دہلی فسادات: ہائی کورٹ شرجیل امام اور دیگر کی ضمانت کی درخواستوں پر جنوری میں دوبارہ سماعت کرے گی
نئی دہلی، نومبر 1: دہلی ہائی کورٹ جنوری میں کارکن شرجیل امام، یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ کے بانی عبدالخالد سیفی، راشٹریہ جنتا دل یوتھ ونگ کے لیڈر میران حیدر اور دہلی فسادات کی سازش کیس کے دیگر ملزمان کی ضمانت کی درخواستوں پر دوبارہ سماعت شروع کرے گی۔
یہ مقدمہ شمال مشرقی دہلی میں 23 فروری سے 26 فروری 2020 تک ہوئے فسادات سے متعلق ہے، جن میں 53 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
دہلی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ تشدد وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھا اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں کو منظم کرنے والوں کے ذریعہ تیار کیا گیا تھا۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم عمر خالد سمیت شرجیلامام، سیفی اور کئی دیگر کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ اور تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
جسٹس سریش کمار کیت اور شیلندر کور کی ڈویژن بنچ نے جنوری اور فروری میں سماعت کی تاریخ مقرر کی، کیوں کہ انھیں بتایا گیا تھا کہ کم از کم تین ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ جسٹس سدھارتھ مردول کی سربراہی والی خصوصی بنچ نے محفوظ رکھا ہے۔
یہ بات جسٹس مردول کو منی پور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنائے جانے کے بعد سامنے آئی ہے۔
سینئر ایڈوکیٹ ربیکا جان جو کہ ایک ملزم کی طرف سے پیش ہو رہی تھیں، نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ یہ کیس ایک سال سے زیادہ عرصے سے زیر التوا ہے اور اب اس کی دوبارہ سماعت کی جائے گی۔
ضمانت کی درخواستیں شرجیل امام، سیفی، حیدر اور خالد کے علاوہ گلفشاں فاطمہ، شاداب احمد، اطہر خان، شفاء الرحمان اور سلیم خان نے دائر کی ہیں۔
ہائی کورٹ نے گذشتہ سال اکتوبر میں عمر خالد کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف الزامات پہلی نظر میں سچ ہیں۔
عدالت نے ذکر کیا تھا کہ وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے مسلم طلباء پر مشتمل ایک واٹس ایپ گروپ کا رکن تھا، اور اس نے دہلی کے جنتر منتر، شاہین باغ، سیلم پور اور جعفرآباد علاقوں میں احتجاجی میٹنگوں میں حصہ لیا تھا۔
بعد میں عمر خالد نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی دفعات کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا۔