دہلی کے بیجواسن گاؤں میں کچھ ’’دبنگ‘‘ لوگوں نے گاؤں کی مسجد میں مائک پر اذان دینے اور باہر کے لوگوں کے مسجد میں نماز پڑھنے پر لگا رکھی ہے پابندی
نئی دہلی، جون 22: ستمبر 2019 سب اب تک 10 مہینے ہوچکے ہیں کہ کچھ ’’دبنگ‘‘ (مقامی طاقتور) افراد کاپسہیرہ پولیس اسٹیشن کے تحت بیجواسن گاؤں میں نہ تو جامع مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے کی اجازت دے رہے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کو اس کی اجازت دے رہے ہیں کہ گاؤں کے باہر کے لوگ مسجد میں نماز پڑھنے آ سکیں۔
اس کے نتیجے میں ان مسلمانوں کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے جو قریبی سرکاری اور نجی اداروں میں کام کر رہے ہیں اور خاص طور پر جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے وہاں آتے ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق قریبی اداروں میں 300 سے زیادہ مسلمان کام کر رہے ہیں جو پہلے اس مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے آتے تھے۔
گاؤں کے ہندوؤں نے، جن میں سے بیش تر بی جے پی اور دیگر دائیں بازو کی تنظیموں کے ساتھ اپنی وفاداری رکھتے ہیں، زبانی طور پر فرمان جاری کیا ہے کہ صرف گاؤں کے اصل باشندے ہی مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن لاؤڈ اسپیکر پر ’’اذان‘‘ دیے بغیر۔
اس گاؤں میں صرف پانچ ہی مسلمان کنبے ہیں، جن میں کل 14 ممبران ہیں۔ یہ گاؤں ہریانہ کے گروگرام ضلع سے متصل ہے اور اندرا گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے سے تقریباً 11 کلومیٹر دور ہے۔
انڈیا ٹومورو کی ٹیم سے بات کرتے ہوئے بیجواسن کے رہائشی ڈاکٹر انتظار خان نے کہا کہ ’’8 ستمبر 2019 تک کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ تاہم بی جے پی کے مقامی رہنماؤں کی سربراہی میں کچھ لوگ 19 ستمبر 2019 کو مسجد آئے، جو جمعہ کا دن تھا اور لوگوں کے مسجد کے باہر سڑک پر نماز پڑھنے پر اعتراض کیا۔ ہم نے اسے قبول کیا اور لوگوں کو سڑک پر نماز پڑھنے سے روک دیا۔‘‘
ایک پرائیوٹ کلینک چلانے والے ڈکٹر خان نے مزید بتایا کہ ’’اس کے بعد انھوں نے مطالبہ کیا کہ خطبات کے لیے اور مسجد کے اندر نماز کے لیے لاؤڈ اسپیکر استعمال نہ کیا جائے۔ ہم نے ایک بار پھر اسے امن اور ہم آہنگی کے مفاد میں قبول کیا۔‘‘
انھوں نے مزید بتایا ’’لیکن وہ اس سے باز نہیں آئے۔ اگلے جمعہ کو مقامی لوگوں نے اپنے حامیوں کو مسجد کے قریب لاٹھیوں سے مسلح کر کے کھڑا کردیا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ گاؤں کے باہر سے کوئی بھی شخص مسجد میں نماز نہ پڑھ سکے۔ کسی بھی طرح کے تصادم اور تشدد سے بچنے کے لیے ہم نے باہر کے لوگوں سے درخواست کی کہ وہ کہیں اور نماز کے لیے جائیں، کیوں کہ ماحول بہت کشیدہ ہوگیا تھا۔ کسی بھی طرح کے تصادم سے بچنے کے لیے ہم پھر یہ بھی قبول کر لیا۔‘‘
ڈاکٹر خان نے بتایا ’’تب سے اب تک مقامی مسلمان دیہاتیوں کے علاوہ کوئی بھی مسجد میں نماز کے لیے نہیں آ رہا ہے۔‘‘
یہ سب واقعات قومی دارالحکومت میں امن و امان کی صورت حال کی قلعی کھولتے ہیں اور ہندوستان کے اپنے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دینے اور ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہونے کے دعوے کو بے نقاب کرتے ہیں۔
دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ پولیس کے پاس بھی گیا لیکن پولیس والوں نے ہندوؤں کی اکثریت اور ان میں سے اکثریت کے بھگوا گروہوں میں شامل ہونے کے پیش نظر مسلمانوں کو خاموش رہنے کے لیے کہا۔
