دہلی فسادات: پولیس کے بیان کے مطابق فسادی ہجوم نے 22 سالہ شہباز کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اس کی ’’موت یقینی‘‘ بنانے کے لیے زندہ جلا دیا
نئی دہلی، اگست 6: دہلی پولیس نے بدھ کے روز ایک مقامی عدالت کو بتایا کہ ایک 22 سالہ شخص، جسے مبینہ طور پر ہجوم نے فروری میں شہر کے شمال مشرقی حصے میں تشدد کے دوران ہلاک کیا تھا، کو پہلے مارا پیٹا گیا اور پھر اسے آگ لگا دی گئی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ ’’واقعتاً فوت ہو گیا‘‘۔
پولیس نے بتایا کہ ہجوم نے شہباز نامی شخص پر اسے ایک مسلمان کے طور پر شناخت کرنے کے بعد حملہ کیا اور بعد میں اس کی لاش کو اس خیال کے ساتھ جلایا کہ کہیں وہ ’’بے ہوش ہونے کا دکھاوا نہ کر رہا ہو۔‘‘
ملزم 24 سالہ راہل شرما کی ضمانت کی سماعت کے دوران پولیس نے یہ گذارشات پیش کیں۔
ابھی تک شہباز کی کھوپڑی اور کچھ ہڈیوں کا ٹکڑا ہی مل سکا ہے، جس کے اہل خانہ کا دعوی ہے کہ وہ 22 سال کا تھا۔
تاہم دہلی پولیس نے کہا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ہی کوئی دلیل قائم کی جا سکتی ہے۔
اس کے بعد ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے شرما کی ضمانت کی عرضی خارج کردی۔ اب تک اس قتل کے کیس میں پانچ افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
عدالت کے ریکارڈ میں بتایا گیا ہے کہ 25 فروری کو شہباز اپنی آنکھوں کی دوائیاں لینے کے لیے صبح سات بجے کے قریب شہر کے گرو تیغ بہادر اسپتال گیا تھا۔ دوپہر ڈھائی بجے کے قریب اس نے اپنے بھائی مطلوب احمد کو اطلاع دی کہ وہ کاراوال نگر سے بائی لینس کے راستے گھر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم احمد اس کے بعد شہباز سے رابطہ قائم نہیں کرسکے تھے۔
دو دن بعد احمد کو اطلاع ملی کہ ایک ہجوم نے اس کے بھائی کو مار ڈالا ہے اور اس کا جسم جلا دیا ہے۔
پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ’’شہباز نے دیوار سے چھلانگ لگا کر اور پی ٹی ایس وزیر آباد کی طرف جھاڑیوں کے قریب پانی میں کود کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ لیکن اس نے [شرما] اور دیگر فسادیوں نے شہباز کا پیچھا کیا …. فساد کرنے والوں نے اسے دوبارہ پکڑ لیا اور اسے بے رحمی سے پیٹا۔ فسادی ہجوم شہباز کو گھسیٹ کر مین روڈ پر لے گیا۔ پھر ہجوم نے پیٹرول ڈالا اور شہباز کو زندہ جلا دیا۔‘‘
اب تک امن اور موہت نامی دو افراد نے شہباز کو قتل کرنے اور اس کی لاش کو نذر آتش کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ دریں اثنا شرما کے وکیل نے پولیس کے الزامات کی تردید کی۔