دہلی فسادات: دہلی پولیس نے عمر خالد اور شرجیل امام کے خلاف ضمنی چارج شیٹ دائر کی
نئی دہلی، 23 نومبر: بار اینڈ بنچ کے مطابق دہلی پولیس نے اتوار کے روز دہلی فسادات سے متعلق کیس میں عمر خالد، شرجیل امام اور فیضان خان کے خلاف مقامی عدالت میں 200 صفحوں پر مشتمل ضمنی چارج شیٹ داخل کی۔
ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ، اسلحہ ایکٹ، اور عوامی املاک سے متعلق ایکٹ کی کئی شقوں کے تحت دائر چارج شیٹ کو قبول کرلیا۔ واضح رہے کہ عمر خالد اور شرجیل امام عدالتی تحویل میں ہیں، جب کہ فیضان خان کو اکتوبر میں اس مقدمے میں ضمانت ملی تھی۔
200 صفحات پر مشتمل اس چارج شیٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ خالد نے فسادات پر کو اپنے منصوبے کے مطابق کرایا تھا، جس میں 53 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ چارج شیٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم نے مبینہ طور پر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے موقع پر تشدد بھڑکانے کا ارتکاب کیا تھا۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق چارج شیٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مظاہروں کا مقصد بین الاقوامی توجہ مبذول کروانا اور ’’اقلیت مخالف‘‘ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دباؤ بنانا تھا۔
دہلی حکومت نے 28 اکتوبر کو خالد اور امام پر مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی تھی، جس کے بعد 200 صفحات پر مشتمل یہ چارج شیٹ دائر کی گئی ہے۔ پولیس تینوں دیگر ملزمان کے خلاف ایک ماہ میں کیس میں تیسری چارج شیٹ داخل کرسکتی ہے۔
پولیس رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ کابینہ کی جانب سے نئے شہریت ترمیمی قانون کی منظوری کے بعد خالد نے ’’ہم خیال لوگوں کے ساتھ ملک گیر اتحاد‘‘ کو فروغ دیا۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق پولیس نے چارج شیٹ میں کہا ہے کہ اس نے مبینہ طور پر جے این یو کے ’’مسلم اسٹوڈینٹس‘‘ نامی ایک گروپ کی امام کی مدد سے رہنمائی کی۔
پولیس نے مزید کہا ہے کہ ’’خالد نے دسمبر 2019 میں جنوبی مشرقی ضلع میں تشدد کو تیز کرنے کے لیے ایم ایس جے کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے شاہین باغ احتجاج ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے موجودہ حکومت سے نفرت کرنے والوں کو متحد کیا، جس کے نتیجے میں واٹس ایپ پر دہلی پروٹسٹ سپورٹ گروپ تشکیل دیا گیا۔‘‘
دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس خالد کی اپنے معاونین سے ملاقات کا ثبوت ہے جہاں مبینہ طور پر اس نے اس تشدد کا خاکہ پیش کیا تھا۔