گاؤں کے ’’پردھان‘‘ شبیر خان سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ تقسیم ہند کے تناظر میں 200 سے زائد مسلمان خاندانوں کے پاکستان روانہ ہونے کے بعد مسجد خستہ حال ہوگئ تھی۔ انھوں نے بتایا ’’لیکن ہندو برادری کے عمائدین خصوصا جاٹوں نے ہم سے مسجد کی تعمیرِ نو اور نماز کے لیے استعمال کرنے کو کہا۔ چوں کہ ہمارے پاس پیسہ نہیں تھا، لہذا ہندو جاٹوں نے ہی پیسہ جمع کیا اور ہمارے لیے 1986 میں اسے دوبارہ تعمیر کرایا۔ بعد میں ہم نے اس میں مزید توسیع کی اور لوگوں کے لیے خاص طور پر جمعہ کی نماز کے لیے اس میں ایک منزل اور شامل کی۔‘‘
شبیر خان نے بتایا کہ اس مسجد سے متصل 20 مربع فٹ اراضی جو ’’گرام سماج‘‘ کی ہے۔ ہندوؤں نے مطالبہ کیا کہ اس پر ایک مندر تعمیر کیا جائے۔ انھوں نے بتایا ’’چوں کہ ہندوؤں نے اس مسجد کی تعمیر میں مدد کی تھی، اس لیے میں نے ان کے لیے ایک مندر بنانے میں مدد کرکے اس احسان کا بدلہ چکایا۔‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’’مجھے خود دیہاتیوں نے پردھان منتخب کیا تھا، جو سبھی ہندو ہیںْ‘‘
انھوں نے بتایا کہ ’’لیکن مندر کی تعمیر کے فورا بعد ہی مسجد میں ’’نماز‘‘ کے ساتھ مسئلہ پیدا ہوگیا۔
65 سالہ شبیر خان نے کہا ’’لیکن اب کچھ لوگ، جو میرے بیٹوں اور بھائیوں کی طرح ہیں، مسجد سے لاؤڈ اسپیکر پر ’’اذان‘‘ نہیں دینے دے رہے ہیں اور گاؤں کے باہر کے لوگوں کو بھی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ اس مسجد میں کم از کم 250 سے 300 نمازیوں کی گنجائش ہے۔ پانچ مسلم کنبوں میں ہم صرف 14 ممبر ہیں۔ ہم اکیلے ہی مسجد کی دیکھ بھال اور انتظام نہیں کرسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ کسی کو بھی ایسا کوئی قانونی یا اخلاقی اختیار نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو مذہبی جگہ پر نماز پڑھنے سے روکے۔ لیکن یہ میرے گاؤں میں ہو رہا ہے۔ میں نے مندر کی تعمیر میں مقامی ہندوؤں کے ساتھ تعاون کیا۔ لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ مجھے مائک سے ’’اذان‘‘ دینے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
شبیر خان نے بتایا کہ اس وقت گائوں میں 250 سے زائد مسلمان خاندان کرائے کے مکانوں میں رہ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ’’میں نے ہندوؤں سے کہا کہ آپ کم سے کم اپنے گھروں رہنے والے مسلمان کرایہ داروں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دیں، لیکن انھوں نے پولیس کی موجودگی میں میری اپیل مسترد کردی۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے گھروں پر یا جہاں چاہیں نماز ادا کرسکتے ہیں لیکن گاؤں کی جامع مسجد میں نہیں۔‘‘
بیجواسن میں ایک سرکاری دفتر میں کام کرنے والے محمد ایمن نے انڈیا ٹومورو کو بتایا کہ ’’یہ میرے دفتر سے قریب ترین مسجد ہے۔ میں وہاں نماز جمعہ کے لیے جاتا تھا۔ ستمبر 2019 سے میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہوں۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ قریبی دفاتر میں سیکڑوں دیگر مسلمان کام کر رہے ہیں، جو نماز جمعہ کے لہے بیجواسن گاؤں کی مسجد جاتے تھے۔ لیکن ان سب کو گذشتہ ستمبر کے بعد سے مسائل کا سامنا ہے۔
مسجد کے امام لال محمد، جو یوپی کے رائے بریلی ضلع سے تعلق رکھتے ہیں، نے بتایا ’’پہلے ہندو دیہاتی میری بہت عزت کرتے تھے۔ لیکن ستمبر 2019 کے بعد سب کچھ بدل گیا ہے۔ اس سے قبل مقامی ہندو مسجد میں ’’دعا‘‘ کروانے آتے تھے، تاکہ بری نظر کے اثر سے بچیں، لیکن اب کوئی بھی مسجد میں نہیں آتا ہے۔‘‘
(بشکریہ انڈیا ٹومورو)