دہلی تشدد: شمال مشرقی ضلع میں ہجوم کے حملے کے بعد 60 سالہ سکریپ ڈیلر کی موت

نئی دہلی، فروری 29: ایک 60 سالہ سکریپ ڈیلر کی جمعہ کے روز شمالی مشرقی دہلی میں ہجوم کے ذریعے حملہ کیے جانے کے بعد موت ہو گئی، جب کہ پولیس نے دعوی کیا ہے کہ تشدد سے متاثرہ ضلع کی صورت حال پرسکون ہوگئی ہے۔ اتوار کے روز سے شمال مشرقی دہلی میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد نے اب تک 42 افراد کی جانیں لے لی ہیں۔

سکریپ ڈیلر ایوب شبیر سے اس کا نام اور مذہب پوچھا گیا اور پھر ہجوم نے اس پر حملہ کر دیا۔ شبیر اپنے 18 سالہ بیٹے سلمان انصاری کے ساتھ دہلی سے متصل غازی آباد میں ناسبندی کالونی میں رہتا تھا۔ انصاری نے بتایا جو کہ معذور ہے "میں نے اپنے والد کو آج باہر جانے کے بارے میں متنبہ کیا تھا لیکن انھوں نے کہا کہ اب صورت حال معمول کے مطابق ہے اور ہم زیادہ دن اندر نہیں رہ سکتے اور کچھ حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔”

انصاری نے دعوی کیا کہ جمعرات کے روز بھی اس کے والد پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس نے مزید کہا ’’جمعرات کی صبح کچھ بزرگ افراد نے انھیں بچایا تھا۔‘‘

اس نے مزید بتایا کہ ’’آج جب میں سو رہا تھا تو وہ بہت جلدی چلے گئے۔ صبح 6 بجے کے قریب دو افراد انھیں اسکوٹر پر گھر لے کر آئے۔ ان کے سر پر شدید چوٹیں تھیں۔ ان دونوں افراد نے بتایا کہ انھوں نے انھیں شیو وہار اور کاروال نگر کے درمیان والے علاقے میں پڑے ہوئے پایا۔‘‘

شبیر نے اسے فوری طور پر ہسپتال لے جانے کے لیے کہا کیونکہ اس کا کافی خون بہہ رہا تھا۔ تاہم ایک نجی کلینک لے جانے کے لیے ان کے بیٹے کو 3 کلومیٹر تک رکشے کی ٹوکری پر دھکیلنا پڑا اور اس سے علاج کے لیے 55 ہزار روپے ادا کرنے کو کہا گیا، جو وہ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے بعد وہ اسے آٹورکشا میں جی ٹی بی اسپتال لے گیا۔ انصاری نے بتایا ’’وہ آٹو رکشہ سواری کے دوران کچھ نہیں بول رہے تھے اور مجھے لگتا ہے کہ اس وقت تک وہ مر گئے تھے۔‘‘

انصاری نے مزید کہا ’’انھوں نے مجھے بتایا کہ انھیں ہجوم نے روک لیا اور پھر بے رحمی سے مارا پیٹا۔ لوگوں نے ان سے ان کا نام اور مذہب پوچھا اور پھر ان پر حملہ کیا۔ والد نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ وہاں کتنے لوگ تھے یا جنھوں نے اسے مارا وہ کون تھے۔‘‘

انصاری نے یہ بھی دعوی کیا کہ پولیس نے اس کے والد کو قریبی کلینک لے جانے میں اس کی مدد نہیں کی۔