دہلی میں 1984 کے سکھ فسادات کے متاثرین بے روزگاری اور تعلیم کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں: دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ
نئی دہلی، جولائی 17: دہلی اقلیتی کمیشن (ڈی ایم سی) نے 1984 میں سکھ فسادات کے شکار متاثرین میں سے زندہ بچ جانے والے افراد کے بارے میں اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سکھ فسادات سے متاثرہ افراد اور ان کے بچوں کو تین چیلینجز درپیش ہیں: کم خاندانی آمدنی، بے روزگاری اور معیاری تعلیم کی فراہمی میں کمی۔
’’دہلی میں 1984 کے سکھ فسادات کے متاثرین کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حیثیت‘‘ کے عنوان سے یہ رپورٹ 87 صفحات پر مشتمل ہے۔ سکھ فسادات سے بچ جانے والے افراد کی حالت، جو کبھی دہلی کی آبادی کا انتہائی روشن تھے، اب انتہائی قابل رحم ہے۔
یہ رپورٹ جمعرات کو ڈی ایم سی کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کمیشن کے ممبران کرتار سنگھ کوچر اور محترمہ انستاسیا گل کی موجودگی میں ڈی ایم سی کے احاطے میں جاری کیا۔ فسادات میں بچ جانے والے 360 افراد اور ان کے کنبہ کے افراد کے انٹرویو پر مبنی یہ رپورٹ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل، وزیر اعلی اروند کیجریوال اور ریاستی قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر رام نواس گویل کو پہلے ہی پیش کی جاچکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق فسادات میں بچ جانے والے زیادہ تر خاندانوں کی ماہانہ آمدنی 20،000 روپے یا اس سے بھی کم ہے۔ فسادات کے وقت سے ان کی معاشی حیثیت میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے ’’بے روزگاری کی فریکوئینسی ایک اور چیلنج ہے جو ان کی معاشی بہبود کو متاثر کرتی ہے۔ فسادات سے متاثرہ خاندانوں کے نوجوان اچھے روزگار کے قابل نہیں ہیں کیوں کہ ان میں مہارت کی کمی ہے اور وہ اعلی تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔‘‘
رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے متاثرین کو حکومت کی خاطر خواہ مدد فراہم نہیں کی گئی ہے، اور کسی بھی حکومت نے ان کی بہبود کے لیے خاطر خواہ قدم نہیں اٹھائے ہیں۔