دہلی پرتشدد مظاہرے: عدالت نے 12 مظاہرین کو دی ضمانت، پولیس سے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون سے متعلق ان کے خدشات کو دور کرے
نئی دہلی، جنوری 11— دہلی کی ایک مقامی عدالت نے پرتشدد شہریت ترمیمی قانون مخالف احتجاج کیس کے 12 ملزمان کو ضمانت دیتے ہوئے انھیں انویسٹی گیشن آفیسر کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی جو شہریت ترمیمی قانون سے متعلق ان کے شکوک و شبہات کو دور کرے گا۔
کرکرڈوما ڈسٹرکٹ کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج سنجیو کمار ملہوترا نے کہا "… درخواست دہندگان 19 جنوری 2020 کو 2 سے 4 بجے کے درمیان سیما پوری پولیس اسٹیشن میں حاضر ہوں گے جہاں آئی او/ ایس ایچ او شہریت ترمیمی قانون کے سلسلے میں درخواست دہندگان کے شکوک و شبہات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔”
عدالت نے ملزم افراد سے بھی کہا کہ وہ تحقیقات میں مدد کریں۔ اور انھیں ہدایت کی کہ "ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے عوامی امن کو خراب کیا جاسکے۔”
درخواست دہندگان کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ وہ 20،000 روپے کا ذاتی بانڈ بطور ضمانت پیش کریں۔
پولیس کے مطابق 20 دسمبر کو سی اے اے کے خلاف مظاہرے کے دوران پرانی دہلی کے دریا گنج اور مشرقی دہلی کے سیماپوری میں 20 دسمبر کو پتھراؤ اور آتشزدگی اور توڑ پھوڑ کے واقعات کی اطلاع ملی تھی۔ جس میں سیماپوری میں پولیس کے ایک اضافی ڈپٹی کمشنر کو معمولی چوٹیں آئیں۔
لائیو لا کے مطابق ملزمان کے وکلا نے دعویٰ کیا کہ ان میں سے دو کو چھوڑ کر سب 21 دسمبر 2019 سے عدالتی تحویل میں ہیں۔ انھوں نے عرض کیا کہ زیادہ تر ملزمان اس جگہ موجود بھی نہیں تھے جہاں واقعہ پیش آیا تھا اور جو لوگ موجود تھے وہ محض پر امن احتجاج کر رہے تھے۔
ضمانت حاصل کرنے والے 12 ملزمان میں امجد خان، عبد الکلام، راجہ اللہ خان، نثار، امیرالدین، صائب، اہتماد احمد، وقار، انیس، حاجی مہراج، محمد۔ شعیب اور محمد عامر شامل ہیں۔
وکلا نے یہ بھی کہا کہ ایف آئی آر میں شامل الزامات میں سے ایک، تعزیرات ہند کی دفعہ 307 کو نافذ نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ پولیس اہلکاروں پر موجود زخموں کی نوعیت معمولی نوعیت کی تھی۔ انھوں نے درخواست گزار حاجی مہراج سے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج بھی تیار کی جس سے یہ ظاہر ہوا کہ وہ شام 4 بجے تک اپنی رہائش گاہ پر موجود تھے۔