دہلی فسادات: پولیس کی تفتیش کے طریقۂ کار پر 1000 سے زائد معزز شہریوں اور سابق سرکاری ملازمین نے سوال اٹھائے
نئی دہلی، ستمبر 5: دہلی پولیس جس انداز میں شمال مشرقی دہلی فسادات کے معاملات کی تحقیقات کر رہی ہے، اس پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے 1000 سے زائد شہریوں نے سوالات اٹھائے ہیں۔
دہلی کے پولیس کمشنر ایس این سریواستو کو بھیجے گئے ایک دستخط شدہ بیان میں انھوں نے پولیس سے تحقیقات میں عوام کے اعتماد کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اور فوری اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔
’’زبردستی اعترافی بیانات‘‘ اور ’’مصنوعی طور پر تیار کردہ ثبوتوں‘‘ کے پختہ شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے دستخط کنندگان نے پولیس کمشنر سے یہ یقین دہانی طلب کی ہے کہ ان طریقوں کو روکا جائے اور فسادات کے اصل مجرموں کے خلاف مقدمہ کی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوں۔
بیان کے مطابق خط میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دہلی پولیس کے خصوصی سیل کے ذریعہ ایک نوجوان سے پوچھ گچھ کی گئی تھی اور دہلی فسادات سے متعلق عمر خالد کے خلاف ایک جھوٹا اعترافی بیان دلوایا گیا تھا اور اس کی ویڈیو ٹیپنگ کی گئی تھی۔ اس نوجوان کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر وہ اعتراف نامے پر دستخط کرنے سے انکار کرتا ہے تو اسے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت گرفتار کرلیا جائے گا۔
اس سے قبل دوسرے لوگوں نے بھی دہلی فسادات کے معاملات میں پولیس کی تفتیش کے دوران زبردستی ہونے کی اطلاع دی ہے۔
یہ الزام لگاتے ہوئے کہ پولیس کی تفتیش ’’منصوبہ بند ہے‘‘ اور منصفانہ نہیں ہے، بیان میں کہا گیا ہے کہ انکت اہرہ مقدمے کی چارج شیٹ میں چار ایک جیسے ’’اعترافی بیانات‘‘ تھے، وہیں دیال پور پولیس اسٹیشن کی جانب سے دائر رتن لال چارج شیٹ میں سات ایک جیسے بیانات اور اسی طرح کے 10 ایک جیسے بیانات جعفرآباد پولیس اسٹیشن کی چارج شیٹ میں ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ گوکلپوری پولیس اسٹیشن کے تحت دلبر نیگی کیس (ایف آئی آر نمبر 39/20) کی چارج شیٹ میں 12 میں سے 9 اعترافی بیانات ایک دوسرے کی زبانی نقل تھے۔
اس کی نشان دہی کرتے ہوئے کہ جس طرح سے تحقیقات جاری ہیں اور سی اے اے مخالف مظاہرین کو ہدف بنایا جارہا ہے اور انھیں فسادات کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے، بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سے تفتیشی ایجنسیوں میں لوگوں کا اعتماد کمزور ہوا ہے۔
اہم دستخط کرنے والوں میں فلمساز اپرنا سین، سابق بیوروکریٹ جواہر سرکار، تاریخ دان رامچندر گوہا، دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان، سابق گورنر مارگریٹ الوا، ماہر تعلیم زویا حسن، پرتھا چٹرجی، جیاتی گھوش، پونم بترا، نویدیتا مینن، سچاریتا سین، سابق سینئر سرکاری ملازم وجاہت حبیب اللہ، مدھو بھدوری، دیب مکھرجی، امیتابھ پانڈے، سندر بُرّا، ادیتی مہتا، میرا سنگھمترا، وانی سبرامنیم، چیانیکا شاہ، حسینہ خان، صحافی ودیا سبرامنیم، گیتا سیشو، منوج مِتّا، انجلی مودی، انتارا دیو سین، پرینکا بورپوجاری، سیاسی رہنما برندا کرت، اینی راجہ، کویتا کرشنن، فنکاران کرن سہگل، شودبرتا سین گپتا اور مصنف ارون واسودیو، سماجی کارکنان ارون رائے، سندیپ پانڈے، جمہوری حقوق کے کارکنان جگدیپ چھوکر، ہنری ٹیفانن، تیستا سیتلواڑ، جان دیال، لارا جیسانی ، بحریہ کے سابق چیف ایڈمیرل رامداس اور سائنس داں امیتابھ باسو شامل ہیں۔