دہلی فسادات: عدالت نے عمر خالد کے خلاف ’’میڈیا ٹرائلز‘‘ پر تنقید کی
نئی دہلی، جنوری 24: لائیو لا ڈاٹ اِن کی خبر کے مطابق دہلی کی ایک عدالت نے فروری 2020 میں قومی دارالحکومت میں تشدد سے متعلق ایک معاملے میں کارکن عمر خالد کے مبینہ اعترافی بیانات، بغیر یہ واضح کیے کہ ان کے بیانات ثبوت کے طور پر قابل قبول نہیں ہیں، شائع کرنے پر میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
عدالت عمر خالد کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کررہی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ میڈیا ٹرائل سے ان کے آزاد اور منصفانہ مقدمے کی سماعت کا حق متاثر ہورہا ہے۔
جمعہ کے روز ایک حکم نامے میں چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ دنیش کمار نے کہا کہ ایک رپورٹر کو بنیادی معلومات ہونی چاہئیں کہ پولیس اہلکار کے سامنے اعترافی بیان دینا بطور ثبوت قابل اعتماد نہیں ہے اور قاری کو بھی اس کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’’ایک رپورٹر کو قانون کا اتنا بنیادی علم ہونا چاہیے کیوں کہ قارئین/ناظرین حقائق کی تصدیق کیے بغیر خبروں کو درست سمجھتے ہیں… کسی بھی خبر میں یہ ظاہر نہیں کیا گیا ہے کہ میڈیا نے اپنے قارئین/ناظرین کو کوئی وضاحت پیش کی ہے کہ اس طرح کا بیان، اگرچہ واقعتاً بھی دیا گیا ہو، استغاثہ ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کرسکتا ہے۔‘‘
عدالت نے دائیں بازو کی ترجمان ویب سائٹ اوپ انڈیا کے ایک مضمون کا خصوصی طور پر ذکر کیا، جس میں عمر خالد کو ’’انتہا پسند، اسلام پسند اور ہندو مخالف دہلی فسادات کا ملزم‘‘ کہا گیا تھا۔
حکم میں کہا گیا ہے کہ ’’مذکورہ خبر میں پوری دہلی کے ہنگاموں کو ہندو مخالف فسادات کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ تاہم حقیقت میں ایسا نہیں ہے، کیوں کہ تمام برادریوں نے ان فسادات کے نتائج کو محسوس کیا ہے۔‘‘
عدالت نے کوئی ہدایت منظور نہیں کی، کیوں کہ خالد نے اپنی درخواست میں کوئی خاص مطالبہ نہیں کیا تھا، لیکن عدالت نے میڈیا تنظیموں سے کہا کہ وہ خود ضابطۂ اخلاق کی پاسداری کریں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر کسی میڈیا رپورٹ سے کسی کے وقار کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