دہلی اسمبلی میں این پی آر کے خلاف قرارداد منظور، عآپ کا دعویٰ ہے کہ اس سے اکثریتی برادری کو بھی نقصان ہوگا
نئی دہلی، 13 مارچ: دہلی اسمبلی نے مجوزہ قومی آبادی کے اندراج (این پی آر) کو نافذ کرنے کے خلاف جمعہ کو ایک قرار داد منظور کی۔ قرارداد پیش کرنے والی عام آدمی پارٹی کی حکومت نے دعوی کیا ہے کہ این پی آر، این آرسی کے ساتھ صرف ایک خاص مذہب کو نشانہ نہیں بنائے گا بلکہ اکثریت کی آبادی کو بھی متاثر کرے گا۔
پارٹی رہنما گوپال رائے نے اس معاملے پر تبادلہ خیال کرنے اور قومی دارالحکومت میں کوروناوائرس کی وبائی صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت کی طرف سے بلائی جانے والی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں یہ قرارداد پیش کی۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے جمعرات کو راجیہ سبھا میں کہا تھا کہ این پی آر کے لیے کسی دستاویز کی ضرورت نہیں ہوگی اور کسی بھی فرد کو "مشکوک” زمرے میں نہیں ڈالا جائے گا۔
دہلی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے رائے نے سوال کیا کہ شاہ کس بنیاد پر عوام کو این پی آر کے بارے میں یقین دہانی کروا رہے ہیں۔ رائے نے کہا ’’اٹل بہاری واجپائی حکومت نے شہریت کے قانون میں ترمیم کی تھی جس کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ این پی آر کے اعداد و شمار کے ساتھ اس کی مدد کی جائے گی۔ اس کے بعد تصدیق ہوگی۔ مشکوک اعداد و شمار کو مشکوک درجہ میں رکھا جائے گا۔ کیا 2003 کے قواعد میں ترمیم کی گئی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو NRC فطری طور پر این پی آر کی پیروی کرے گا۔‘‘
ہندوستان کی مردم شماری کی ویب سائٹ نے این پی آر کو "شہریوں کے قومی رجسٹر کے قیام کی طرف پہلا قدم” کے طور پر بیان کیا ہے۔ تاہم حکومت نے مستقل طور پر این آر سی، این پی آر اور شہریت ترمیمی قانون کے مابین روابط کی تردید کی ہے۔ رائے نے کہا ’’اس قسم کی کوئی بات برطانوی دور میں بھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ ہر شخص کی شہریت پر سوالات اٹھا رہا ہے۔‘‘
رائے نے کہا کہ جب آسام میں این آر سی کی مشق کی گئی تھی تو 19 لاکھ افراد، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں تھے، کو حتمی فہرست سے خارج کردیا گیا تھا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ این آر سی اور این پی آر کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اسمبلی میں قرارداد پیش کرتے ہوئے وزیر نے مزید کہا کہ اگر مرکز دہلی میں این پی آر پر عمل درآمد کرنے پر اصرار کرتا ہے تو اس عمل کو 2010 کی شکل میں انجام دیا جانا چاہیے۔ عآپ کے ایم ایل اے راگھو چڈھا نے کہا ’’ہندوؤں کو کہا جارہا ہے کہ انھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن لیکن اصل میں ہندو ہی اس کا بدترین شکار ہوں گے۔‘‘
نئے این پی آر فارم میں پیش کردہ سوالات میں والدین کی پیدائش، آدھار نمبر، پاسپورٹ نمبر، موبائل فون نمبر، ووٹر آئی ڈی نمبر اور مادری زبان کی تفصیلات شامل ہیں۔ این پی آر کے نئے اعداد و شمار کو مردم شماری کی مشق کے ساتھ ساتھ اپریل سے ستمبر تک اکٹھا کرنا ہے۔
تاہم مغربی بنگال اور کیرالہ جیسی ریاستوں اور کانگریس کے زیر اقتدار چند ریاستوں نے ان خدشات کے درمیان این پی آر پر کام روکنے کے احکامات جاری کیے ہیں کہ اس کا استعمال این آر سی کی مشق کے دوران غیر دستاویزی تارکین وطن کی شناخت کے لیے کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے حلیف اور بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے بھی کہا ہے کہ این پی آر کو ریاست میں اس کی نئی شکل میں لاگو نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے 2010 کے فارمیٹ کے مطابق ہی نافذ کیا جائے گا۔
ناقدین نے کہا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے ساتھ این آر سی بہت سارے ہندوستانی مسلمانوں کو بے ریاست کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ شہریت کے قانون میں مسلمانوں کو خارج کیا گیا ہے۔