دہلی تشدد: پولیس نے زبردستی خوریجی مظاہرین کو ہٹایا، شاہین باغ میں سیکیورٹی میں اضافہ
نئی دہلی، فروری 26— پولیس نے بدھ کے روز خوریجی میں سی اے اے مخالف مظاہرین کو زبردستی اس بہانے سے ہٹایا کہ اس احتجاج سے تشدد پیدا ہوسکتا ہے جیسا کہ جعفرآباد، موج پور اور شمال مشرقی دہلی کے دیگر علاقوں میں ہوا تھا۔
دریں اثنا شاہین باغ میں احتجاجی مظاہرے کے قریب پولیس نے گھیراؤ کر لیا ہے۔
خوریجی کے مقامی سماجی کارکنوں نے بتایا کہ جگت پوری پولیس اسٹیشن میں حراست میں لیے گئے متعدد افراد میں دو افراد، ایک سابق کارپوریٹر عشرت جہاں اور ایک سماجی کارکن خالد سیفی بھی شامل ہیں۔
کارکنوں کا کہنا تھا کہ جب وکلا زیر حراست افراد کو قانونی مدد فراہم کرنے پہنچے تو پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور مبینہ طور پر انھیں "تھپڑ مارے”۔ وکلا کے موبائل فون بھی چھیننے کی اطلاع ہے۔
خواتین پولیس پر الزام کہ انہوں نے مزاحمت کرنے والی ایک خاتون مظاہر کو بھی پیٹا۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولوں کا استعمال کیا۔ جب پولیس وہاں پہنچی تو وہاں قریب 60 سے 70 خواتین مظاہرین تھیں، پولیس نے خیمہ توڑ دیا اور زبردستی مظاہرین کو سائٹ سے ہٹا دیا۔
مظاہرین نے میڈیا رپورٹرز کو بتایا کہ یہ احتجاج مکمل طور پر پرامن رہا ہے اور تشدد کے کسی واقعے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
خوریجی احتجاج 13 جنوری کو ایک مسلم ٹرسٹ سے وابستہ اراضی کے ٹکڑے پر شروع کیا گیا تھا اور یہ نہ تو ٹریفک میں رکاوٹ ہے اور نہ ہی کسی اور طرح کی پریشانی کا باعث تھا۔
موج پور اور دیگر علاقوں میں مسلح ہجوم کے ذریعے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے بعد پولیس نے سی اے اے مخالف مظاہرین کو جعفرآباد سے بھی اس بہانے سے ہٹا دیا کہ وہ بھی غنڈوں کے حملے میں آسکتے ہیں اگرچہ یہ پولیس کا فرض ہے کہ وہ تحفظ فراہم کرے کیونکہ احتجاج مکمل طور پر پرامن تھا۔
خورجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ بی جے پی کے زیر اہتمام ہمسایہ گیتا کالونی اور لکشمی نگر علاقہ میں ریلیوں میں اشتعال انگیز نعرے بازی کی گئی، جس سے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا گیا۔ پولیس نے مظاہرین کو بتایا کہ مظاہرین کی جان کو خطرہ ہے لہذا وہ انھیں دھرنے پر نہیں بیٹھنے دے سکتے ہیں۔