراک سیدھے سورج سے حاصل کر کے consumers کو پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ دوسرا مقام consumers (primary consumers, secondry consumers etc.) کا ہے جو کہ پیڑ پودوں سے اپنی غذا حاصل کرتے ہیں۔ انسان کا شمار سیکنڈری کنزیومرس میں ہوتا ہے کیونکہ انسان omnivorous ہے۔ یعنی وہ سیدھے پیڑ پودوں سے بھی غذا حاصل کرتا ہے اور پیڑ پودوں کو کھانے والے جانور یعنی پرائمری کنزیومرس بھی اسکی خوراک ہیں ۔ food chain میں سب سے آخری مقام decomposers کا ہے۔ اور ہمارے موضوع کا تعلق بھی انہی کے عمل دخل پر گفتگو کرنا ہے۔ decomposers نہ تو سورج سے غذا حاصل کرتے ہیں نہ ہی پیڑ پودے ان کی خوراک ہیں بلکہ decomposers وہ حشرات الارض ہیں جن کا کام مردار کو decompose کرنا اور خاک کو واپس خاک میں بدل دینا ہے۔ decomposers وہ کیڑے مکوڑے ہیں جو زیر زمین دفن لاشوں سے اپنی غذا حاصل کرتے اور food chain کو استحکام بخشتے ہیں اور اگر اس دلیل کو کوئی مذہب کی روشنی میں پرکھنا چاہے تو اسے ’’أَنَا بَيْتُ التُّرَابِ وَأَنَا بَيْتُ الدُّودِ‘‘ مطلب ’’میں مٹی کا گھر ہوں، میں کیڑوں کا گھر ہوں‘‘ پر غور کرنا چاہیے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اگر کوئی کہے کہ سپرد خاک کر دینے والی رسم soil pollution کا سبب ہے تو پھر اسکو اپنی عقل کا ماتم کرنا چاہیے۔ کیونکہ biodiversity کی رو سے دفن کیے گئے وجود food chain کا حصہ ہیں اور کمال یہ ہے کہ invironment impact مثلا گلوبل وارمننگ میں بڑھاوا، کاربن سنک کا استحصال، کاربن ڈائی آکسائڈ اور مزید زہریلی گیسوں کا اخراج وغیرہ میں’’انتم سنسکار‘‘ کی بنسبت ’’آخری رسومات‘‘ کی حصے داری صفر کے برابر بھی نہیں!
آخر میں یہ وضاحت لازم ہے کہ ہمارا مقصد کسی مذہب کو اسکی رسومات ترک کرنے پر قائل کرنا ہرگز نہیں بلکہ یہ تو محض ’’سائنسی جواب‘‘ ہے ان متعصب آوازوں کا جو مسلمانوں کے لاشے نذر آتش کر دیے جانے پر مصر تھے۔البتہ ایک انسانی مشورہ ضرور ہے ان لوگوں کے لیے جن کے پیاروں کی لاشیں درندوں کی خوارک بن رہی ہیں، جنہیں آگ نصیب نہ ہوئی، پانی نے انہیں اپنے ریتلے کناروں پہ اگل دیا پھر ہوائیں اس ریت کو اڑا لے گئیں اور دن کی روشنی نے انہیں بے حجاب کر ڈالا۔ کبھی آزما کر تو دیکھیے:
"ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!”
[email protected]
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 6 جون تا 12 جون 2021