دہلی اجتماعی زیادتی اور قتل کے مجرموں کو سات سال کی قانونی جنگ کے بعد پھانسی پر لٹکا دیا گیا
نئی دہلی، 20 مارچ: دہلی میں چلتی بس میں ایک نوجوان میڈیکل طالبہ کے ساتھ 6 افراد کے ذریعے اجتماعی عصمت دری اور اسے تشدد کا نشانہ بنانے کے سات سال بعد تہاڑ جیل میں اس کے چار مجرموں کو جمعہ کی صبح 5.30 بجے پھانسی دے دی گئی۔ پانچویں مجرم رام سنگھ نے تہاڑ جیل میں خودکشی کر لی تھی جب کہ چھٹا مجرم، جس کی شناخت محمد افروز کے نام سے ہوئی تھی، وہ نابالغ تھا اور تین سال کی سزا کے بعد رہا ہوا تھا۔ اس وقت وہ جنوبی ہندوستان میں کسی جگہ باورچی کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے ذریعے مجرموں کی آخری درخواست رد کیے جانے کے دو گھنٹے سے بھی کم وقت کے اندر صبح سویرے اس پر عمل درآمد ہوا۔ دہلی جیلوں کے ڈی جی سندیپ گوئل نے تصدیق کی کہ مکیش (31)، پون گپتا (24)، ونے شرما (25) اور اکشے کمار سنگھ (33) کو صبح 5.30 بجے پھانسی دے دی گئی۔ انھیں 16 دسمبر 2012 کو قومی دارالحکومت میں ایک چلتی بس میں 23 سالہ خاتون کے ساتھ زیادتی اور وحشیانہ حملے کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
جیل حکام نے بتایا کہ لاشوں کو آدھے گھنٹے تک لٹکایا گیا تھا، جو جیل کے قواعد کے مطابق پھانسی کے بعد کا لازمی طریقۂ کار ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی جیل، تہاڑ جیل میں چار افراد کو ایک ساتھ پھانسی دی گئی، اس جیل میں 16،000 سے زیادہ قیدی ہیں۔
پھانسی سے بچنے کی آخری کوشش کرتے ہوئے مجرموں نے پھانسی سے چند گھنٹے قبل دہلی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دروازے کھٹکھٹائے تھے۔ پھانسی دینے سے چند گھنٹے قبل پون کمار گپتا نے صدر کی جانب سے رحم کی دوسری درخواست کو مسترد کرنے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
رات گئے ایک غیر معمولی سماعت میں، جو رات 2.30 بجے شروع ہوئی اور ایک گھنٹہ جاری رہی، سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے ان کی آخری درخواست خارج کردی، جس کے بعد ان کی پھانسی پر عمل درآمد کی راہ ہموار ہوگئی۔ عدالت نے گپتا اور اکشے سنگھ کو پھانسی پر چڑھائے جانے سے قبل اپنے کنبہ کے ممبروں سے ملنے کی اجازت دینے سے متعلق کوئی بھی ہدایت منظور کرنے سے بھی انکار کردیا۔
متاثرہ کے والدین نے مجرموں کی پھانسی پر رد عمل کا اظہار ہوئے کہا کہ ’’اس سے خوشی ہوئی کہ ان کی بیٹی کو سات سال طویل قانونی جدوجہد کے بعد بالآخر انصاف ملا‘‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ اپنی ’’ہندوستان کی بیٹیوں کے لیے لڑائی جاری رکھیں گے۔‘‘